جماعت اسلامی کی جانب سے غیر رسمی انداز میں بتا دیا گیا کہ وہ ایم ایم اے سے الگ ہی کام کرے گی، یہ صرف انتخابی اتحاد تھا اور اس پلیٹ فارم سے منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی تو اس کے ڈسپلن کے پابند رہیں گے، مگر مجموعی طور پر جماعت اسلامی اپنے فیصلے خود کرے گی اور اپنے انداز میں سیاسی جدوجہد کی جائے گی۔ اسے یو ٹرن کہا جائے یا جماعت اسلامی کی درست ٹریک پر واپسی ، … اپنی فہم کے مطابق آپ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ میرے نزدیک جماعت اسلامی کا ایم ایم اے میں جانا غلط جبکہ الگ ہوجانا درست فیصلہ ہے۔افراد ہوں یا پارٹیاں، غلطیاں ہر ایک سے ہوسکتی ہیں۔ ان پر اصرار اور ڈھٹائی سے ڈٹے رہنا عقلمندی نہیں۔ پیچھے ہٹ جانا اور کسی غلط راستے سے واپس آجانا دانش مندی ہے۔ غلطیوں سے مگر سیکھنا چاہیے ۔ تب وہ تجربہ بن جاتی ہیں۔ انہیں دوبارہ دہرانا نہیں چاہیے، ورنہ شرمندگی اور ندامت کا باعث بنتی ہیں۔ میرے نزدیک جماعت اسلامی کا ایم ایم اے سے الگ ہونا زیادہ اہم نہیں، یہ تو جلد یا بدیر ہونا ہی تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ کیا جماعت اسلامی دوبارہ سے فعال اور بھرپور پارٹی بن پائے گی؟ اس کا مستقبل کیا ہے اور اسے کیا کرنا چاہیے ؟ ان تمام نکات پر بات کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے حوالے سے میڈیا کاعمومی رویہ دلچسپ رہا ہے۔پچھلے چند برسوں میں خاص کر پنجاب کے مختلف انتخابات میں جماعت اسلامی کے امیدواروں نے مایوس کن ووٹ لئے، کہیں پر ہزار بارہ سو تو کسی جگہ چار پانچ سو سے معاملہ آگے نہ بڑھ سکا۔جماعت کو اس بری کارکردگی پر میڈیا میں سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا، مضحکہ اڑایا گیا، طنزیہ جملے تراشے گئے کہ جماعت اسلامی اب ختم ہوچکی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی دلچسپ ہے کہ اسی دم توڑتی جماعت پر سب سے زیادہ لکھا جاتا رہاہے۔ مین سٹریم میڈیا ہو یا سوشل میڈیا، وہاں پر جماعت اسلامی اور خاص کر اسلامی جمعیت طلبہ کے حوالے سے آئے روز کوئی نہ کوئی مہم چلتی نظر آتی ہے۔دیگر شکست خوردہ پارٹیز کے ساتھ ایسا سلوک کبھی نہیں روا رکھا گیا۔قائداعظم یونیورسٹی میں بلوچ پشتون گروپ اور سندھی طلبہ تنظیمیں آپس میں بِھڑ جائیں، یونیورسٹی ہفتوں بندرہے ، مگر میڈیا میں اس حوالے سے ایک لفظ بھی نہیں آئے گا۔بہائوالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان میں پی ایس ایف کی اپنے مخالفین سے جھڑپ ہو، طلبہ کو بری طرح مارا پیٹا جائے، ویڈیو فلمز بنیں،مگر میڈیا پر ایک سکینڈ کے لئے کوریج نہیں ملے گی۔ اگر پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کا مخالف تنظیموں سے ٹکرائو ہو جائے تو اس دن کی بریکنگ نیوز یہی ہوگی۔ سات سے دس بجے پرائم ٹائم کے کئی ٹاک شوز اس نکتے پر ہوں گے ، جمعیت کی بدمعاشی پر درجنوں کالم لکھے جائیں گے اور سوشل میڈیا کے بلاگرز کو چٹخارے دار موضوع ہاتھ آ جائے گا۔