تاریخ کو بدلا تو نہیں جا سکتا مگر ماضی میں ڈھائے گئے مظالم پر شرمسار تو ہوا جا سکتا ہے۔ بھارت میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر نے جلیانوالہ باغ کی یاد گار پر پھول چڑھانے کے بعد ملکہ برطانیہ کا پیغام پڑھتے ہوئے کہا کہ ہم تاریخ کو شاید دوبارہ لکھنا چاہتے ہیں لیکن یہ ممکن نہیں البتہ ہم تاریخ سے صرف سبق سیکھ سکتے ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ خود کو مہذب اور ترقی یافتہ کہنے والی دنیا تاریخ سے سبق حاصل کرنے پر آمادہ نہیں اور بار بار اسی ظالمانہ تاریخ کودوہرانے پر مصر ہے۔ جلیانوالہ باغ نہ سہی۔ عراق و افغانستان اور ویت نام سہی۔ ظلم کی داستان وہی ہے۔ 1919ء میں برٹش انڈیا، بغیر مقدمہ چلائے نظر بندی کے لئے رولٹ بل لایا گیا جو سراسر کالا قانون تھا اور انسانی حقوق کا واویلاکرنے والی برطانوی حکومت کے چہرے پر بدنما داغ تھا۔ اس قانون کے خلاف ہندوستان بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ اس سلسلے میں امرتسر میں بڑے پرجوش جلسے منعقد ہوئے۔ یہ جلسے جلوس کسی ایک جماعت یا کسی ایک قوم کی طرف سے نہ تھے بلکہ حصول آزادی اور آزادی تحریر و تقریر کے لئے چلائی جانے والی مشترکہ تحریک سب کی طرف سے تھی۔13اپریل 1919ئ، ٹھیک ایک صدی پہلے بروز اتوار 4بجے شام شہری اپنے رہنمائوں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر سیتہ پال کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے لئے جلیانوالہ باغ میں جمع ہوئے۔ یہ باغ دو سو گز لمبا اور ایک سو گز چوڑا تھا۔ اس کے چاروں طرف دیوار تھی اور دیوار کے ساتھ ہی مکانات تھے۔ باہر نکلنے کے لئے ایک چھوٹا سا تنگ راستہ تھا۔ باغ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ لوگ مقررین کی تقریریں نہایت انہماک کے ساتھ سن رہے تھے کہ انگریز فوج کا بریگیڈیئر ڈائر انگریز اور ہندوستانی فوجیوں کے ساتھ باغ میں داخل ہوا اور بغیر کسی انتباہ کے اس نے پرامن شہریوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کرنے کا حکم دیا۔ تڑا تڑ گولیاں چلنے لگیں‘ انسانوں کے لاشے گرنے لگے‘ زخمی بہتے ہوئے خون اور زخموں کی شدت سے تڑپنے اور کراہنے لگے۔ برطانوی حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق اس قتل عام میں 379ہندوستانی ہلاک ہوئے جن میں ہندو مسلم اور سکھ سبھی شامل تھے۔موجودہ برطانوی وزیر اعظم ٹریسامے نے دو روز پہلے ایک سو برس قبل قتل عام کے اس واقعے کو برطانوی تاریخ پر سیاہ دھبہ قرار دیا۔ انہوں نے اظہار افسوس تو کیا مگر برصغیر کی پونے دو ارب آبادی سے کسی قسم کی معافی مانگی اور نہ ہی اظہار معذرت کیا۔ اس سے پہلے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون بھی اس واقعے کو قابل افسوس قرار دے چکے ہیں مگر اس سلسلے میں سرکاری سطح پر برطانیہ نے کوئی معافی نامہ جاری نہیں کیا۔ برطانوی حکومت ایسا کر بھی نہیں سکتی اور نہ ہی کرے گی کیونکہ وہ حقیقی معنوں میں شرمندہ و نادم نہیں۔ اگر اس وقت کی برطانوی حکومت کا انسانی ضمیر زندہ ہوتا تو وہ فوری طور پر بریگیڈیئر کا کورٹ مارشل کرتی۔ اس کے برعکس ہندوستانیوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے قاتل ڈائر کو بریگیڈیر کے عہدے سے ترقی دے کر جنرل بنا دیا گیا۔ استعماری چہرے پر برطانیہ جیسے ممالک’’تہذیب و شائستگی‘‘ کا لاکھ سرخی پائوڈر لگا لیں۔ مگر انسانی حقوق کے حوالے سے ان کا اندرون چنگیز سے تاریک تر ہے۔1920ء میں برطانوی پارلیمنٹ کے اندر وہ برطانوی وزیر اعظم تقریر کر رہا تھا کہ جسے سیاسی و ادبی خطابت کا شہنشاہ کہا جاتا تھا۔ سرونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ میری نظر میں برطانوی سلطنت کی جدید تاریخ میں اس واقعے کی کوئی مثال نہیں ملتی یہ ایک غیر معمولی اور وحشت ناک واقعہ ہے جو اپنی ہولناکی میں یکتا ہے۔ چرچل نے بھی اس ’’مذمت‘‘ میں الفاظ کے ہیر پھیر سے کام لیا ہے اور یہ نہیں کہا کہ ہم ساری ہندوستانی قوم سے شرمندہ ہیں اور معافی کے طلب گار ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک بار فرمایا تھا۔’’جلیانوالہ باغ میں حادثہ ہماری جسمانی قربانی تھی اور سائمن کمشن کا تقرر ہماری روح کی موت ہے‘‘ یہ 20ویں صدی کے اوائل کا واقعہ تھا پھر 21ویں صدی کے بالکل اوائل 2002ء میں جلیانوالہ باغ کے قتل عام سے بڑھ کر وحشت ناک اورہولناک سانحہ بھارتی ریاست گجرات میں پیش آیا تھا۔ جہاں موجودہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اس وقت وزیر اعلیٰ تھا۔28فروری کو گودھرا ریل میں تیل کے کسی چولہے یا کسی کی شرارت سے گاڑی میں آگ بھڑک اٹھی جس میں 59ہندو زائرین ہلاک ہو گئے۔ یہ انتہائی قابل افسوس حادثہ تھا۔ حادثے کی تحقیقات کرنے کی بجائے ہندوئوں نے آن واحد میں مسلمانوں کو موردالزام ٹھہرا دیا۔ تین روز تک سارے گجرات بالخصوص احمد آبادمیں ہندوئوں نے مسلمانوں کو انتہائی بے دردی سے قتل کیا یا زندہ جلا دیا۔ ہندو بلوائیوں کو روکنے کی بجائے نریندر مودی نے پولیس کو مداخلت کرنے سے روک دیا اور وحشی قاتلوں کو ہندوستان کے ہی شہریوں کی جان و مال اور عزت و آبرو سے کھل کھیلنے کی مکمل آزادی دی۔ اسی قتل و غارت گری کے دوران احمد آباد کے علاقے گلبرگ میں 69مسلمانوں کو زندہ جلانے کا انتہائی انسانیت سوز سانحہ بھی پیش آیا۔ اس سانحے میں بھارتی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق 1000انسانوں کو ہلاک کیا گیا جبکہ غیر جانبدارعالمی اداروں کے مطابق کم از کم اڑھائی ہزار مسلمانوں کو قتل کیا گیا اور سینکڑوں عفت مآب مسلمان عورتوں سے زیادتی کی گئی۔ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اس قتل عام پر بظاہر تشویش کا اظہار کیا تھا اور آرمی چیف کو وہاں فوج بھیجنے کی ہدایت کی۔ بھارتی آرمی چیف نے یہ ذمہ داری لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ کے سپرد کی تھی۔ جنرل شاہ نے بعدازاں اپنی کتاب’’دی سرکاری مسلمان‘‘ میں انکشاف کیا۔’’حکم ملتے ہی فوج کے دستے فضائیہ کے طیاروں میں سوار ہو کر احمد آباد پہنچ گئے۔ تقریباً دو روز تک ہم ایئر پورٹ پر بیٹھے رہے مگر ہمیں وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے ٹرانسپورٹ فراہم کی نہ ہی ہدایات کے مطابق گائیڈز اور مجسٹریٹ کا انتظام کیا۔ جنرل شاہ کا کہنا ہے کہ وہ ایئر پورٹ پر اترتے ہی سیدھا وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ گئے جہاں اس وقت کے وزیر دفاع جارج فرنانڈیز بھی موجود تھے۔ وزیر اعلیٰ نے ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کا وعدہ کیا مگر پوری رات اور اگلا دن بھی گزر گیا اور بالآخر 2مارچ کی صبح دس بجے گاڑیاں اور گائیڈ فراہم کئے گئے۔ اس طرح سے 21ویں صدی کے ڈائر نے تین روز تک نہ پولیس کو مسلمانوں کی مدد کے لئے جانے دیا اور نہ ہی فوج کو قتل عام روکنے کے لئے ضروری سہولتیں بہم پہنچائیں۔ بھارتی جنرل ڈائر نریندر مودی کی یورپی یونین نے کھل کر مذمت کی اور نہ ہی امریکہ نے گجرات کے قصاب کے انتہائی ہولناک جرم اور انسانی حقوق کی بدترین پامالی پر کسی عالمی عدالت میں اس کے خلاف مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا۔ اگر 13اپریل کو بھارتی شہریوں نے جلیانوالہ باغ کے مقتولین کی یاد میں شمعیں جلائیں تو اچھا کیا اور بھارتی وزراء نے برطانوی حکومت سے جلیانوالہ باغ کے واقعے پر سرکاری معافی کا مطالبہ کیا تو اور بھی اچھا کیا۔ مگر انہیں بھارتی جنرل ڈائر نریندر مودی سے بھی اس کے انسانیت کش رویے پر معافی کا مطالبہ کرنا چاہیے اورکشمیر کو جلیانوالہ بنانے پر اس کا بھر پور محاسبہ کرنا چاہیے۔ جب تک ’’مہذب دنیا‘‘کشمیر و فلسطین میں انسانیت کے قتل عام کی سچی مذمت نہیں کرے گی اور مظلومین کی عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق داد رسی نہیں کرے گی اس وقت تک جنرل ڈائر پہلے سے زیادہ ہولناک روپ میں پیدا ہوتے رہیں گے۔