کالم کیا لکھوں، موڈ ٹھیک نہیں ہے، اچھا خاصا میں گاڑی لے کر آ رہا تھا، ایک جگہ سڑک پار کر رہا تھا۔ دونوں اطراف ٹریفک رکی ہوئی تھی مگر ایک موٹرسائیکل والا میزائل کی طرح ایک طرف سے نکلا اور سیدھا میری گاڑی کے بمپر پر۔ ایک لمحے میں سارا منظر بدل گیا۔ وہ ایسے زاویے سے ٹکرایا گاڑی سامنے سے بالکل بے رونق ہو گئی۔ میں نے اس سے ابھی پوچھا ہی تھا کہ کیا کیا۔ اس نے اپنے پیٹ کو پکڑ کر ہائے یوں کی کہ مجھے اس کی پڑ گئی۔ میں وہاں سے نکلنے لگا تو پولیس والے نے مجھے واپس وہیں جانے کو کہا۔ واپس ہوئے تو موٹرسائیکل والا جا چکا تھا۔ وہاں کھڑے لوگوں نے کہا کہ اسے کچھ نہیں ہوا اور وہ نکل گیا۔ میں نے بھی ٹوٹا پھوٹا بمپر اٹھایا اور گھر کی راہ لی۔ ایسے ہی محسوس ہوا کہ حادثہ آپ کی تلاش میں ہوتا ہے۔ قابل اجمیری نے بھی یہی کہا تھا: وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا میں کافی دیر تک سوچتا رہا کہ آخر اس نوجوان کو رکی ٹریفک نظر نہیں آئی مگر نوجوانوں کو تو اپنی منزل آسمانوں میں نظر آتی ہے۔ یہ سڑکوںپر اڑتے ہوئے پھرتے ہیں۔ کبھی انہیں دیکھیں کہ کیسے زگ زیگ یہ گاڑیوں کے ادھر ادھر سے گزرتے ہیں۔ راستہ نہ ملے تو یہ موٹرسائیکل فٹ پاتھ پر چڑھا دیتے ہیں۔ ویسے آپس کی بات جوانی میں ہم بھی تو ایسے ہی کرتے تھے۔ ایسے لگا جیسے قتیل شفائی کا شعر کانوں میں سرگوشی کرنے لگا: میں آج بھی بھولا نہیں آداب جوانی میں آج بھی اوروں کو نصیحت نہیں کرتا مجھے اپنے واقعات یاد آنے لگے۔ ایک آدھ تو اتنا دلچسپ ہے کہ آپ کے ساتھ شیئر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ میں اور لطیف ساحل ماہ نو کے دفتر جا رہے تھے۔ ڈیوس روڈ پر انتہا کا رش تھا۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ لطیف ساحل ’’فارغ البال‘‘ ہیں۔ یعنی سر پر بال برائے نام ہی ہیں۔ میں نے رش کے باعث موٹرسائیکل فٹ پاتھ پر چڑھا دی۔ فٹ باتھ پر چلاتے ہوئے آگے سائن بورڈ آ گیا تو میں نے کہا ساحل صاحب، اپنا سر نیچے کرلیجئے۔ یوں سائن بورڈ کے نیچے سے گزر گئے مگر ساحل صاحب نے غصے سے کہا۔ رکو، میں رک گیا۔ کہنے لگے اگر میں سر نیچے نہ کرتا تو؟ میں نے برجستہ کہا، بورڈ اڑ جانا تھا۔ ساحل صاحب کی ہنسی نکل گئی۔ کہنے لگے نہیں یار، یہ کوئی طریقہ نہیں۔ آئندہ تمہارے ساتھ سفر نہیں کرنا۔ تم کس قدر عجیب ڈرائیو کرتے ہو۔ چلیے ساحل صاحب کا ایک شعر آپ کو پڑھا دیتے ہیں: خوب بھی تجھ سا ہے نایاب بھی تیرے جیسا زندگی خواب ہے اور خواب بھی تیسرے جیسا میں سچ کہہ رہا ہوں کہ جس موضوع پر میں لکھنا چاہتا ہوں اس کے لیے بہت توجہ اور ارتکاز چاہیے تھا۔ انسان کے بس میں نہیں ہوتا کہ اپنے دماغ کو اپنی مرضی سے کسی سمت راغب کرسکے۔ سوچتے سوچتے میں نے سوچا کہ: جو ہونا ہو، ہو جاتا ہے جاگنے والا سو جاتا ہے دنیا کے اس میلے میں اکثر ڈھونڈنے والا کھو جاتا ہے میں نے جب کام کو ٹالنا ہو تو میں بھی بچوں کی طرح ادھر ادھر کی چیزوں کو الٹنے پلٹنے لگتا ہوں۔ دوسرے لفظوں میں آپ اسے Time Killing کہہ سکتے ہیں، وقت گزار کہہ لیں۔ میں نے موبائل آن کیا تو وہاں برادر اقتدار جاوید نے رام ریاض کا ایک خوبصورت شعر پوسٹ پر لگایا ہوا تھا: میں گر پڑا کہ مرے بازوئوں میں جان نہ تھی وگرنہ میرا نشیمن تو یہ چٹان نہ تھی کیا ہی اچھا شاعر ہے رام ریاض، جھنگ سے اس کا تعلق تھا۔ اسے اس کا مقام نہ ملا اور پھر اس کی کچھ شاعری کسی کے ہاتھ بھی آئی یا کسی نے اس کی شاعری کے ساتھ ہاتھ تو کیا۔ خیر جو کچھ دستیاب ہے کمال درجے کا ہے۔ اس کے ہاں ایک درد اور کسک کے ساتھ بے ساختہ پن ہے۔ مندرجہ بالا شعر میں تو آپ کو اقبال کے شاہین کی چھوٹ پڑتی بھی دکھائی دے گی۔ اس کی ایک لاجواب غزل ذہن میں تازہ رہتی ہے جس کا حاصل غزل شعر ہے: پتھر کی طرح تم نے مرا سوگ منایا دامن نہ کیا چاک کبھی بال نہ کھولے کیا کیا جائے جب شعر کا تذکرہ شروع ہو جائے تو ایسے لگتا ہے کہ اپنی اپنی سی باتیں ہونے لگی ہیں۔ اچھا شعر کسی کا نہیں ہوتا، سب کا ہوتا ہے۔ شاید یہی سوچ کر سرقہ کرنے والے اپنا کام دکھا دیتے ہیں۔ تاہم اس ٹاپک کو میں نہیں چھیڑتا۔ ویسے بھی اس معاملے میں ذرا محتاط ہی رہنا چاہیے۔ آپ کسی کو اس بات پر آمادہ نہیں کرسکتے کہ کسی کے شعر کو پیوندکاری کرکے آپ اپنا نہیں بنا سکتے۔ یہ تو مافی الضمیر ہے۔ تبھی تو میں نے کہا تھا: سعد لوگوں سے شعروں پہ الجھا نہ کر شعر ہوتا نہیں ہر کسی کے لیے بہرحال بات ہورہی تھی رام ریاض کی تو اس کے شعر دل کو کھینچتے ہیں۔ ایک دو اشعار ہم آپ کے ذوق کی نذر کرتے ہیں۔ جو برق و باد پروں سے نکال دیتے ہیں ہم ان کو ہمسفروں سے نکال دیتے ہیں میں رام سب سے بڑا ہوں اور اس زمانے میں بڑوں کو لوگ گھروں سے نکال دیتے ہیں ٭٭٭ کسی نے سورج کو اپنایا کچھ تاروں کے ساتھ رہے دیواروں کے سائے تھے ہم دیواروں کیساتھ رہے کس نے پہلا پتھر کاٹا پتھر کی بنیاد رکھی عظمت کے سارے افسانے میناروں کیساتھ رہے چلیے میں خوش ہوں کہ میرا موڈ اب ٹھیک ہو چکا ہے۔ اقتدار جاوید نے اچھا کیا کہ ایک خوبصورت شعر سے ہمیں انگیخت لگا۔ اقتدار جاوید خود بھی تو نظم کے خوبصورت شاعر ہیں اور یہ بڑے حوصلے کی اور بلند ظرفی کی بات ہے کہ شاعر کسی کا شعر پوسٹ پر لگائے۔ کبھی کبھی وہ فارسی اشعار بھی پوسٹوں پر لگاتے ہیں۔ ان کی محبت کلاسک کے ساتھ زیادہ ہے۔ سعدی یاد آ گئے: جمال ہمنیش درمن اثر کرد وگرنہ من ہمہ خاکم کہ ہستم