جماعت اسلامی کی دیانت و امانت اور اس کی جرات و شرافت کے ساتھ رومانس رکھنے والوں کی آج بھی کمی نہیں۔ 1970ء کی دہائی میں یہ رومانس پروان چڑھا جب جماعت اسلامی ذوالفقار علی بھٹو کے سوشلزم کے خلاف خم ٹھونک کر کھڑی ہو گئی۔ ان دنوں اسلام کے ساتھ جذباتی و قلبی وابستگی رکھنے والے کو مولانا مودودی کے ایک نعرے نے بے پناہ جوش و جذبہ اور ولولہ تازہ عطا کیا۔ مولانا نے حق الیقین کی پوری قوت سے پاکستان کی ملت اسلامیہ کو پیغام دیا کہ جب تک ہمارے سر ہماری گردنوں پر قائم ہیں اس ملک میں سوشلزم نہیں آ سکتا۔مولانا نے اس سے آگے بڑھ کر ایک مردِ دانا و بینا کی حیثیت سے مستقبل کے پردوں میں جھانک کر یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ دن دور نہیں کہ جب سوشلزم اور کمیونزم ماسکو اور لینن گراڈ کی گلیوں میں خوار و رسوا ہو گا کیونکہ یہ غیر فطری نظام قائم نہیں رہ سکتا۔ مولانا مودودی کی وفات کے ٹھیک دس برس بعد1989ء میں گوربا چوف کے ہاتھوں کمیونزم کی آہنی فصیل دھڑام سے نیچے آن گری۔ یہ اسی عزم صمیم کا نتیجہ تھا کہ 31مئی 1970ء کو لاہور کی شاہراہوں پر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی ‘ نوابزادہ نصراللہ خان‘ آغا شورش کاشمیری۔جنرل (ر) سرفراز‘مولانا گلزار احمد مظاہری اور قاضی عبدالنبی کوکب کی قیادت میں ’’شوکت اسلام‘‘ کے نام سے بے مثال ریلی نکالی گئی۔تاہم 1970ء کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی کو خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی۔ مولانا مودودی نے اپنی زندگی میں ہی جماعت اسلامی کی قیادت مرد درویش میاں طفیل محمد کے سپرد کر دی تھی‘ میاں طفیل محمد نے بھی خدمت خلق اور جرأت و شجاعت کی تابندہ مثالیں قائم کیں۔ میاں صاحب کے بعد قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوئے ان کی امارت تقریباً دو عشروں تک قائم رہی۔ قاضی صاحب نے جماعت میں ایک نئی روح پھونک دی۔ ان کی امارت کا نقطہ عروج متحدہ مجلس عمل کا قیام اور اس کے جھنڈے تلے عام انتخابات میں شاندار کامیابی تھی۔سید منور صاحب کراچی میںایک محبوب و مقبول نوجوان کی حیثیت سے ابھرے تھے اور پھر ایک طویل عرصے تک کراچی کی گلیاں ’’صبح منور شام منور‘ روشن تیرانام منور‘‘ کے نعروں سے گونجتی رہیں۔ سید منور صاحب قاضی صاحب کے بعد امیر جماعت رہے۔ ان کے بعد جماعت اسلامی کی قیادت و سیادت کا قرعۂ فال نوجوانوں کے ہر دلعزیز رہنما سابق وزیر خزانہ کے پی کے سراج الحق کے نام نکلا۔ جن کے پانچ سالہ دور میں جماعت کا جہاز ’’ہموار پرواز‘‘ کرتا رہا اور بڑی حد تک ہچکولوں اور دھچکوں سے محفوظ رہا۔ تاہم جماعت اسلامی کو2018ء کے انتخابات میں کامیابی نہ ملی۔ ہم نے یہ مختصر پس منظر اس لئے بیان کیا کیونکہ آج ایک بار پھر جماعت اسلامی ریویو کر رہی ہے۔ اور اسی سوال کا جواب تلاش کر رہی ہے کہ جس سوال کا جواب جماعت اسلامی 1970ء کے انتخابات میں ناکامی سے دوچار ہو کر ڈھونڈتی رہی۔ سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی دیانت و امانت کی لوگ قسم کھاتے ہیں‘ اس کی وطن دوستی کا دم بھرتے ہیں‘ اس کی سیاسی جرأت و بہادری کی تعریف کرتے ہیں اور کرپشن سے پاک اس کے بے داغ اجلے کردار کی مثالیں دیتے ہیں مگر اسے ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ ہم سینیٹر سراج الحق کی ہمت کی داد دیتے ہیں مگر جماعت اسلامی کے ساتھ اپنے قلبی تعلق کی بناء پر یہ باور کرانا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر جماعت اسلامی نے ایک بار پھر حقیقت پسندی کی بجائے اس ’’تخیلاتی پرواز‘‘ سے کام لیا جو وہ گزشتہ چند دہائیوں سے اختیار کئے ہوئے ہے تو شاید ایک بار پھر خاطر خواہ کامیابی کو یقینی بنانا آسان نہ ہو گا۔ یقینا جماعت اسلامی کے زعماء کے علم میں ہو گا کہ عصر حاضر میں جمہوریت کے ذریعے فریضہ اقامت دین کی ادائیگی کا تصور مولانا مودودی کا اجتہادی کارنامہ تھا۔ اس تصور کو اختیار کر کے کئی اسلامی ممالک میں اسلامی تحریکوں نے مزاحمت کے بجائے جمہوریت کا راستہ ہموار کیا اور بہت بڑی کامیابی حاصل کی۔گزشتہ چند دہائیوں کے دوران محدود پارلیمانی کامیابی کے بجائے جماعت نے مزاحمت ‘ دھرنوں اور احتجاجوں کی سیاست کو اختیار کئے رکھا۔ کبھی بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف دھرنا کبھی نواز شریف کی حکومت کے خلاف دھرنا‘ اس دوران جماعت اسلامی کا روایتی تنظیمی و مقامی معاملات پر فوکس بہت کم ہو گیا۔ ہر الیکشن سے پہلے‘ چاہے وہ عام انتخاب ہو یا ضمنی چنائو‘ جماعت اسلامی اپنی انتخابی قوت کا حقیقت پسندانہ اندازہ نہیں لگاتی اور بلند و بالا اہداف کا اعلان کر دیتی ہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ جب اسے مطلوبہ کامیابی حاصل نہیں ہوتی تو جماعت کے کارکنان اس ناکامی کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال دیتے ہیں۔ اب سننے میں آ رہا ہے کہ جماعت اسلامی کے کارکنان متحدہ مجلس عمل کو اپنی انتخابی ناکامی کا سبب سمجھتے ہیں۔ ہم اپنی محدود معلومات کے مطابق اس سبب کو درست نہیں سمجھتے۔البتہ 2002ء کی مجلس عمل میں جو جوش جذبہ اور ولولہ تھا وہ 2018ء کی مجلس عمل میں نہ تھا۔ حقیقت پسندی کے علاوہ جماعت اسلامی کو جس دوسری حکمت عملی کی ضرورت ہے وہ یکسوئی ہے۔ جماعت اسلامی کے گزشتہ چند ادوار کے انتخابی طرز عمل سے تو یکسوئی کے بجائے مہم جوئی کا زیادہ تاثر ملتا ہے۔ وہ خوش نصیب جمہوری جماعتیں ہیں کہ جن کے ہاں باقاعدہ آزادانہ دستوری و جمہوری انتخابات ہوتے ہیں اور جن کے ہاں گاہے بگاہے ریویو اور محاسبے کا مضبوط کلچر موجودہے۔ اس لحاظ سے جماعت اسلامی سرفہرست ہے بلکہ شاید جماعت اسلامی ہی پاکستان کی وہ واحد سیاسی پارٹی ہے جو شخصی و خاندانی قباحتوں اور وراثتوں کی جکڑ بندیوں سے آزاد ہے۔ پاکستانی سیاسی جماعتوں کی ان دنوں ایک دوسرے پر کرپشن کی الزام تراشیوں سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ کسی کا دامن بے داغ نہیں۔ اس لئے مختلف سطحوں پر اگر جماعت اسلامی کی حسن کارکردگی سامنے آئے گی تو وہ دوسروں کے لئے ایک رول ماڈل اور جماعت کے لئے مزید کامیابی کی کنجی ہو گی۔ کراچی میں میئر عبدالستار افغانی اور میئر نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کی کرپشن فری خدمات کو وہاں کے لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں۔ ان کی خدمات کی عالمی سطح پر بھی پذیرائی ہوتی تھی۔ ہم جماعت اسلامی کو سراہتے ہیں کہ وہ نہ صرف جماعت کے اندر بلکہ جماعت سے باہر بھی وسیع تر مشورہ کرتی ہے۔ اجلے دامن والی جماعت کے ایک مداح کی حیثیت سے جماعت اسلامی کے لئے ہمارا مشورہ یہ ہو گا کہ وہ جیسے چاہے اپنے کارکنوں کا حوصلہ بڑھائے مگر ’’اپنے بل بوتے پر الیکشن لڑنے‘‘ کے کسی سراب کا شکار نہ ہو۔ 2013ء میں بھی جماعت نے اپنے بل بوتے پر الیکشن لڑ کر دیکھ لیا۔ اس کے نتائج حوصلہ افزا نہ تھے۔ حوصلہ شکن تھے۔ جماعت کے لئے ہمارے مشورے کا خلاصہ دو لفظی ہے۔ حقیقت پسندی اور یکسوئی جہاں تک سینیٹر سراج الحق کے قول کا تعلق ہے تو ہم اسے تسلیم کرتے ہیں اور اس کی تائید کرتے ہیں کہ جماعت نے الیکشن ہارا ہے ہمت نہیں ہاری۔