معروف صحافی منیر احمد منیر، میرے دیرینہ کرم فرما ہیں۔ قائد ِاعظم سے ان کی عقیدت، عشق کے درجے کو ہی نہیں پہنچی، اس کے نت نئے اور دلآویز پہلو دکھا بھی رہی ہے! جس پائے کی کتابیں، منیر صاحب لکھتے، مرتب کرتے اور شائع کرتے ہیں، انہیں ہاتھ لگانے میں ہی، اچھے اچھے مصنفوں کی سانس اکھڑ جائے! تحقیق اور تاریخ کی جو منزلیں منیر صاحب سر کر چکے ہیں، بڑے بڑے دانش ور اور "ڈاکٹر"ان میں قدم دھرتے ہی خون تھوک جائیں! محقق اور تاریخ نویس کو مصور کا مْوقلم نہیں، کیمرے کی آنکھ درکار ہے۔ اس نظر سے دیکھیے تو منیر صاحب کا قلم بھی ایسی ہی بے تعصبی اور غیر جانبداری رکھتا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ ملا کی دوڑ مسجد تک۔ سو اسی کے مصداق، تحریک ِآزادی اور اس کے بعد کی تاریخ کے بارے میں، کوئی سوال ہو یا اشکال، میں انہی کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہوں۔ ع اے لقایِ تو، جواب ِہر سوال ان سے برس ہا برس کی نیازمندی ہے، لیکن بالمشافہ ہونے کی تقریب ابھی تک نہیں ہو سکی۔ عربی میں کہا جاتا ہے کہ المکتوب نصف الملاقات۔ اس حساب سے، ٹیلی فونک گفتگو کم از کم پونی ملاقات ہے! سو ایک مدت سے، یہی ملاقات چلی آ رہی ہے! منیر صاحب کی ایک پرانی تصنیف کا، اب نیا ایڈیشن چھپا ہے۔ کتاب کا نام اور موضوع ہیں "مولانا ابوالاعلیٰ مودودی"۔ مولانا پر دس بیس نہیں، بیسیوں کتابیں اور سینکڑوں ہزاروں مضامین نکل چکے ہیں۔ بلکہ جماعت ِاسلامی نے تین ضخیم جلدوں میں بڑی تزئین و آرائش کے ساتھ، مولانا پر لکھے گئے مضامین اور خاکوں کے انتخاب چھاپ دیے ہیں۔ افسوس کہ یہ مجموعے "پوست" زیادہ ہیں اور "گوشت" کم! اسے کے برعکس، منیر صاحب کی تصنیف، یکسر مختلف انداز سے لکھی گئی ہے۔ شخصیات کا حال لکھنے والے عموماً یا ثریا کی سیر کراتے ہیں یا ثریٰ میں لے جا گراتے ہیں۔ منیر صاحب کا کوئی تعلق، جماعت ِاسلامی سے نہ اب ہے اور نہ رہا ہے۔ ان کی بے تعصبی اور غیر معمولی محنت کی بدولت، یہ کتاب اپنے وقت کی، غالبا، سب سے بڑی شخصیت پر لکھی گئی، غیرجانبدارانہ دستاویز بن چکی ہے! ذاتی طور پر، مجھے ابوالاعلیٰ سے بھی زیادہ دلچسپی، ان کے برادر ِبزرگ ابوالخیر مودودی سے رہی ہے۔ نہایت مسرت ہوئی یہ دیکھ کر کہ کتاب میں ایک انٹرویو ابوالخیر صاحب کا بھی ہے۔ کتاب سے، دسیوں نئی چیزیں ان بھائیوں کے باہمی تعلقات کے بارے میں پتا چلیں۔ سید ابوالاعلیٰ جتنے زیادہ پبلک لائف میں رہے، ابوالخیر اتنے ہی "عوام" سے گریزاں تھے! ان بھائیوں کے اختلافات کی بہت سی کہانیاں سن رکھی تھیں تاہم اب پتا چلا کہ ابو الخیر کو اعتراض صرف یہ تھا کہ سیاست جیسی گندی چیز سے، کوئی شخص صاف برآمد نہیں ہو سکتا! مولانا محمد علی جوہر نے قوم کی بے مثال خدمت کر کے، زندگی میں کیا پایا؟ قائد ِاعظم اپنے خرچ پر، فرسٹ کلاس میں سفر کرتے تھے۔ ابوالاعلیٰ کی جیب تو خالی ہے، پھر کس برتے پر سیاست کرنے چلے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ کتاب میں سینکڑوں دلچسپ واقعات اور فقرے ملیں گے۔ ظلم ہو گا اگر چند ایک کی سیر، یہاں نہ کرا دی جائے۔ منیر صاحب لکھتے ہیں "1970 میں بھارتی اور اسرائیلی مدد سے شیخ مجیب الرحمٰن نے محب ِوطن بنگالیوں، یعنی پاکستانیوں پر، عرصہ حیات تنگ کرنا شروع کیا تو مولانا مودودی کی جماعت ِاسلامی نے ان کے تحفظ کے لیے بنگالی نوجوانوں پر مشتمل "البدر" اور "الشمس" قائم کیں۔ وہ محب ِوطن آج بھی وہاں اپنی پاکستانیت کی سزا پا رہے ہیں"۔ سقوط ِمشرقی پاکستان کا سید صاحب کو ایسا دھاکا بیٹھا کہ پھر ان کی صحت سنبھل نہ سکی۔ لاہور میں منعقدہ اسلامی سربراہی کانفرنس میں، وہ یہ کہہ کر شریک نہیں ہوئے کہ "میں یہ برداشت نہیںکر سکتا کہ مجیب الرحمٰن، جس نے غداری کر کے اس ملک کو توڑا، میرے سامنے بیٹھا ہو"۔ یہ کریڈٹ سید صاحب کو جاتا ہے کہ ایوب خان کے مقابلے میں، مادر ِملت کی انہوں نے کھْل کر حمایت کی۔ انتخابات میں دھاندلی کرانے کے بعد، بھٹو صاحب کے اقتدار کے جب آخری دن چل رہے تھے، وہ سید صاحب سے ملنے آئے۔ ابوالاعلیٰ نے ان سے صاف کہا کہ آپ فورا استعفٰی دیجیے۔ پھر آپ کی جان بچانے کی میں پوری کوشش کروں گا ورنہ آپ کا بچنا مشکل ہے۔ لیکن بھٹو پون گھنٹا، دنیا بھر کے قصے بیان کرتے رہے، استعفیٰ کی طرف نہیں آئے۔ بھٹو پر سب سے دلچسپ تبصرہ، ابوالخیر صاحب کا ہے۔ انتخابات میں بھٹو کے بلامقابلہ جیتنے کی خبر سن کر ابوالخیر نے کہا کہ آج یہ شخص اپنی قبر کھود کر اس کے کنارے آ بیٹھا ہے۔ اب انتظار ہے کہ اسے دھکا کون دیتا ہے! جوش ملیح آبادی سے مودودی برادران کے تعلقات کا ذکر، ان سطور میں پہلے بھی ہو چکا ہے۔ ریڈیو پاکستان والوں نے ابوالاعلیٰ سے پوچھا کہ جوش صاحب کے بارے میں آپ کی راے کیا ہے؟ جواب ملا کہ میں انہیں اچھا نہیں کہہ سکتا اس لیے کہ وہ دیندار نہیں ہیں۔ اور بْرا اس لیے نہیں کہنا چاہتا کہ میرے ان سے بہت پرانے تعلقات ہیں۔ اسی طرح ایک نہایت دلچسپ شخصیت دلی کے جلالی بزرگ اور مودودی برادران کے استاد مولانا عبدالسلام نیازی ہیں۔ مولانا عبدالسلام فلسفہ، ریاضی اور مذہبیات سمیت، بیسیوں علوم میں تیرے ہوئے تھے۔ وہ اس پاے کے عالم تھے کہ بڑے بڑے زعماء کے علاوہ، وزراء بھی ان کے گھر، حاضری دینے آتے تھے۔ مولانا کی کسوٹی اتنی کڑی تھی کہ کم ہی لوگ اس میں پورا اترے۔ اکثر کو، وہ گھر کی سیڑھی کے پہلے ہی قدم سے یہ کِہ کر پلٹا دیتے کہ بس آپ کی قسمت میں سیڑھی کا یہی پایا لکھا تھا، گاڑی بڑھائیے! اَور تو اَور، جواہر لال نہرو، وزیر ِاعظم ہندوستان بننے کے بعد، ان سے ملنے کے لیے آئے تو یہ کہہ کر دروازہ بند کر دیا کہ پنڈت جی! خدا حافظ! مولانا عبدالسلام شاعروں میں مداح تھے صرف علامہ اقبال کے! علامہ جب دلی تشریف لے جاتے تو مولانا کے لیے کبوتروں کا تحفہ ساتھ لے جاتے۔ پھر ان میں خوب علمی بحثیں ہوتیں۔ جوش ملیح آبادی سے پہلی ہی ملاقات میں، مولانا کہتے ہیں کہ تمہارا دماغ، شیطان کی کھڈی (بیت الخلا) ہے! جوش صاحب جیسا برخود غلط آدمی، دم نہ مار سکا، چْپکا بیٹھا سنتا رہا۔ مولانا کہا کرتے تھے کہ عمر بھر میں مَیں نے، صرف ڈھائی لوگوں کو پڑھایا ہے! دو ہوئے مودودی برادران اور آدھے کوئی تیسرے صاحب۔ مولانا کا حافظہ بھی، عجائبات میں سے تھا۔ بقول سید ابواعلیٰ، انہیں اسی کتابوں کے متن حرف بحرف یاد تھے۔ تفسیر بیضاوی کی چالیس کی چالیس جلدیں انہیں ازبر تھیں۔ امتحان کی غرض سے سید صاحب، تفسیر کی کوئی سطر چھوڑ دیتے تو آواز آتی۔ "سید بادشاہ!"۔ اور پھر مولانا وہ پورا صفحہ سنا دیتے۔ آخر میں یہ لطیفہ بھی سنیے کہ سید ابوالاعلیٰ کو پنجابی کا صرف ایک فقرہ آتا تھا "ہْن کی کراں؟"۔ مولانا کی وفات کے بعد، یہی سوال پچھلے چالیس برسوں سے، جماعت ِاسلامی کو بھی درپیش ہے۔