ہر حکومت کو حق ہے کہ وہ اپنے دور کی کارکردگی کا تذکرہ و تجزیہ کرے۔ وہی پرانی بات ‘ کیا کھویا ہے کیا پایا ہے تاہم ایسا ہوتا نہیں ہے۔ جو ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ حکومتیں ایسے وقت اپنے دور کی خوبیاں تلاش کر کے بیان کرتی ہیں۔نہیں ہوتیں تو انہیں گھڑ لیتی ہیں۔ کسی حکومت سے یہ توقع کرنا کہ وہ ایسے موقع پر سچ کہے گی اور سچ کے سوا کچھ نہیں کہے گی‘ ایک عبث بات ہے۔ یہاں مگر ایک بہت اہم معاملہ ہے کہ حکومت کو اپنی کارکردگی دکھانے کا شوق کب اور کیسے ستاتا ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب وہ سمجھتی ہیں کہ عوام کو ان کی کارکردگی پر شکوک پیدا ہو رہے ہیں۔اس سلسلے میں دو مثالیں اہم ہیں، ایک تو ایوب خاں کی مثال وہ ایک مسیحا بن کر قوم پر نازل ہوا تھا اس کا خیال تھا اس نے بہت کچھ کیا ہے۔جب اسے پہلے کراچی انتخاب کا سامنا کرنا پڑا تو اس کے قدم ڈگمگائے‘ کیونکہ قوم کی ماں مقابل میں آ گئی۔ چونکہ یہ انتخاب براہ راست نہیں تھے اس لئے ایوب نے میدان مار لیا مگر دلوں کی دنیا میں ہار گیا۔ وہ گرد اڑی کہ نتھری ستھری چیزیں بھی دھندلا اور گدلا گئیں۔ اس ملک کو سینہ تان کر آئین دینے والا‘ ایک نئے جمہوری نظام کی بنیاد رکھنے والا اور اپنے سینے میں اور بہت سے تمغے سجا کر اکڑنے والاپژمردہ ہو گیا۔ کیا کچھ نہیں کیا اس کے حواریوں نے مادر ملت کے بارے میں اور خود ایوب خاں کی شان میں۔ ایوب مگر اندازہ کر چکا تھا کہ اس کی ہوا اکھڑ چکی ہے۔ جنگ چھڑ گئی تو ایک موقف یہ بھی تھا کہ شاید یہ اس کے کام آ جائے۔ کسی نے کہا اسے جنگ میں جھونکا گیا۔ یہ اس کے اپنے آدمی تھے جو ایوب کو ڈیڈی کہتے تھے۔ جنگ میں ایک فضا بنی مگر ملک کے کندھوں پر بہت بوجھ تھا یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ہمالہ جیسا بوجھ تھا۔ جنگ کے بعد فیلڈ مارشل کو تاشقند جا کر ایک معاہدہ پر دستخط کرنا پڑے جہاں اس کے چہیتے وزیر خارجہ نے بھی پرپرزے نکالنا شروع کر دیے۔ یہی وہ دن تھے جب بوڑھے فیلڈ مارشل کو اپنے کارنامے یاد آئے۔ اس کے مشیروں نے مشورہ دیا کہ وہ اپنے اقتدار کے دس سال کا جشن منائے۔ اسے عشرہ ترقی کا نامہ دیا گیا۔ ایوب خاں اس لحاظ سے خوش قسمت تھا کہ اس کے ساتھ ملک کے بڑے بڑے دانشور تھے۔ یہی نہیں اس کی حکومت کے اندر بھی۔ افسر شاہی میں بھی کمال کے لوگ موجود تھے۔ شاید وجہ یہ تھی کہ ہمارا دانشور اس وقت جمہوریت کی عظمت کو نہ سمجھ سکا تھا اور اس فوجی بغاوت کو انقلاب قرار دیتا رہا۔ اب تاریخ دان کہتا ہے کہ اس جشن انقلاب نے لوگوں کو ہشیار کر دیا۔ وہ ساری چوٹیں یاد آ گئیں جو اس عرصے میں وطن عزیز کے جسد سیاست نے برداشت کی تھیں۔ پھر جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے تاہم یہ وضعدار جرنیل بہت تمکنت سے یہ کہتے ہوئے رخصت ہو گیا کہ میں ملک کی تباہی پر صدارت نہیں کر سکتا۔