کیا ہم خود کو اس تجزیے کے لیے بطورنمونہ پیش کرنے کو تیار ہیںکہ ہم جمہوریت پسند ہیں یا آمریت کے حامی۔ جمہوریت پسند ہمیشہ عوام کوطاقت کا سرچشمہ مانتا ہے‘ آئین کی بالادستی تسلیم کرتا ہے‘ مخالفین کو اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے‘ خود حزب مخالف میں ہو تو حکومتی اقدامات پر نظر رکھتا ہے کہ ریاست کے مفاد کو ٹھیس نہ پہنچے۔ ضیاء الحق نے بھٹو کو اقتدار سے معزول کیا۔ ریٹائرڈ فوجی افسر مانتے ہیں کہ حکمران اشرافیہ کی دو صفیں تھیں۔ ایک سول اور دوسری خاکی۔ دونوں میں تعلق کو سول ملٹری تعلقات کہا جاتا تھا۔ بھٹو کی معزولی اور موت کے بعد عام آدمی نے بھی ایک ذہنی صف بنالی۔ سول ملٹری تعلقات اب حکمران طبقات کے باہمی مراسم تک محدود نہیں رہے‘ عام آدمی اس کا حصہ بن چکا ہے‘ حکمران اشرافیہ عام آدمی کو سٹیک ہولڈر ماننے کو تیار نہیں۔ اختیار سے محروم طبقات سول ملٹری تعلقات کی بحث کو اقتدار پر قبضے کا معاملہ سمجھتے ہیں اس لیے جب اچانک سے کوئی گروہ یا جماعت قومی منظر پر دکھائی دینے لگے‘ عوامی معاملات کی بجائے مذہبی اور ملکی سلامتی کے نعرے مقبول ہونے لگیں‘ ووٹ کو عزت دو کی مہم چلنے لگے‘ ریٹائرڈ شخصیات کے ضمیر جاگنے لگیں اور حکومت کے چل چلائو کی باتیں ہونے لگیں تو سمجھ لیں حکمران اشرافیہ والے سول ملٹری تعلقات میں مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ مسلم لیگ ن نے ق لیگ سے رابطے کئے ہیں۔ پہلے یہ رابطے خاندانی سطح پر ہوتے رہے ہیں۔ اب پارٹی قیادت کی سطح پربات ہوئی ہے۔ ق لیگ کے پاس پنجاب میں منتخبیوں کی خاص تعداد ہے۔ یہ بااثر خاندان ہیں۔ اقتدار میں نہ ہوں پھر بھی اپنے علاقے کے انتظامی و سیاسی معاملات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ حکومت پیپلزپارٹی کی ہو‘ مسلم لیگ ن کی ہو یا پی ٹی آئی کی ان کو فرق نہیں پڑتا۔ یہ مقامی قبیلوں کے سردار ہیں جو اپنی طاقت کو مل جل کر بڑھاتے ہیں۔ مسلم لیگ ن میں مہاجرین اور تاجر خاندانوں نے اپنا اثر بڑھایا ہے۔ مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے آنے والوں اور راجستھان سے آنے والے ن لیگ کے خاندانی وفادار ہیں۔ کشمیر سے آئے پناہ گزین بھی اس صف کا حصہ بنے۔ جنوبی پنجاب کے مقامی زمیندار سندھ اور وسطی پنجاب کے جاگیرداروں کے بھائی ہیں۔ جو نئے لوگ زمیندار بنے وہ طاقت کی نئی شناخت کے لیے مسلم لیگ ن کی طرف مائل ہوئے۔ اس میں کیا شک ہے کہ جاگیردار اور وڈیرے خاندانوں اور سول و خاکی بیوروکریسی میں موجود ان کے عزیز رشتے داروں کی کوئی نظریاتی ترجیحات نہیں۔ وہ ہر طاقتور سے رشتہ داری کرتے ہیں۔ دوستی استوار کرتے ہیں۔ ان کی سول ملٹری تعلقات کی بحث ان بنیادوں پر نہیں جن بنیادوں پر محروم طبقات میں دیکھی جاتی ہے۔ یہ طبقات کتنے جمہوریت پسند ہیں اس کا اندازہ اس بات سے کرلیں کہ ایک بھائی آمر کا وزیر ہوتا ہے‘ دوسرا سیاسی جماعت کا۔ باپ آمریت نواز اور بیٹا جمہوریت کا حامی۔ محروم اور غریب طبقات کا معاملہ الگ ہے۔ ان کے بچے تعلیم سے محروم ہیں‘ ان کی عورتیں ہسپتالوں کے برآمدوں میں مر جاتی ہیں‘ ان کے بزرگ دیکھ بھال سے محروم ہیں۔ ان کے جوانوں کے پاس منافع بخش مواقع نہیں۔ یہ معمولی کام کر کے گزر بسر کرتے ہیں‘ چھوٹے چھوٹے کام کرتے انہیں مقامی پولیس‘ پٹوار خانے‘ لیسکو‘ واسا‘ گیس‘ ایکسائز کے اہلکاروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ غریب آدمی کی ترقی میں سے یہ اہلکار بھتہ لیتے ہیں۔ آمریت میں گورننس بہتر ہو جاتی ہے۔ سیاسی کارکن ہر کام کرانے کی فیس نہیں لیتے اس لیے عام آدمی سول ملٹری تعلقات کے اس دور کو اچھا سمجھتا ہے‘ آج بھی ایوب دور کی مثالیں دیتا ہے۔ پاکستانی سیاست ارتقا سے گزر رہی ہے۔ شروع میں جاگیرداروں نے مذہبی طبقات کے ساتھ اتحاد کر کے عام آدمی کا استحصال کیا‘ پھر جرنیلوں اور جاگیرداروں میں ٹھن گئی۔ جب ہر طاقتور کسی وجہ سے دولت مند ہو گیا تو جرنیلوں اور صنعتکاروں میں کشمکش کا آغاز ہوا۔ صنعتکار خاندانوں کا کچھ سرمایہ سمندر پار چلا گیا ہے۔ سرمایہ جہاں جاتا ہے قانون سے ماورا رعایتیں خرید لیتا ہے۔ جدید کارپوریٹ کلچر میں پروٹوکول نامی رعایت کا یہی مطلب ہے۔ اب ہر محکمے اور ہر مقام پر پروٹوکول کا مرض پھیل چکا ہے۔ فیس ادا کریں‘ پروٹوکول انجوائے کریں۔ پروٹوکول بسااوقات رشوت کے مترادف ہو جاتا ہے۔ عدلیہ‘ اہم اداروں‘ انتظامیہ سے وابستہ افراد اور سیاستدان ایک دوسرے کو پروٹوکول دیتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اپنے اختیار کا کچھ حصہ دوسرے کو عارضی طور پر عطا کر کے اسے اہم ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ میاں نوازشریف سیاست دان ہیں۔ وہ سیاست میں دولت کے ذریعے اہمیت بنانے والوں کے مرشد ہیں۔ اپنے پینتیس چالیس سالہ دور سیاست میں انہوں نے اے ایس آئی اور نائب تحصیلدار بھرتی کرنے سے آغاز کیا۔ پھر جرنیلوں کو گاڑیاں تحفے میں دے کر شہرت پائی‘ جسٹس قیوم تو خیر بے نظیر بھٹو کو نوازشریف کی فرمائش پر سزا دینے کی ٹیپ لیک ہونے پر شرمندہ ہوئے۔ یہاں بے شمار ایسے جج رہے ہیں‘ مرحوم سعیدالزمان صدیقی سمیت جو نوازشریف کو پروٹوکول دیتے رہے‘ ایسے کئی افسران موجودہ حکومت کی جڑیں کتر رہے ہیں جنہیں نوازشریف خاندان سے راتب ملتا ہے‘ ایسے صحافیوں کا ریکارڈ کچھ دن میں منظر عام پر آنے کو ہے جو لندن میں نوازشریف سے ملتے ہیں اور اب بھی کئی سرکاری حسابات سے ماہانہ وصول کرتے ہیں‘ نوازشریف کے حق میں لکھنے والے اور بولنے والے متعدد افراد ایک مافیا کی طرح آپس میں ملے ہوئے ہیں‘نوازئیے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیں کبھی ضیاء الحق کو سلام کرنے اور کبھی ووٹ کو عزت دینے کی تلقین کرتے ہیں۔ ان معروضات کو پیش نظر رکھ کر خود پر انگلی رکھیں اور فیصلہ کریں کہ آپ کون سی جمہوریت چاہتے ہیں اور کیا موجودہ جمہوریت میں آپ جیسے لوگ بااختیار ہو سکتے ہیں؟