1997ء میں ویسے تو جماعت نے عسکری جدوجہد سے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔ایسے حالات میں جب کہ جماعت اسلامی کشمیر عسکریت میں براہ راست یا بلواسطہ شریک بھی نہیں ہے اور تعلیمی ، تبلیغی او ررفاہی کاموں میں مشغول ہے، اس پر پابندی لگاناسمجھ سے باہر ہے۔ ایسی کارروائی ا ور پکڑ دھکڑ سے کشمیر میں حالات مزید خراب ہونے کااحتمال ہے۔بھارت نواز نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی بھی پابندی کو غلط اقدام قرادے رہے ہیں۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے سوال اٹھایا ہے:’’حکومت دہلی کو آ خر جماعت اسلامی کشمیر سے اتنی پریشانی کیوں ہے؟ ہندو انتہا پسند ہندو گروپوں کو جھوٹ پھیلانے اور ماحول خراب کرنے کی پوری آزادی ہے، جب کہ ایک ایسی تنظیم پر پابندی لگائی جارہی ہے جس نے کشمیریوں کی تعلیمی، سماجی اور فلاحی محاذوں پر لوگوں کی اَنتھک مدد کی ہے‘‘۔ کوئی سیاسی نظریہ جب میدان عمل میں پوری طرح ناکام ہوجاتا ہے تو اس کے حاملین زور زبردستی پر اْتر آتے ہیں۔ بی جے پی جب فکری سطح پر اشترا کی دانشوروں کا مقابلہ نہیں کرسکی تو شہری نکسل واد کی اصطلاح گھڑکر اپنے خلاف اْٹھنے والی آوازوں کو دبانے کی خاطر بیک جنبش زبان حقوق انسانی کا کام کرنے والوں کو’’ باغی اور دہشت گردوں کے حامی ‘‘قرار دے دیا گیا۔ ملک بھر میں شہری نکسل واد کے نام پر جو کارروائی کی گئی اسی کا اعادہ اب جموں کشمیر میں جماعت اسلامی پر پابندی لگا کر کیا گیا ہے۔ وزارت داخلہ کے ایک سینئر اہلکار سے جب میں نے جماعت پر پابندی کے پیچھے حقائق جاننے کی کوشش کی، تو گویا ہوئے کہ کس طرح جماعت اسلامی کشمیر سوسائٹی کو انتہا پسندی کی طرف لے جاکر انکو سلفیت کی طرف مائل کرکے مقامی خانقاہوں اور حنفیت سے متنفر کرواتی ہے۔ جب میں نے کہا اگر واقعی یہ گرائونڈ ہے تو اہل حدیث اور سلفی گروپوں پر پابندی کیوں نہیں لگائی گئی ؟ اگر سلفی واقعی اتنے خطرناک ہیں ،تو جہاں تک مجھے یاد ہے کہ کشمیر میں 1990ئمیں صرف دو اہل حدیث مساجد تھیں ، جو اب حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 400سے تجاوز کر گئی ہیں۔ کون اس کی پشت پر ہے؟ اکتوبر2003ئمیں ڈاکٹر ذاکر نائیک کشمیر تشریف لائے تھے اور شہر کے وسط میں پولو گرائونڈ میں ، اننت ناگ کے اسٹیڈیم میں ان کی تقاریر ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ گورنر ہائوس میں بھی ان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد ہوئی تھی۔میں نے ان سے کہا کہ شیخ نورالدین ولی المعروف نند ریش کے کشمیر کلام کا اردو ترجمہ کرنے کا سہرا جماعت اسلامی کے راہنما قاری سیف الدین کے سر ہے۔ اسی طرح سید علی ہمدانی کا کشمیری مسلمانوں کو دیئے گئے وظیفہ ’’آوراد فتحیحیہ‘‘ کا ترجمہ اور تفسیر بھی جماعت کی ہی مرہون منت ہے۔یہ سن کر افسر مذکور بغلیں جھانکنے لگا اور کہا کہ کوئی پرانی فائل جماعت کے متعلق بنی ہوگی ، جو ایسے مواقع پر نکالی جاتی ہوگی۔ ایک دہائی قبل حکومت کو یہ باور کرایا گیا تھا کہ کشمیر میں حریت اورتحریک آزادی کے خلاف فکری رہنمائی کے لئے سلفی حضرات کو استعمال کیا جائے۔