اٹھو کہ اطلاع آ گئی ہے۔ یہ رنگین زرق برق لباس اتارو۔ سیاہ ماتمی کپڑے پہنو۔ بال بکھیر لو۔ پٹکا کمر سے باندھ لو۔ نوحہ گر کو بلائو۔ بین کرے اور ایسا بین کہ دل دہل جائیں۔ سننے والے چیخ اٹھیں۔ پرندے گر کر مر جائیں۔ جنگلوں میں جانور بھاگتے پھریں۔ چلو جنازہ گاہ کی طرف!وقت کم ہے۔ قدم تیز تیز اٹھائو۔ ایسا نہ ہو کہ تدفین ہو جائے۔ ہم مرنے والی کا چہرہ دیکھنے سے محروم رہ جائیں۔ تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ میت کو زیادہ دیر قبر سے باہر نہیں رکھا جا سکتا۔ تمہارا انتظار کوئی نہیں کرے گا۔ ایک دنیا ماتم کرتی ‘ نوحے پڑھتی‘ سینے پیٹتی، جنازہ گاہ کی طرف جا رہی ہے۔ گلیاں لوگوں سے اٹ گئی ہیں۔ احباب‘ اعزہ و اقارب‘ وابستگان‘سب چلے آ رہے ہیں۔ صفیں باندھ لی گئی ہیں۔ یہ ایسا جنازہ ہے جس میں سب مسلکوں کے ماننے والے شامل ہیں۔ ہاتھ باندھنے والے بھی‘ ہاتھ چھوڑنے والے بھی۔ ہاتھ کانوں تک لے جانے والے بھی۔ نہ لے جانے والے بھی۔ یگانگت کا یہ مظاہرہ مرنے والی کا اعجاز ہے۔ کرشمہ ہے۔ ایسے میں کوئی وزیر اعظم کو بھی بلا بھیجو۔ کہاں ہیں عالم پناہ؟ یہ جو کفن اوڑھے‘ چپ چاپ لکڑی کے ڈھانچے پر دراز ہے‘ یہ عالم پناہ‘ ظلِ الٰہی ہی کی تو چہیتی تھی۔ وزیر اعظم نے اسے بائیس برس پہلے پتھر سے تراشا۔ پھر اس میں روح پھونکی۔ پھر اسے پوری قوم کے سامنے رکھا اور قوم سے کہا! اسے پوجو۔ اس کی پرستش کرو۔ اس کے لئے نعرے لگائو۔ یہی تمہاری نجات دہندہ ہے۔ یہی تمہارے مستقبل کی روشنی ہے۔ یہی تمہارے دکھ، تمہارے غم، تمہارے دلدر دور کرے گی! بائیس برس ہم نے اسے تخت پر بٹھائے رکھا۔ ہم نے اس کی پوجا کی۔ ہم نے اس کے لئے ماریں کھائیں۔ طعنے سنے‘ جلسے کئے۔ جلوس نکالے مگر دنیا فانی ہے۔ زندگی عارضی ہے۔ افسوس یہ آج مر گئی۔ ہم نے اسے کفن پہنایا۔ جنازہ پڑھا۔ اب اسے لحد میں اتار رہے ہیں۔ وہ دیکھو! قبر پر مٹی ڈالی رہی ہے۔ تلاوت کرنے والے مولانا پہنچ گئے۔ سب دعا کر رہے ہیں۔ سب کے چہرے مغموم ہیں۔ آنکھیں آنسوئوں سے بھری ہیں۔ دلوں پر رقت طاری ہے۔ کوئی ایسے میں وزیر اعظم کو بلا بھیجو۔ وہ جنازے پر پہنچے نہ تدفین پر۔ اب آ کر دعا میں تو شامل ہو جائیں! یہ وزیر اعظم کی وہ چہیتی تھی۔ جس کا نام عالم پناہ نے پیار سے لاڈ سے’’تبدیلی‘‘ رکھا تھا۔ افسوس! ہائے افسوس! ہیہات! صد ہیہات! تبدیلی مر گئی۔ تبدیلی کا جنازہ پڑھ لیا گیا۔ تبدیلی دفن ہو گئی، تبدیلی سینکڑوں من مٹی کے نیچے چلی گئی! کوئی وزیر اعظم کو بلا بھیجو۔خود نہیں آتے تو اے ڈی سی کے ہاتھ پھول ہی بھیج دیں! کسی سٹاف افسر کو حکم دیں کہ قبر پر آ کر پانی ہی چھڑک دے۔ پاکستان میں ایک ڈرگ کنٹرول اتھارٹی ہے جو صوبوں میں اور وفاق میں ادویات کے معاملات کو اور تمام پہلوئوں کو کنٹرول کرتی ہے۔ قیمتوں پر نظر رکھتی ہے اور دوا ساز کمپنیوں کو قوانین کے اندر رکھتی ہے۔ اس ادارے کے ایک افسر کے خلاف نیب نے 2001ء اور 2004ء میں کرپشن کے الزامات میں انکوائریاں کیں۔ نیب کو بتایا گیا کہ افسر تو اس دارِ فانی سے کوچ کر گیا۔ الزام چار افسروں پر تھا کہ دوا ساز کمپنیوں کے ساتھ ملی بھگت کر کے ریاست کو مالی نقصان پہنچایا گیا۔ پھر یہی افسر دوبارہ زندہ ہو گیا۔ مسلم لیگ نون کی حکومت نے اسے ڈرگ کنٹرول اتھارٹی کا قائم مقام سربراہ بنایا اس پر معروف انگریزی معاصر نے 5فروری 2018ء کو لکھا کہ ان صاحب کو تو نیب ریفرنس میں مرحوم قرار دیا گیا تھا۔ اس تعیناتی پر نیب کے سربراہ نے حکم دیا کہ زندہ ہو جانے والے اس مرحوم کے خلاف تفتیش کی جائے کہ اس کے وسائل ‘ آمدنی سے زیادہ ہیں اور کیوں ہیں۔ دوسری طرف وزارت کا موقف یہ ہے کہ عدالت نے نیب الزامات سے اس افسر کو بری کر دیا اور اس سے زیادہ اہل افسر کوئی نہیں! ہم فرض کر لیتے ہیں کہ الزامات غلط تھے ہم یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ وہ لائق ہے۔ مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ وہ ایک متنازعہ شخصیت ہے۔ کیا کابینہ کو اور کابینہ کے سربراہ وزیر اعظم کو اتنا بھی نہیں معلوم‘ان میں اتنا کامن سینس بھی نہیں کہ ایک شدید متنازعہ شخص کو ادارے کا سربراہ بنا کر وہ اپنی پوزیشن کو خراب کر رہے ہیں۔ اس ملک میں یہ تماشا عام ہے کہ الزامات باقاعدہ اعداد و شمار کے ساتھ شائع کئے جاتے ہیں۔ اس افسر سمیت جن افراد کے خلاف انکوائری یا انکوائریاں ہوئیں ان کے بارے میں بتایا گیا کہ انہوں نے بالترتیب قومی خزانے کو چار کروڑ 62لاکھ ‘ ایک کروڑ بارہ لاکھ‘ تین کروڑ81لاکھ اور پانچ کروڑ دس لاکھ کا نقصان مبینہ طور پر پہنچایا۔ ان میں ایک صاحب کو مرحوم قرار دیا گیا۔ پھر سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔ مطلع صاف ہو جاتا ہے کبھی کہا جاتا ہے کہ ٹائپ کی غلطی تھی۔ کبھی عدالتیں بری کر دیتی ہیں۔ کثافت دُھل جاتی ہے۔ کیا یہ تبدیلی ہے کہ جو شخص اٹھارہ بیس برسوں سے متنازعہ چلا آ رہا ہے،جسے گزشتہ حکومت تعینات کرتی ہے تو نیب کا سربراہ انکوائری کا حکم دے دیتا ہے‘ اسے موجودہ حکومت بھی سارے دعوئوں کے باوجود سربراہ تعینات کر دے؟ گویا بائیس کروڑ افراد کے اس ملک میں اس متنازعہ شخص کے علاوہ کوئی ڈاکٹر‘ کوئی دوا ساز‘ کوئی ان امور کا ماہر‘ ملنا ناممکن ہے! اس کالم نگار کی اور اس اخبار کی ڈاکٹر اختر شیخ صاحب سے کوئی عداوت ہے نہ پرخاش‘ ہم تو ان سے متعارف ہی نہیں۔ وہ بالکل بے گناہوں گے۔ ہمارا گلہ‘ ہمارا الزام تو حکومت پر ہے جس نے انہیں شدید متنازعہ پس منظر کے باوجود تعینات کر دیا! کیا احتیاط ہے! خار دار جھاڑیوں کے درمیان دامن بچا کر چلنے کا کیا انوکھا انداز ہے۔ سبحان اللہ! اسے کہتے ہیں آ بیل مجھے مار۔ بلکہ خدا کا واسطہ ہے ضرور مار! آئیے! دعا کو ہاتھ اٹھائیں۔خدا تبدیلی کو جنت میں جگہ دے۔ جمعرات کو قل ہیں۔ سب وقت پر پہنچیں!