جمعیت پر یہ مہربانی اس وجہ سے کہ اسے جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم سمجھاجاتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس گئے گزرے دور میں بھی جماعت اسلامی اپنے اندر کچھ ایسا خاص رکھتی ہے کہ اسے یکسر نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ قومی تاریخ میں مختلف ایشوز پر جماعت کا جو موقف رہا، اس کی بنا پرسوچنے سمجھنے ،سیاسی شعور رکھنے والوں میں دوگروہ موجود ہیں ۔ جماعت سے ہمدردی کرنے والے اور اس کے مخالف، ناراض یا شاکی حلقے۔ جب تک یہ تقسیم موجود ہے، تب تک جماعت اسلامی پر بات کی جاتی رہے گی۔کسی کے چاہنے یا نہ چاہنے سے قطع نظر جماعت کی موت واقع ہوسکے گی اور نہ ہی اس کی تدفین ممکن ہے۔ جماعت اسلامی کے حوالے سے خاکسار کا ذاتی نقطہ نظر’’ کیس ٹو کیس ‘‘بنیاد پر ہے ۔ میرے والدین، بھائی بہنوں یا خاندان کے کسی بھی فرد کا جماعت اسلامی، جمعیت یا جماعت کی کسی دوسری ذیلی تنظیم سے ایک سکینڈ کا تنظیمی تعلق بھی نہیں رہا۔اپنے زمانہ طالب علمی میں ایک ہی سٹوڈنٹ یونین کے الیکشن (1989ئ)دیکھے۔ میرے آبائی شہر کے کالج میں جمعیت وجود ہی نہیں رکھتی تھی۔ وہاں مقابلہ مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن اور قوم پرست سرائیکی سٹوڈنٹ فیڈریشن کے مابین ہوا۔ ہم نے ایم ایس ایف کو سپورٹ کیا اور کالج یونین کا صدر ایک پنجابی آبادکار کو بنایا، حالانکہ مقابلے میں میرا بچپن کا کلاس فیلو ، ایک سرائیکی طالب علم تھا۔ ہم سمجھتے تھے کہ تعلیمی اداروں میں لسانی زہر گھولنے کی مزاحمت کرنی چاہیے ۔ جمعیت کے کارکنوں سے دوران صحافت خاصا واسطہ رہا۔ اسلامی تحریکوں کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں نے اخوان المسلمون اور دیگر تحریکوں پر خاصا لکھا۔ دس سال پہلے مصر کا دورہ کرنے اور اخوان المسلمون کے سربراہ (مرشد عام)کا انٹرویو کرنے کا موقعہ بھی ملا۔اس حوالے سے کالم لکھتا رہا تو جماعت اور طلبہ تنظیم کے حلقے میں فطری طور پر دلچسپی سے پڑھے گئے۔ رائٹ ونگ کے روایتی ایشوز پر کھل کر لکھنے کا موقعہ ملاتو اسے بھی ان حلقوں میں پزیرائی ملی۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب یہ جذباتی نوجوان کسی صحافی کو اپنا غیر مشروط حامی تصور کرنے لگتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ صرف وہی جماعت اسلامی کا حقیقی ہمدرد ہے جو ہر موقعہ پر اس کے حق میں لکھے، اس کے لئے ووٹ ڈالے اور کبھی بھول کر بھی پبلک فورم (میڈیا، سوشل میڈیا)پر تنقید نہ کرے۔ایسا نہ کرنے والا ان کی نظر میں جماعت دشمن اورناقابل اعتماد ہے۔ ایسی سوچ عملی زندگی سے ناواقفیت کی بنا پر پیدا ہوتی ہے۔ صحافی کا کام کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونا یا اس کی ترجمانی نہیں۔ وہ کسی خاص پوائنٹ یا ایجنڈے پر کسی گروپ ، تنظیم یا سیاسی پارٹی کو مختصر یا طویل عرصے کے لئے سپورٹ کر سکتا ہے۔ یہ اس کی اپنی انٹلکچوئل پوزیشن ہوتی ہے۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حق وباطل کی جنگ چل رہی ہے اورجس پارٹی کے حق میں اس نے لکھا، وہ حق کی نمائندہ اورعلم بردار ہے۔حق وباطل کے معرکے قوموں کی تاریخ میں کبھی کبھار ہی ہوتے ہیں۔ عام طور پر تو مختلف قوتوں کا آپس میں ٹکرائو اورمفادات کے تحت تصادم، اتحاد ،کشمکش چلتی رہتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی اپنی مصلحتیں اور مسائل ہوتے ہیں۔ زمینی حقائق کو دیکھ کر مخصوص پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔ جس سے اتفاق ہو، اس کی تائید کی جائے۔ اختلاف کی صورت میں پوری دیانت داری سے تنقید کی جائے۔ یہی حقیقی صحافت ہے اور غیر جانبداری کا تقاضا۔ دراصل غیر جانبداری اپنے پروفیشن اور اصولوں سے ہوتی ہے۔غیر جانبداری کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ منافقت آمیزڈھلمل موقف اپنایا جائے۔ آدھا تیتر ، آدھا بیٹر ۔چور کو چور ، کرپٹ کو کرپٹ اور مافیا کو مافیا نہ کہا جائے۔یا پھر اندھے، بہرے ، گونگے کی مانند سماج میں رونما ہونے والی ہلچل سے بے نیاز ہو کر لفظوں کی چڑیا ، مینا بنا کر اڑائی جاتی رہے۔ یہ غیر جانبداری نہیں۔کچھ قابل شرم سا کام ہے،ایسا جس کے سرائیکی میں ایک اصطلاح موجود ہے، مگر تحریر میں بیا ن کرنا ممکن نہیں۔ بات جماعت اسلامی کی ہو رہی تھی،جماعت کے اندر چند ایک ایسی خوبیاں ہیں جو اسے پاکستان کی کسی بھی دوسری جماعت سے مختلف، منفرد اور امتیازی بناتی ہیں۔ یہ اس وقت پاکستان کی واحد منظم لوئر مڈل کلاس پارٹی ہے۔ جس کے پاس ہمارے سیاسی ، انتخابی عمل کے حوالے سے سب سے زیادہ ایماندار، پڑھے لکھے اور شریف امیدوار موجود ہیں۔ الیکشن میں بے شک ضمانت ضبط ہوجائے ، ان میں سے بیشتر پر انگلی کھڑی کرنا ممکن نہیں۔یہ واحد پارٹی ہے جہاں موروثی سیاست نہیں۔ جہاں سربراہ جانیشینی کی بنیاد پر نہیں لگایا جاتا۔اکلوتی پارٹی جس کا سابق سربراہ بھی کسی عام کارکن کی طرح نہ صرف پارٹی کا حصہ ہے بلکہ اپنے سے سالہا سال جونیئر ذمہ دار کے فیصلوں کو تسلیم کر کے جدوجہد کرتا ہے۔کیا کسی دوسری جماعت میں یہ بات ہے؟ ہرگز نہیں۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، ق لیگ، جے یوآئی ف، اے این پی، پختون خوا ملی عوامی پارٹی، فنکشنل لیگ وغیرہ وغیرہ۔ ہر جگہ ایک خاندان ہی حکمران ہے، اسی کی اولاد یا گھر سے اگلا سربراہ منتخب کیا جائے گا۔ تحریک انصاف میں ایک فرد عمران خان کا کنٹرول ہے۔ انکے بغیر پارٹی صفر ہے۔جماعت اسلامی ایک ایسی جماعت ہے جس کے کسی سربراہ پر کرپشن کا الزام تک نہیں لگا۔ کرپشن ثابت کرنے کی بات نہیں کر رہا، کسی نے جھوٹا الزام تک نہیں لگایا۔ موجودہ امیر سراج الحق، ان سے پہلے والے سید منور حسن، قاضی حسین احمد، میاں طفیل احمد، سید مودودی … ان میں سے کسی پر جھوٹا، بے بنیاد کرپشن کا الزام لگانے کی جرات نہیں کی گئی۔ سراج الحق خیبر پختون خوا میں دو بار صوبائی وزیر رہے، عمران خان کی حکومت میں وہ وزیرخزانہ تھے۔ کہیں سے ایک شخص ایسا برآمد ہوجائے جو کہے کہ سراج الحق نے پیسے لے کرٹرانسفریا پوسٹنگ کی، غلط ٹھیکہ دیا، کمیشن یا کک بیکس لئے۔ ہرگز نہیں۔ اسے کہتے ہیں کریڈیبلٹی ۔پاکستانی سیاست میں عمران خان دوسری ایسی شخصیت ہیں جن پر مالی کرپشن کے الزامات نہیں، تاہم وہ اپنی اے ٹی ایم مشینوں اور بعض بدنام الیکٹ ایبلز پر کمپرومائز کے حوالے سے تنقید کا نشانہ ضرور بنتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی ان بڑی خوبیوں کے باوجود سیاسی اعتبار سے اتنا پیچھے کیوں چلی گئی ہے؟ جواب اتنا سادہ نہیں، یہ تو پوری ریسرچ کا موضوع ہے۔میری ذاتی رائے میں اس کی چند وجوہات ہیں۔بڑی خوبیوں کے ساتھ اس نے غلطیاں بھی بڑی کی ہیں۔ اللہ نے چاہا تو اگلی نشست میں اس پر بات ہوگی۔