چلیے اس میں اتنی غیرت تو تھی اس نے اور بہت کچھ کہا تھا اس نے البتہ غلطی یہ کی یا اس سے کرائی گئی کہ اس نے اقتدار اپنے ہی دیے ہوئے آئین کے مطابق عوامی نمائندوں کو دینے کے بجائے فوج کے سربراہ کے سپرد کر دیا جو بالآخر ملک توڑ کر رخصت ہو گیا رہے نام اللہ کا۔ سوال یہ ہے کہ اس نے تو دس سال گزارے تھے اور بہت کچھ اپنی بصیرت کے مطابق کیا تھا۔ اس حکومت کو اتنی جلدی کیا تھی کہ یہ دو سال ہی میں اپنی عظمتوں کے گن گانے لگ گئی ہے۔ زندگی بھر کی کمائی کو یکجا کر نے کا وقت توآخری وقت میں آتا ہے۔ کوئی نوجوا ن شاعر کلیات چھاپتااچھا نہیں لگتا۔ یہ سب کچھ آپ ایسے وقت کر رہے ہیں جب کہ آپ کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے۔ آپ کے گن گانے جو بھی میدان میں آتا ہے وہ معذرت خواہانہ دھن ہی چھیڑتا ہے یا مسخرہ دکھائی دیتاہے اب بھی یہ بتایا جا رہا ہے کہ آنے والے دن بہت روشن ہوں گے۔ اسد عمر نے کیا چھکا لگایا کہ کپتان کریز پر جم چکا ہے اب لمبی اننگز کھیلے گا۔ جم جم کھیلے مرا کپتان۔ اس کا مگر مطلب یہ ہے کہ ابھی تک بال اس کے بیٹ پر نہیں آ رہی تھی۔ وہ ڈگمگا رہا تھا ویسے اصل بات یہ ہے کہ آنے والی اننگز کی نوید اہم نہیں۔ اہم یہ ہے کہ پہلی اننگز میں بالنگ کیسی کی ہے۔ کیسے ان ڈپر تھے کیسی ان سوئنگ تھی۔ وغیرہ وغیرہ۔ہاتھ پلے کچھ ہے بھی یا نہیں۔ فقرے بازی کبھی کبھی مخالفوں کو ۔ اور مہمیزلگاتی ہے۔ جواب میں جو اعداد و شمار آ رہے ہیں وہ آنے والے دو سالوں میں گلے پڑے رہیں گے۔ اب بھی آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ بس اب دیکھو ہم کیا کرتے ہیں۔ ہم نے سب تیاریاں کر لی ہیں، بعض سوال ایسے ہیں جن کا حکمرانوں کے پاس کوئی جواب نہیں مثال کے طور پر پہلوں نے معیشت کی ترقی ساڑھے پانچ فیصد سے زیادہ چھوڑی‘انہوں نے کورونا سے پہلے ہی اسے منفی کر ڈالا۔شور تھا کہ پہلوں نے قرضے بہت لیے تھے۔ معلوم ہوا کہ انہوں نے دو سال ہی میں حساب بے باق کر ڈالا ہے اس سے زیادہ قرضے لے ڈالے۔ یہ سب گلے پڑ جائے گا۔ قوموں کے قرضے افراد کے قرضوں کی طرح نہیں ہوتے۔ تم شور مچاتے رہے ہم کشکول توڑ دیں گے قرضے نہیں لیں گے، نہ آئی ایم ایف کے پاس جائیں گے۔ ایکسپورٹ بڑھی نہیں اور امپورٹ آپ نے بند کر کے جشن منانا شروع کر دیا۔ یہاں میں معاشیات کے نکتے بیان نہیں کرنا چاہتا ہر چیز کا برا حال ہے۔ اب آپ کو انرجی کا مسئلہ نہیں ہے زراعت کے میدان کھلے ہیں۔ آپ نے جوکرنا تھا کر لیا۔ گندم اور چینی کا بحران پیدا ہوا جو قابو نہیں آ رہا۔ ۔ہم بہت بھی سدھرے تو حالات معمول پر آنے میں بھی دو چار سال لگ جائیں گے۔ مطلب آپ نے اتنا نقصان کر دیا ہے کہ سنبھالے نہیں سنبھلے گا۔کوئی کل سیدھی نہیں کوئی ایک کروڑ افراد بے روزگار ہو چکے ہیں اور اتنے ہی لوگ خط غربت سے نیچے جا چکے ہیں۔یہ پہلا موقع ہے کہ ہمارے قابل احترام ادارے بھی حالات قابو کرنے میں مشکلات سے دوچار ہیں۔ زیادہ امتحان نہ لیں۔ نہ اپنے اداروں کا نہ عوام کی جمہوری امنگوں کا۔ جشن منانے سے کچھ نہیں ہو گا سب جانتے ہیں کہ ’’شادی‘‘ ادھار لے کر کی گئی ہے۔ولہا کے ہاتھ پلے کچھ نہیں ہے۔