جوں جوں سیاسی درجہ حرارت بڑھتا ہے توں توں میرے دل کی دھڑکن بھی تیز تر ہو جاتی ہے۔جمہوریت جہاں عطیہ ربانی ہے وہاں وہ عقل انسانی کی معراج بھی ہے۔ اس وقت مشرق وسطیٰ میں ہمارے عرب بھائی بدترین قسم کی آمریت کے شکنجے میں کسے ہوئے ہیں۔ بنیادی انسانی و شہری حقوق اور آزادی تحریر و تقریر کا وہاں الا ماشاء اللہ ‘کوئی تصور نہیں۔ وہ جب پاکستان کے بارے میں سنتے ‘ پڑھتے یا چینلز پر دیکھتے ہیں تو رشک اور حسرت بھری نگاہوں سے پاکستان کی طرف تکتے ہیں۔ ادھر پاکستان کے حکمران ہوں یا اپوزیشن کے رہنما ہوں وہ نتائج سے بے پروا ہو کر دو طرفہ الزام تراشی کے کھیل میں مشغول ہیں۔ حالات جو بھی تھے اور اپوزیشن کے سیاسی الزامات سے قطع نظر جناب عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف حکمرانی کے منصب پر فائز ہو گئی۔ برسر اقتدار آ کر چاہیے تو یہ تھا کہ عمران خان اپنے اقتصادی ‘ جمہوری‘ سماجی اور تعلیمی وژن کے نفاذ اور لوگوں کی زندگی میں خوش حالی لانے کے لئے ہمہ تن مشغول ہو جاتے۔ خان صاحب سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ صرف حزب اقتدار ہی نہیں حزب اختلاف کو بھی ساتھ لے کر پارلیمنٹ کی پوری دانش و فراست اور قوت کوکام میں لا کر پاکستان میں وہ تبدیلیاں لے کر آئیں گے جن کا وہ دعویٰ اور وعدہ کرتے رہے ہیں۔ وائے افسوس ایساہرگزنہ ہوااورجناب وزیر اعظم نے نہ صرف بنفس نفیس بلکہ ان کے وزیروں اور مشیروں نے اپوزیشن پر تیر اندازی اور سابقہ حکمرانوں کے بارے میں الزام تراشی کو اپنا وتیرہ بنا لیا۔ پارلیمانی نظام میں پارلیمنٹ مضبوط ہو تو حکومتوں کا آنا جانا معمول کی بات ہوتا ہے۔ مگر جب تیسری دنیا میں جمہوریت کا پودا ابھی تناور شجر نہ بنا ہو تو اسے غیر سیاسی قوتوں کی طرف سے ہر لمحے خطرات لاحق رہتے ہیں۔ پاکستان میں جتنے بھی مارشل لاء لگے ان کی تاریخ پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ ہر فوجی طالع آزما کو قسمت آزمائی کا موقع سیاست دانوں کی باہمی چپقلش سے ملا۔ہر فوجی حکمران نے اپنے خطاب کا آغاز یوں کیا‘ ’’عزیز ہم وطنو‘ السلام علیکم! ہم ملک و قوم بچانے آئے ہیں‘‘ پھر جو بھی آیا وہ دس گیارہ برس سے پہلے واپس بیرکوں میں نہ گیا سوائے یحییٰ خان کے جس کے ساتھ قسمت نے یاوری نہ کی۔ اگرچہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے بالعموم یہی خبر ملتی ہے کہ وہ جمہوریت کے پودے کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں اور کسی طرح کی مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے مگر ان کے نیک ارادوں کا انحصار سیاست دانوں کی بالغ نظری پر منحصر ہے۔ جناب عمران خان کے بارے میں اکثر یہی تاثر ملتا ہے کہ وہ ابھی تک غم و غصے سے باہر نہیں نکل پائے اور اپوزیشن کے سابق حکمرانوں کو اکثر وہ دھمکیاں دیتے رہتے ہیں جو ان کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔ عدالتوں کی خود مختاری اور بالادستی کا تاثر تبھی قائم ہو سکتا ہے کہ جب انہیں اپنے کام کی مکمل آزادی ہو۔ مگر جب وزیر اعظم بنفس نفیس اورکم ازکم ان کے نصف درجن وزراء اور مشیر دھمکیوں کے کار خیر میں مصروف ہوں اور باقاعدہ نام بتا رہے ہوں کہ اب اگلی باری فلاں فلاں کی ہے تو پھر احتسابی اداروں کی آزادی کہاں باقی رہتی ہے۔ وزیر اعظم ریاست مدینہ کے نام لیوا ہیں۔ یہ کمٹمنٹ ایک بہت بڑی سعادت ہے بشرطیکہ اس کے لئے سرکار مدینہؐ کے اسوہ حسنہ کے مطابق صدقِ دل سے کوشش کی جا رہی ہو۔ جناب عمران خان ریاست مدینہ کی روایت کے مطابق ’’ذرا بھیس بدل کر‘‘ کہ بجٹ کے بعد خلق خداپر جو گزر رہی ہے اس کا احوال معلوم کریں۔ ابھی تو اپوزیشن نے عوام سے کوئی اپیل نہیں کی مگر عوام بلبلا رہے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے۔ عوام الناس کے علاوہ کراچی کی تاجر برادری نے سہ روزہ ہڑتال کا اعلان کیا تھا جو حکومت کی اپیل پر وقتی طور پر واپس لے لی گئی ہے مگر 13جولائی سے ملک گیر اپیل کی ہڑتال اپنی جگہ پر موجود ہے۔ دوسری طرف لگتا یہ ہے کہ تنگ آمد بجنگ آمد۔ مریم نواز نے اب پارٹی کی قیادت مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں لے کر ’’اعلان جنگ‘‘ کر دیا ہے۔ وہ ایک جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو پریس کے سامنے لائی ہیں۔ حکومت کی تمام تر رکاوٹوں کے باوجود مریم نواز نے رات گئے منڈی بہائوالدین میں جا کر جلسہ کیا ہے۔ اقتصادی صورت حال اوربجٹ کے بارے میں دو آرا ہیں ۔اپوزیشن کی رائے یہ ہے کہ حکومت معاشی صلاحیت و مہارت سے بے بہرہ ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ حکومت کے پاس معیشت کو درست سمت دینے کا کوئی منصوبہ نہیں اس لئے وہ ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے اور الزام تراشی کر رہی ہے۔ جبکہ حکومت کا کہنا یہ ہے کہ پچھلی دونوں حکومتیں خزانہ خالی کر گئی ہیں اس لئے وہ جو قرضہ لیتے ہیں وہ سود کی ادائیگی میں خرچ کر دیتے ہیں۔ کوئی بڑا میثاق معیشت ہو یا نہ ہو مگر دو طرفہ طور پر الزام تراشی کا کلچر فی الفورختم ہونا چاہیے کیونکہ اسی میں ملک و قوم کا بھلا ہے۔ علمی مباحث اور دینی معاملات جناب عمران خان کا میدان نہیں۔ اس لئے جب وہ ان شعبوں کے بارے میں طبع آزمائی کرتے تو اپنے لئے ایک نئی مشکل پیدا کر لیتے ہیں۔ گزشتہ روز ایک ٹویٹ میسج کے ذریعے انہوں نے روسی مصنفہ Ayan Randکی 60برس پہلے لکھی ہوئی کتاب کا ذکر کیا اور اس کے معاشی تجزیے کو پاکستان پر چسپاں کرنے کی کوشش کی۔ آریان روسی نہیں وہ روسی‘ امریکن ہے۔ وہ 1905ء میں روس میں پیدا ہوئی اور 1926ء میں ہجرت کر کے آ گئی۔ اس کی بنیادی وجہ شہرت ایک فکشن رائٹر کی حیثیت سے تھی۔ اس کے دو ناول بیسٹ سیلر رہے۔ ایک فائونٹین ہیڈ اور دوسرا اٹلس۔ اس نے 1970ء کی دہائی میں سوشلسٹ معیشت پر کڑی تنقید کی۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ اوپر بیٹھ کر حکم چلانے اور رعب جمانے والے اور صنعت و تجارت کی اجازت دینے والوں کا چونکہ بزنس میں پیسہ ہوتا ہے اور نہ ہی محنت میں‘اس لئے انہیں پیداوار کے گھٹنے بڑھنے سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ یہ خیالات کمیونزم اور سوشلزم والی معیشت کے بارے میں تھے۔ ان کا پاکستان کے موجودہ معاشی حالات پر کوئی اطلاق نہیں ہوتا۔بعدازاں آریان رینڈ نے فکشن کو خیر باد کہہ کر فلاسفی اور زندگی کی آئیڈیالوجی کے بارے میں اوریجنل خیالات کا اظہار کیا۔ رینڈ کی چار نکاتی آئیڈیالوجی کا خلاصہ ادراک حقیقت‘ دلیل و منطق ‘ذاتی دلچسپی‘ آزادی معیشت ہے۔ان چار ستونوں پر رینڈ نے اپنی آئیڈیالوجی کی عمارت استوار کی تھی۔ اس کی برسوں پر پھیلی ہوئی سوچ بچار اور فلاسفی کا نچوڑ ’’آزاد معیشت‘‘ ہے۔ یہی اس وقت پاکستان کی ضرورت ہے۔ جناب عمران خان زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کریں۔ اس سے پیداواربڑھے گی‘ روزگار بڑھے گا اور ٹیکس میں اضافہ ہو گا۔ ڈرانے دھمکانے سے تو سرمایہ کاری سکڑ جائے گی‘ سمٹ جائے گی۔ جناب عمران خان22سالہ سیاسی جدوجہد کر کے اس میدان میں آئے ہیں۔ لہٰذا اب وہ بھی سیاست کے اسی طرح سٹیک ہولڈرز ہیںجیسے کوئی دوسرا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں جمہوریت کی حقیقی قدر پہچانیں۔ خدانخواستہ کسی باد صر صرکے تھپیڑے سے اگر جمہوریت کا گلستان اجڑ جاتاہے اور یہاں آمریت ڈیرے جما لیتی ہے تو جہاں یہ آئین شکنی اور اقوال قائد کی خلاف ورزی ہو گی وہاں یہ ملک و قوم کی بدقسمتی بھی ہو گی۔ اس لئے جب یہ سوچتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں۔