اب کچھ عرصہ سے یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ صوفی ازم کا دامن تھا م کر اس تحریک کو دبایا جائے۔ تین سال قبل دہلی میں مودی کی صدارت میں منعقد ایک صوفی کانفرنس میں ایک صاحب کو تو یہ بھی کہتے سنا ، کہ اب ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے کارکنان اور مشائخ وہابیوں اور دیوبندیوں کے خلاف شانہ بہ شانہ لڑیں گے۔ پلوامہ واقعہ نے شاید اب ان کی آنکھیں کھول دی ہوں۔ کیونکہ مبینہ خود کش حملہ آور عادل احمد ڈار کا تعلق ایک بریلوی طرز فکر فیملی سے تھا۔ پلوامہ کے گونڈی باغ گائوں میں اسکے والد غلام حسن ڈار کے بقول عادل مقامی درگاہ میں نعت خوانی اور امام صاحب کی عدم موجودگی میں امامت کے فرائض بھی انجام دیتا تھا۔ قرآن کے چند پار ے حفظ کرنے اور نعت خوانی کی مشق کیلئے اس نے چند ماہ ایک بریلوی دارلعلوم میں گزارے تھے اور حنفی اعتقاد کے نظریہ کے مخالفین کے ساتھ بحث و مباحثہ کرنے سے چوکتا نہیں تھا۔ یہ شاید ان کے لئے ایک تازیانہ ہے ، جو کشمیری تحریک کو مذہبی انتہاپسندی اور فرقہ پرستی سے جوڑتے ہیں۔ یہ لوگ بھول جاتے ہیں، کہ مغربی طاقتوں نے اپنے مفاد کیلئے پہلے طالبان، القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کی پرورش کی، عراق میں تو داعش کو ہتھیار اور ان کے خلاف لڑنے والی تنظیموں کو فوجی ٹریننگ بھی دی۔پھر یہ نعرے بلند کئے ، کہ مسلمانوں میں شدت پسندی آرہی ہے‘ جسے لگام دینے کی ضرورت ہے۔اور اس کے لئے تصوف کی تشہیر کی جانے لگی۔ شاید یہ اس حقیقت کو جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہیں، کہ شدت پسند اور اعتدال پسند ہرفرقہ، مسلک میں موجود ہوتے ہیں۔ بھارت میں توہمیشہ سے ہی حکومتیں مسلمانوں کو مولانا ابولکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی کی تقلید کی تاکید کرتی آئی ہیں، کیونکہ ان دونوں راہنمائوں نے مسلم لیگ اور نظریہ پاکستان کے خلاف کانگریس کو ایک متبادل نظریاتی اساس فراہم کی تھی۔ اسی طرح تعلیم کے میدان میں سرسید احمد خان کو بھارت میں مسلمانوں کیلئے ایک قائد کا رتبہ حاصل رہا ہے۔یہ سچ ہے کہ دہشت گردی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مظلوم خطوں کے عوام اگر جبری قبضوں اور ظلم کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں، تو اسکو دہشت گردی کے ساتھ منسلک نہیں کیا جاسکتا۔ مغربی طاقتوں نے تصوف کی حوصلہ افزائی صرف اس وجہ سے کی، کہ اپنی سلگائی ہوئی آگ کے شعلے اس کے قابو میں نہیں آرہے تھے۔ ان کے یہاں تصوف کا نظریہ یہ ہے، کہ مسلمان ہر حالت میں مہر بہ لب رہنے کی عادت بنا ڈالیں۔ حالات سازگار ہوں تو شکر کے ساتھ خاموش اور اگر ظلم و ستم اور عزت و آبرو کا خون ہوتا ہوا دیکھے، تب بھی خاموشی اور بے حسی کو شعار بناڈالے۔ نہ کہ سید سالار مسعود غازی کی طرح ظلم کے خلاف آواز بلند کرے۔تصوف کا مقصد انسانیت سے پیار ، محبت ، شفقت سے پیش آنا اور کردار سازی کرنا ہے، تاکہ نہ صرف گفتار، بلکہ کردار سے ایک مسلمان دیگر مذاہب کے ساتھ مکالمہ کرے، جو صوفی بزرگوں کا، چاہے، کشمیر میں میر سید علی ہمدانی، نورالدین ولی ہوں یا بھارت میں خواجہ معین الدین چشتی یا نظام الدین اولیا ہوں ،خاصہ رہا ہے۔