خیر سے عمران خاں صاحب کی حکومت قائم ہوئے جمعہ جمعہ سو دن ہونے والے ہیں اور احباب پوچھ رہے ہیں کہ ان سو دنوں میں کیا تبدیلی آئی۔ کیا ہوا‘ کیا نہیں ہوا۔ پھر اس سوال کا جواب بھی خود احباب ہی دے رہے ہیں اور اس بارے میں ان کی رائے منقسم ہے۔ مثلاً احباب کا ایک طبقہ بتاتا ہے کہ بہت کچھ ہوا۔ جیسا کہ شیلٹر ہوم (پناہ گاہیں) بنانے کا اعلان ہوا ہے۔ کئی ہزار خاندانوں کے سر سے چھت چھین کر ایک رحم دلی کا اشارہ تو ملا۔ یہ پناہ گاہیں کب بنیں گی۔ اس بارے میں احباب بے یقینی کا شکار ہیں۔ کچھ البتہ پر یقین ہیں کہ پشاور میٹرو تعمیر ہوتے ہی ان کی تعمیر بھی شروع ہو جائے گی۔ جو ہزاروں بے چھت‘ بے گھر ہوئے ان میں سے چند سو یہاں آ کر رہ لیں گے‘ یوں ازالہ مافات جزوی طور پر ہو جائے گا۔ جزاک اللہ۔ یہ طبقہ بتاتا ہے کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری استحصال کرتی تھی، ان استحصالیوں کو بستر علالت پر پہنچا دیا گیا ہے۔ کارخانے ٹھپ ہیں۔ تعمیراتی کام کرنے والوں کو بھی جبری آرام پر بھیج دیا گیا ہے اور یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں کہ ترقی تعمیراتی کاموں سے نہیں آتی۔ یعنی فضول کام ہے اور فضول کام بند ہی اچھے۔ ہر ادارے میں ڈائون سائزنگ ہو رہی ہے۔ یعنی ادارے‘’’سمارٹ‘‘ ہو رہے ہیں۔ ادارے سمارٹ ہوں گے تو ملک بھی سمارٹ ہو جائے گا۔ دوسرا طبقۂ احباب قنوطیت پرست ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کچھ نہیں ہوا۔ ہاں بربادی بہت ہوئی ہے۔ ستر دن میں ستر سال کی کسر نکل گئی ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری کے فلڈ گیٹ کھل گئے ہیں۔ تیسرا طبقہ حقائق چننے والوں کا ہے۔ اس طبقے نے کل چار حقائق چنے ہیں جو ترتیب وار درج کئے جاتے ہیں نمبر ایک۔ موجودہ حکومت کچھ کر ہی نہیں سکتی۔ نمبر 2موجودہ حکومت کرنے کے قابل ہی نہیں۔ نمبر 3۔موجودہ حکومت کچھ کرنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتی۔ نمبر 4۔یہ حکمران کچھ کرنے کا ایجنڈا نہیں لائے تھے بلکہ یہ کچھ اور کرنے کا ایجنڈا لائے ہیں۔ ایجنڈا کچھ کرنے کا نہیں ہے۔ کچھ اور کرنے کا ہے کیا مطلب بھئی؟ ٭٭٭٭٭ مولانا فضل الرحمن نے کراچی اور پشاور میں بڑے بڑے جلسے کئے۔ کراچی کا جلسہ کلو میٹروں میں پھیلا ہوا تھا اور پشاور کا بھی غیر معمولی تھا لیکن میڈیا میں اس کی کوریج نہیں ہوئی۔ مطلب ہوئی تو ضرورلیکن کچھ خاص نہیں۔ بس اتنی جگہ ملی جتنی کسی عام کارنر میٹنگ کو ملتی ہے۔ مولانا نے بڑے گرم گرم خطاب کئے۔ اخبار والوں کو ٹھنڈا کر کے چھاپنا پڑا۔ مولانا نے جو کہا اس سے اتفاق ضروری نہیں لیکن اوپر دیے گئے پیرے کے آخر میں جو سوال ہے یعنی کچھ اور ہی کرنے کا ایجنڈا کیا ہے۔ اس سے ان کے خطاب کا تعلق ضرور بنتا ہے۔ امید تو یہی ہے کہ مولانا نے جو فرمایا‘ غلط ہی فرمایا ہو گا لیکن احباب کی ایک چوتھی قسم ایسی بھی ہے جو اس غلط فرمائے گئے کو درست فرمایا مان رہی ہے۔ مولانا نے فرمایا‘ خاں صاحب کی حکومت چار کاموں کے لئے لائی گئی ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنا‘ قادیانیوں کو طاقت دینا‘ آسیہ کو رہا کرنا اور سی پیک کا بوریا بستر لپیٹنا۔ ہمیں تو یقین ہے کہ مولانا کی باتیں غلط ہیں پر اتفاق کچھ ایسا ہے کہ آسیہ اور سی پیک کو چھوڑ کر باقی امور پر یہی باتیں‘ مطلب کم و بیش یہی باتیں کوئی ربع صدی پہلے حکیم سعید(شہید) نے بھی کی تھیں۔ یہ باتیں انہیں کیسے معلوم ہوئی ہوں گی؟ آپ کے دنیا بھر میں اہم لوگوں سے تعلقات تھے۔ ساری دنیا کے مسلمان انٹیلی جنشیا سے دوستانہ تھے۔ ملک کے اندر بھی ہر قسم کے ’’کاریڈور‘‘ میں ان کے ارادت مند موجود تھے۔ پتہ نہیں انہوں نے کہاں سے سنا لیکن جو سنا اپنی کتاب جاپان کہانی میں لکھ ڈالا جو 1995ء میں چھپی‘ اگلے برس لوگوں میں زیر بحث آئی بات کسی کی سمجھ میں آئی‘ کسی کے اوپر سے گزر گئی۔ کسی نے ان کی بات مانی کسی نے مسترد کر دی یوں بات آئی گئی ہو گئی لیکن بھانپنے والے بھانپ گئے۔ مولانا فضل الرحمن کو بھی احتیاط کرنی چاہیے۔ ٭٭٭٭٭ بھانپنے والے حضرات صاحب قدرت بھی ہوا کرتے ہیں۔60ء کی دہائی کی بات ہے جماعت اسلامی کے ایک سکالر مصباح الاسلام فاروقی ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے صہیونی برادری کی خفیہ دستاویزات پر مشتمل انگریزی کتاب’’پروٹوکول‘‘ کا ترجمہ کر ڈالا۔ جماعت اسلامی نے غضب کیا کہ یہ ترجمہ چھاپ بھی ڈالا۔ ’’پروٹوکول‘‘ یورپ میں چھپ کر نایاب ہو چکی تھی، مطلب کر دی گئی تھی۔ فاروقی صاحب کے ہاتھ ایک نسخہ لگا۔ انہوں نے ترجمہ کیا اور چھاپ دیا اور جلد ہی اس کا صلہ بھی پا لیا۔ پراسرار ٹریفک حادثے میں زخمی ہو گئے۔ جان بچ گئی لیکن قوت کار پہلے جیسی نہ رہی۔ ٭٭٭٭٭ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے تحریک انصاف کی خاتون رکن اسمبلی کے فرمودات پر گرفت کی ہے۔ ایک مذمتی بیان مولانا غفور حیدری نے بھی دیا ہے لیکن باقی دینی حلقے خاموش ہیں۔ تحریک انصاف کے ایک رہنما نے محترمہ کے ارشادات کو ان کے ذاتی خیالات قرار دے کر معاملہ نمٹانے کی کوشش کی ہے۔ خوب‘ لگے ہاتھوں فرما دیتے کہ تحریک کے ’’اجتماعی خیالات‘‘ پھر کیا ہیں۔ قبلہ بدلنے کا حکم خدا نے دیا تھا۔ نبی مکرمؐ نے ازخود فیصلہ نہیں کیا تھا۔ وحی حالت نماز میں اتری نماز ہی کے دوران قبلہ بدلا گیا۔ محترمہ فرماتی ہیں کہ آپؐ نے یہ فیصلہ یہودیوں کو خوش کرنے کے لیے کیا تھا۔ قبلہ حافظ سعید‘ قبلہ مولانا حامد الحق‘ قبلہ مولانا رضوی کے پاس تو خاموش رہنے کا ’’عذر شرعی‘‘ ہو گا۔ اس لیے یہ سوال جناب مفتی منیب الرحمن‘ مولانا شاہ اویس نورانی‘ مولانا بنوری اور پروفیسر ساجد میر کی خدمت میں پیش ہے کہ وہ ان ’’ہفوات‘‘ پر کیا فرماتے ہیں؟