اپوزیشن کا میدان بڑی جماعتوں کے وجود سے تقریباً خالی ہے۔ مسلم لیگ ن سمٹ کر شاہد خاقان عباسی اور رانا ثناء اللہ تک محدود ہو گئی ہے اور نیب کو ان کے خلاف کارروائی کی ہدایت بھی مل گئی ہے چنانچہ جلد ہی ان کے خلاف کارروائی متوقع ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہے اور بلاول بھٹو اعلان کے باوجود پنجاب نہیں آ رہے۔ حکومت کو تاریخ ساز لوٹ مار کے لئے فری ہینڈ مل گیا ہے۔ ہر وزارت سے طرح طرح کی ناقابل اشاعت خبریں گشت کر رہی ہیں لیکن چونکہ وہ ناقابل اشاعت ہیں اس لئے کوئی اخبار بھی انہیں چھاپنے کی جرأت نہیں کر رہا۔ رمضان سے چند دن پہلے جملہ اشیائے ضرورت کے نرخوں میں مزید 12فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے اور ٹیم رمضان تک مزید اضافہ یقینی ہے کیونکہ وزیر اعلیٰ پنجاب بزدار نے حکم جاری کر دیا ہے کہ قیمتوں کا نظام مزید موثر بنایا جائے۔ یعنی ابھی صرف موثر ہے‘ مزید موثر ہونا باقی ہے۔ اس خلا کو جے یو آئی پر کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس کے جلسوں میں لوگوں کی ریکارڈ تعداد آ رہی ہے لیکن کسی پراسرار موسمی رکاوٹ کی وجہ سے ان جلسوں کی خبریں اور تصویریں میڈیا تک نہیں پہنچ رہیں اس پہ خبر آئی ہے کہ عید کے بعد جماعت اسلامی بھی رابطہ مہم شروع کرنے والی ہے۔ دیکھیے کیا ماحول بنتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ جماعت اسلامی نے عہدیدار تبدیل کر دیے ہیں۔ امیر العظیم کو سیکرٹری جنرل مقرر کیا ہے جبکہ چھ سات نائب امیر بھی بنا دیے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک جماعت کے تین نائب امیر ہوا کرتے تھے‘ یہ سو فیصد اضافہ دلچسپ ہے۔ کیا جماعت کا کام بہت زیادہ پھیل گیا ہے یا پھر متوقع رابطہ مہم کے لئے اتنے زیادہ نائب امرا کی ضرورت پڑ گئی ہے؟۔ امیر العظم متحرک شخصیت ہیں۔ دن کے 24گھنٹوں میں 48مقامات پر پائے جاتے ہیں’’دل بدست آور‘‘ کے مصرعے کی تفسیر ہیں۔ ان کی بطور سیکرٹری تقرری مفید مطلب ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ نئے نائب امرا میں پروفیسر ابراہیم اور معراج الہدیٰ ذہین بھی ہیں اور باصلاحیت بھی لیکن غیر متحرک ہونے کے قدیمی عارضہ میں مبتلا ہیں چنانچہ ان کی حیثیت مدفون خزانے کی سی ہے۔ عبدالغفار عزیز بھی نائب امرا میں شامل ہیں لیکن ان کی شہرت امور خارجہ کے ماہر اور سکالر کی ہے۔ عملی سیاست سے لاتعلق ہی رہے ہیں۔ حافظ ادریس ایک بہت عمدہ ادیب ہیں لیکن سیاست دان نہیں۔ زمانہ طالب علمی میں نامور تھے‘ جماعت میں آنے کے بعد محض ادیب ہو کر رہ گئے۔ ان میں گوناگوں خوبیاں ہیں۔ بہت اچھا حافظہ رکھتے ہیں۔ قرأت کا لحن بہت پرسوز اور شیریں ہے۔ میدان قلم کے بادشاہ ہیں خصوصاً دینی شخصیات کا تذکرہ کرتے ہیں تو انہیں گویا سامنے لاکھڑا کرتے ہیں۔ ان کی نگارش سے ماضی قریب کے ایک سوانح نگار کی یاد آ جاتی ہے۔ شمس نوید عثمانی نام تھا اور اپنے دور میں لوگ ان کی تحریروں کا انتظار کرتے تھے۔ وہ ڈرامائی انداز میں لکھا کرتے تھے‘ حافظ ادریس غیر ڈرامائی ہیں لیکن جادوئی عنصر ان میں بھی تھا اور ان میں بھی ہے۔ ٭٭٭٭٭ شمس نوید عثمانی دیو بند کے ماہنامے تجلی میں لکھا کرتے تھے۔ مولانا عامر عثمانی نے یہ ماہنامہ غالباً 1949ء میں شروع کیا اور پہلے شمارے سے ہی یہ مارکیٹ میں چھا گیا۔ حلقہ قارئین جتنا بھارت میں تھا‘ اتنا ہی پاکستان میں بھی تھا۔ عامر عثمانی دیو بند کے فارغ التحصیل تھے اور تجلی کی ادارت کے دوران ہی جماعت اسلامی سے متاثر ہو گئے اور اس کے ساتھ ہی جماعت کو ایک بہت مضبوط ماہنامہ مفت میں ہاتھ آ گیا۔ یہ بنیادی طور پر دینی اور علمی جریدہ تھا۔ لیکن موضوعات کا انتخاب اور زبان کی آسانی اور دلچسپی کی وجہ سے عام قارئین بھی اسے بے تکلف پڑھتے نظریاتی اور دینی تنازعات میں اس نے جماعت اسلامی کا جم کر ساتھ دیا اور غالباً اپنے وقت کا سب سے کثیر الاشاعت پرچہ بن گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دارالعلوم دیو بند میں تجلی پڑھنا ممنوع تھا۔ کوئی طالب علم چھپ کر پڑھتے ہوئے پکڑا جاتا تو تادیبی کارروائی کا نشانہ بنتا۔ مولانا بہت بڑے عالم دین تو تھے ہی۔ بے مثال طنزنگار اور مقبول شاعر بھی تھے۔ 1920ء میں پیدا ہوئے اور غالباً 1975ء میں انتقال کر گئے یعنی عمر کی چھ دہائیاں بھی نہ دیکھ سکے لیکن انہوں نے جو شہرت پائی وہ لوگ صدی بھر بعد بھی نہیں پاتے۔ کتابوں پر تبصرہ کرتے تو پورا پوسٹ مارٹم کرتے۔ اس میدان میں ماہر القادری ان کے پیشرو بھی تھے اور ہم عصر بھی جن کے رسالہ فاران نے بھی اپنے دور میں وہی مقام ادبی اور علمی حلقوں میں پایا جو تجلی کا تھا۔ مولانا کی وفات کے بعد تجلی دو چار برس جاری رہا لیکن اس کی لو مدھم پڑتی گئی‘ آخر بجھ گئی۔ اب جماعت اسلامی کے پاس تجلی ہے نہ فاران‘ عامر عثمانی ہے نہ ماہر القادری۔ ایسے میں حافظ ادریس کا دم غنیمت ہے لیکن وہ کسی رسالے کے مدیر نہیں۔ ان کی تحریریں بھی جماعت کی کماحقہ سرپرستی سے محروم ہیں۔ اب وہ زمانہ بھی نہیں رہا جو 60ء اور 70ء کی دہائی کا تھا اور تقاضے بھی بدل گئے۔ نظریاتی جنگ کی شکل بھی بدل گئی لیکن ایک اصول عالمگیر اور کل زمانی ہے اوروہ ہے تبلیغ کا اور یہی وہ شعبہ ہے جسے تمام دینی جماعتیں اور مسالک بھول گئے ہیں۔ جماعت کا تبلیغی میدان سکڑ گیاہے۔ یہ اچھی بات ہے اور حیرت کا باعث بھی کہ اس کا شعبہ خدمت خلق زمانے کے تغیر سے محفوظ رہا اور آج یہ ملک کا سب سے بڑا رفاہی اور خدمتی نیٹ ورک جماعت اسلامی ہی کا ہے۔ الخدمت فائونڈیشن کو کراچی کے سابق میئر نعمت اللہ خاں نے جس انداز سے آگے بڑھایا‘ وہ باقاعدہ ریسرچ کا موضوع بن سکتا ہے۔ خاں صاحب بہت پیر مرد ہو گئے۔ صحت بھی کمزورہے پھر بھی مقدور سے بڑھ کر خدمت کئے جا رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کو تبلیغی سرگرمیوں کا دائرہ بحال کرنا پڑے گا جو قاضی حسین احمد کے دور سے ختم ہو گیا۔ اس دور میں ایک ستم یہ ہوا کہ جماعت ملک بھر میں ضلع‘ ڈویژن اور صوبے کی سطح پر تربیت گاہیں لگاتی تھی۔ وہ سلسلہ ختم کر کے پورے ملک سے لوگ منصورہ بلائے جانے لگے کہ یہاں آئو اور تربیت حاصل کرو۔ مقامی سطح پر تربیت گاہوں کا اثر عوام پر بھی پڑتا تھا‘ اب عوام سے یہ رابطہ کٹ گیا ہے۔ حکومت نے آٹھ ماہ میں جو کیا ہے‘ اسے ہمہ گیر اور بے مثال تباہی کے سوا کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ جماعت اسلامی اس کے خلاف میدان میں آ رہی ہے تو اس کی تعریف کی جانی چاہیے لیکن یہ خیال رکھنا پڑے گا کہ مہم حکمت اور احتیاط کے ساتھ چلائی جائے۔ عمران کی پشت پر بہت طاقتور لوگ ہیں‘ انہیں ایک حد سے زیادہ مشتعل کرنے سے گریز کرنا ہو گا ورنہ عجب نہیں کہ سراج الحق کی بھی تین سو یا تین ہزار ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ اور چوری پکڑی جائے۔