22مارچ 2019ء سے پہلے جیسنڈا آرڈرن پاکستانیوں کے لئے اجنبی تھیں۔ پھر کرائسٹ چرچ کا سانحہ ہوا۔ پچاس مسلمانوں کو جمعہ کی نماز کے دوران ایک جنونی نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس وقت جیسنڈا آرڈرن نے یوں جس طرح متاثرین اور مرنے والوں کے لواحقین کو گلے سے لگایا۔ یوں لگتا کہ ایک وہ سربراہ مملکت سے زیادہ ایک شفیق اور فکر مند ماں کے روپ میں ڈھل گئیں ہیں۔ صرف ہم یہاں پاکستان میں ہی ان کے اس طرز حکومت کے دیوانے نہ ہوئے بلکہ پوری دنیا نے حیران ہو کر اس دبلی پتلی عام صورت خاتون وزیر اعظم کو دیکھا اور حیرت سے سوچا کہ اچھا تو طرز حکمرانی یہ بھی ہوتا ہے جوڑو ، تقسیم نہ کرو۔ زخم نہ کریدو، مرہم رکھو، الزام نہ دو، کچھ کر کے دکھائو۔! اور ہم پاکستانیوں نے منہ میں حیرت سے انگلیاں داب لیں کیونکہ ہمیں ہمیشہ سے جو حکمران میسر آئے ان کا نظریہ حکومت تو اس کے بالکل برعکس تھا۔یعنی تقسیم کرو اور اپنی نالائقیوں کا الزام دوسروں پر رکھتے جائو۔ کورونا وائرس کی افتاد پوری دنیا پر ایک ساتھ پڑی۔ اس جنگ میں کیسے نمٹنا ہے۔ عوام کا خیال کیسے رکھنا اور ایک سربراہ مملکت کو وبا کے اس مشکل دور میں کس طرح کا ہونا چاہیے یہ بھی نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن پوری دنیا کو بتا رہی ہیں۔ ادھر ہم کف افسوس ملتے اور اپنی کم ہمتی کا ماتم کرتے ہیں کہ وبا کے اس قاتل موسم میں ہمیں کیسے تذبذب سے بھرے اورویژن سے عاری سیاستدان میسر آئے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم اپنے لوگوں کو کووڈ۔19کی جنگ کا پہلا مرحلہ جیتنے پر خوشخبری سناتی ہیں۔ سرکاری اعلان ہوتا ہے کہ کووڈ کا آخری مریض بھی صحت یاب ہو گیا اور ادھر ہم عید سے پہلے صورت حال کو قابو میں کرتے کرتے‘ پھر سے بگاڑ بیٹھے ہیں۔ ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ چین سے پاکستانی طلبہ و طالبات کو نہ لانے کا فیصلہ بہت احسن تھا۔ دبائو کے باوجود ووہاں سے پاکستانی طلبہ نہ لا کر دانش مندی کا ثبوت ضرور دیا گیا مگر یہ تو جنگ کا ایک محاذ تھا۔ دوسرے محاذ کو دشمن کی آسانی کے لئے خالی چھوڑ دیا گیا۔کووڈ۔19چومکھی جنگ تھی۔اس کو ہمارے حکمرانوں نے میڈیا بریفنگ بلا ضرورت کے قوم سے خطابات اور باتوں کے خالی پلائو پکا کھا کر جیتنے کی کوشش میں اس جنگ کو بری طریقے سے ہارا ہے۔ہر خطاب میں وزیر اعظم مزید لوگوں کے مرنے کی بدخبریاں‘ عوام کو سناتے رہے ہیں ہر مسئلے کا جواب یہ رہا ہے کہ گزشتہ حکومتوں پر الزامات دھرتے جائیں۔ سارا قصور پچھلی حکومتوں کا ہے موت کا بازار گرم ہے۔ وبا کا قاتل موسم اپنے پنجے پھیلا رہا ہے۔ طیارے کے حادثے میں پچانوے جانیں موت کے منہ میں چلی گئیں۔ وزیر اعظم کے پے درپے خطابات نے ہربار عوام کو تذبذب میں مبتلا کیا یہ خطابات کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے ۔ بلند بانگ دعوئوں کے مینار کھڑے کیے لاکھوں کورونا ٹائیگرز کا اعلان کر کے تعریفیں سمیٹیں۔ کروڑوں روپے ٹائیگروں کی سرکاری یونیفارم پر لگایا گیا۔ مگر آج تک یہ غیر مرئی مخلوق کسی کو دکھائی نہیں دی۔ وبا کے اس قاتل موسم میں جہاں سینکڑوں لوگ موت کے منہ میں چلے گئے وہیں حکمرانوں اور پاکستان کی عوام کے درمیان اعتماد اور اعتبار کے رشتے میں بھی کمی واقع ہو گئی ہے۔ افسوس کہ وبا کے اس قاتل موسم میں ہر طرف ایسی ہاہا کار مچی ہے کہ اعتماد کی اس موت کا نوحہ ہم نہ پڑھ سکے۔ امانتاً دفن کر دیا تھا کہ نوحے کم تھے۔! ادھر ہم جیسنڈا آرڈرن کو دیکھتے ہیں۔ ان کا موازنہ اپنے حکمرانوں سے کرتے ہیں۔ دونوں کے طرز حکمرانی اور حکومت کرنے کے فلسفے کا تقابل کرتے ہیں تو بدقسمتی کی وجہ سمجھ میں آ جاتی ہے۔بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے جیسنڈا آرڈرن کہتی ہیں کہ I am very proudly an empathetic and compassionatly driven politician. میں فخر سے کہتی ہوں کہ میں دوسروں کے احساسات کا خیال رکھنے والے ایک شفیق اور ہمدرد سیاستدان ہوں۔ ہمدردی اور شفقت کے جذبات مجھے بطور سیاستدان تحریک دیتے ہیں۔ پھر وہ کہتی ہیں کہ we have a responsibility as a politician for the language we use. ایک سیاستدان کی حیثیت سے ہم ذمہ دار ہیں کہ ہم کیا زبان و بیان استعمال کرتے ہیں۔ پھر وہ اسی انٹرویومیں کہتی ہیں کہ طرز حکومت کے دو طریقے ہیں۔ پہلا گزشتہ حکومتوں کو الزام دو اور عوام کے گرد خوف اور عدم تحفظ کی دیواریں کھڑی کرتے جائو اور دوسرا طریقہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتی ہے۔Deliver a hopeعملی طور پر کر کے دکھائو۔ وہ جتنا خوب صورت بولتی ہیں۔ عملی میدان میں اس سے کہیں بڑھ کر شاندار کارکردگی کے ساتھ اپنے لوگوں کو بتاتی ہیں کہ ہم نے یہ خواب پایہ تکمیل تک پہنچا دیا ہے ادھر ہم ہیں کہ مستقبل کے صحیفے سن سن کر عمر گزار دی ہے۔ جیسنڈا آرڈرن کے فلسفہ حکمرانی کے برعکس ہمارے حکمران نا مناسب بیانات میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔’’عوام کی ابھی اور چیخیں نکلیں گی‘‘ جیسے جملے کس کو بھولے ہوں گے۔ مسائل کے حل کے جواب میں گزشتہ حکومتوں پر الزامات کی طویل فہرست سن لیں۔compassionاور empathyکی جگہ ہمارے ہاں وافر مقدار میں بے حسی اور نہ ختم ہونے والی لاتعلقی پائی جاتی ہے۔ ہائے ہماری غربت۔! ہائے ہماری بدقسمتی۔!