جمہوریت اور جاگیرداری دو الگ الگ چیزوں کے نام ہیں۔ جاگیرداری ایک سوچ کو کہتے ہیں اور یہ سوچ کسی بھی شخص میں آسکتی ہے۔ اس کیلئے ضروری نہیں کہ کوئی سینکڑوں مربع جات کا مالک ہو۔ ہر دور میں جاگیردار برسر اقتدار رہے ہیں۔ سیاست میں سرمایہ دار بھی داخل ہو چکے ہیں اُن کے مزاج بھی جاگیردارانہ ہیں۔ موجودہ کابینہ میں روایتی جاگیرداروں کی اولادیں شامل ہیں اور کچھ غیر جاگیردار لوگ کابینہ کا حصہ ہیں۔ اُن کی سوچ بھی جاگیردارانہ ہے۔ عوام کی کسی کو پرواہ نہیں۔ موجودہ سسٹم کو جمہوری کہا جاتا ہے مگر جمہور کیساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ قومی اسمبلی میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق موجودہ حکومت نے تین سال میں 53 ارب روپے کے قرضے معاف کئے۔ معاف ہونے والے قرضے عوام کے نہیں بلکہ امیروں کے تھے۔ ایک اور سروے کے مطابق ایک سال میں 47 لاکھ دس ہزار افراد مزید بیروزگار ہو گئے۔ حکومت کو مہنگائی اور بیروزگاری پر کنٹرول کرنا چاہئے اور عوام سے کئے گئے وعدوں کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ جس طرح کے صوبے کے قیام کیلئے 100 دن کا وعدہ کیا گیا ہے ، اس کیلئے اقدامات بھی شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ ہنگامی طور پر نئے صوبے کے سیکرٹریٹ کیلئے جگہ کے تعین کے ساتھ عمارات کی تعمیر کیلئے فنڈز اور ٹینڈر کی ضرورت ہے۔ عبوری طور پر انتظامی کام ابھی سے شروع کرایا جا سکتا ہے اور صوبے کے قیام کیلئے اس بات سے ماورا ہو کر سوچنا ہوگا کہ صوبہ بن جانے پر پنجاب کا وزیراعلیٰ کون ہوگا؟ عہدہ آنی جانی چیز ہے، اصل مسئلہ وفاق پاکستان کے توازن ، وسیب کے کروڑوں افراد اور ان کی آنیوالی نسل کے مستقبل کا ہے کہ 200 سال کی غلامی کے بعد اب مزید صبر کی تلقین کسی بھی لحاظ سے درست نہ ہے۔ جاگیردار ہمیشہ اقتدار کے مراکز کا طواف کرتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ سرائیکی وسیب کے مالدار اور جاگیردار لاہور ، اسلام آباد ، کراچی اور پشاور وغیرہ میں کوٹھیاں بنانا پسند کرتے ہیں ۔ صوبہ بننے کے ساتھ وسیب کے تعلیم یافتہ اور مالدار لوگ بھی پشاور ، لاہور کی بجائے اپنے وسیب میں رہنا پسند کریں گے اور اپنا صوبائی سیکرٹریٹ اور سول سروس ہوگا جو وسیب کے ترقیاتی پروگرام مکمل کرے گا اور اس طرح وسیب کے سارے مسئلے حل ہونگے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اپنی ہائیکورٹ ہوگی اور سپریم کورٹ کا علیحدہ بنچ ہوگا۔ سی ایس ایس میں کوٹہ الگ ہوگا اور اپنا پبلک سروس کمیشن ہوگا جو صرف وسیب کے لوگوں کو ملازمتیں دینے کا پابندہوگا۔ اپنی پولیس ہوگی جس میں وسیب کے جوان بھرتی ہونگے ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے صوبے کے سب سرکاری اور نیم سرکاری محکموں میں نوکریاں صرف وسیب کے لوگوں کو ملیں گی۔ وسیب کے لوگوں کا ملازمتوں میں بد ترین استحصال ہو رہا ہے۔ صوبہ بنے گا توصوبائی محکمے مقامی لوگوں کیلئے ہونگے ۔ فارن سروسز میں حصہ ملے گا اور اپنا علیحدہ صوبائی بجٹ ہوگا جو صرف سرائیکی وسیب پر خرچ ہوگا۔ پانی کے وسائل میں بھی برابر حصہ ملے گا۔ صوبے کے ساتھ زرعی آمدن ، دولت اور وسائل وسیب کی ترقی کیلئے خرچ ہونگے اور لوگوں کی معاشی حالت بہتر ہوگی ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ وسیب میں سے سینیٹر نہیں بنائے جاتے ، صوبہ بنے گا تو سینٹ میں سرائیکی صوبے کا علیحدہ کوٹہ ہوگا اوروسیب کے لوگ سینیٹر ہونگے ۔ ایک مسئلہ مخصوص نشستوں کے انتخاب کا ہوتا ہے ‘ ہمیشہ سرائیکی وسیب کو نظر انداز کر کے وسیب کے حصے کی نشستیں من پسند علاقوں کو دی جاتی رہی ہیں ۔ ابھی حال ہی میں ن لیگ اور تحریک انصاف نے خواتین کی مخصوص نشستیں ایک سے ایک بڑھ کر لاہور کو دے دیں ۔ صوبہ بنے گا تو کم از کم یہ نشستیں یہیں پر رہیں گی۔یہ بھی دیکھنے میں آیاہے کہ سرائیکی وسیب کے بہت سے لوگ ایک صوبائی یا قومی اسمبلی کی نشست کے ساتھ ساتھ کوئی سینیٹ کی ایک نشست لینے کیلئے کروڑوں روپیہ خرچ کر دیتے ہیں ۔ لیکن ان کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ یہ سرمایہ اگر سرائیکی صوبے کے قیام کی جدوجہد پر خرچ ہو تو ان کو ایک تو کیا پوری اسمبلی مل سکتی ہے مگر مسئلہ پھر وہی ہے کہ یہاں شعور کی کمی ہے اور اس خطے کا جاگیردار تو 1400 سال پرانی سوچ رکھتا ہے۔ حالانکہ یہ سب آکسفورڈ یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے ہیں مگر سوچ وہی دقیانوسی ہے۔ یہ سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ نواب مشتاق خان گورمانی ، ملک خضر حیات ٹوانہ ، ممتاز خان دولتانہ ، ملک امیر محمد خان آف کالا باغ، ملک غلام مصطفی کھر ، نواب صادق حسین قریشی ، نواب عباس خان عباسی ، مخدوم سجاد قریشی ، فاروق خان لغاری ، سید یوسف رضا گیلانی سمیت سرائیکی وسیب کے جاگیرداروں کی ایک لمبی فہرست ہے جو قیام پاکستان سے لیکر کسی نہ کسی حوالے سے بر سر اقتدار چلی آ رہی ہے ۔ ابھی کل کی بات ہے کہ ملک رفیق رجوانہ پنجاب کے گورنر تھے اور آج سردار عثمان خان بزدار پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں ۔ ہمیں یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ آپ کے اپنے علاقے کے جاگیردار ہمیشہ بر سر اقتدار رہے ، اگر انہوں نے اپنے علاقے کے لئے کوئی کام نہیں کیا تو آپ ان سے کیوں نہیں پوچھتے ۔ میری یہ تمہید اس لئے ہے کہ سردار عثمان خان بزدار کو اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے ‘ وہ ایک پڑھے لکھے آدمی ہیں ‘ ان کے والد بھی استاد رہے ، ان کا گھرانہ تعلیم سے محبت کرنے کے حوالے سے مشہور ہے تو ضروری ہے کہ وہ وسیب کے لئے کچھ کر جائیں تاکہ ان کا نام ، ان کے جانے کے بعد بھی اچھے لفظوں میں پکارا جائے اور دوسرے جاگیرداروں کی طرح ان کا نام وسیب کیلئے ایک طعنہ اور ملامت نہ بن جائے۔