ایک جملہ معترضہ جس سے میں صرف نظر کرنا چاہتا تھا بیان کیے دیتا ہوں۔ سیاست کے میدان میں بہت کچھ ہو رہا ہے اس میں ایک سجدہ بھی ہے جس پر بہت کچھ لکھا گیا ۔ایک آدھ تو بہت کام کے کالم آئے ہیں‘ ان پر بہرحال میں اب گفتگو نہیں کروں گا۔ مذہبی طور پر میرا تعلق اس مکتب فکر سے ہے جو برصغیر کے مسلمانوں کے جمہور کا مسلک ہے۔ اسے آج کل کے پڑھے لکھے معاشر ے میں پیر پرستوں اور قبرپرستوں کا مذہب کہہ کر فقرے کسے جاتے ہیں۔ ذرا سنجیدہ گفتگومیں اسے تصوف کے حامیوں سے منسلک کیا جاتا ہے۔ میں اسے صرف جمہور کا مسلک کہتا ہوں۔ ہماری طرح ترکی کے مسلمان بھی یہی مزاج رکھتے ہیں۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ جب کبھی سلیم احمد اور میرے درمیان کوئی بحث شروع ہو جاتی اور معاملہ دین کا ہوتا تو سلیم احمد جلال میں آ کر گرج کر پوچھتے‘ پہلے اپنا مسلک بیان کرو میں کہتا سنی حنفی ‘ بریلوی۔ سلیم احمد خاندانی طور پر دیو بندی تھے مگر جب میں جواب میں پوچھتا آپ بھی اپنا مسلک بیان کریں تو وہ اگرچہ خاندانی طور پر دیو بندی تھے مگر جواب دیتے سنی‘ حنفی ‘بریلوی مطلب یہ ہوتا کہ مذہب میں اوریجنل بننے کی کوشش نہ کرو۔ جو دلیل بھی دینا ہے‘ اس کے پیچھے وہ قوت ہونی چاہیے جو تاریخی تسلسل سے ہم تک پہنچی ہے۔ فلسفہ جھاڑنے کی کوشش نہ کرو‘ حضورؐ نے فرما رکھا ہے کہ میری امت کا سواد اعظم کبھی گمراہی پر متفق نہیں ہو گا۔ ہمارے ہاں یہ رواج ہو گیا ہے کہ جمہور کے مسلک کو عوام کا بلکہ جہلا کا مسلک سمجھ لیا گیا ہے۔ ہم اپنے اپنے زور بیان سے اس پر اعتراض کرتے رہتے ہیں اور ہر غلط اور جاہلانہ رسم کو اس گروہ سے جوڑتے رہتے ہیں۔ اب یہی ایک مسئلہ لے لو‘ قبروں ‘ مزاروں پر جانا یا پیروں‘ فقیروں یا گویا ان کے مزاروں پر سجدہ کرنا یا جھکنا یا بوسہ دینا۔ میں اور صوفیا کی طرح بابا فرید الدین گنج شکرؒ کا بہت مداح ہوں۔ اس دھرتی پر ہم جو مسلمان ہیں اس میں ان کی شخصیت کا بہت دخل ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کو نائب الرسول فی الہند کہا جاتا ہے اور بابا صاحب کو خواجہ غریب نواز کے سلسلہ چشتیہ کا بانی ثانی سمجھا جاتا ہے بالکل اس طرح جس طرح بابر کے بعد ہمایوں کو نہیں اکبر کو مغلیہ سلطنت کا بانی ثانی کہا جاتا ہے۔ جملہ معترضہ طویل ہو گیا میں تو صرف دو سطریں لکھنا چاہتا تھا کہ جمہور کا یہ مسلک ہمارے ہاں بریلویت کے نام سے موسوم ہے ۔اس کی وجہ بریلی میں پیدا ہونے والے ایک جلیل القدر امام وقت تھے۔ وگرنہ یہ مسلک برصغیر میں پہلے ہی سے جمہور کا مسلک تھا۔ اس جلیل القدر شخصیت کا نام ہم سب جانتے ہیں‘ احمد رضا خاں بریلوی ہے جنہیں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک اعزاز ہے جو انہیں اسلام کے اس قرن آخر میں حاصل ہوا ۔وہ اپنے مزاج کے لحاظ سے ذرا متشدد اور سخت گیر بھی گنے جاتے ہیں۔ عام طور پر ان کے بارے میں یہ پھیلا دیا گیا کہ یہ جو عوام میں جاہلیت کے ساری رسمیں ہیں انہیں ان کی حمایت حاصل ہے۔ قبروں کو سجدہ وغیرہ کا تو بریلویوں کوطعنہ بھی دیا جاتا ہے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ ان سے جب اس سجدہ تعظیمی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بلا توقف فرمایا! ایسا سجدہ اگر تعظیم اور احترام کی نیت سے کیا جائے تو حرام ہے اور اگر عبادت (یا ثواب) کی نیت سے کیا جائے تو شرک ہے۔ اس کے بعد اسے جمہور کا مسلک کہنا سراسر زیادتی ہو گا۔ امام احمد رضا خاں کا فتاویٰ کوئی 32جلدوں میں مدون ہو کر شائع ہو چکا ہے جس میں اس موضوع پر اتنی مفصل بحث ہے کہ اسے الگ کر کے چھاپا جائے تو ایک پوری کتاب بنتی ہے۔ ہمارے ہاں چالیس حدیثیں مدون کرنے کی ایک روایت ہے۔ اس لیے کہ حضورؐ نے چالیس حدیثیں یاد رکھنے والوں کو نوید دے رکھی ہے۔ اس لیے احادیث اربعین کے نام سے بہت سے علماء نے حدیثوںکے مجموعے اپنے اپنے ذوق کے تحت مرتب کئے۔ اعلیٰ حضرت نے اس مسئلے پر ہی چالیس حدیثیں اور قرآن کی کئی آیات نقل کر کے یہ بتایا ہے کہ اس قسم کی کوئی حرکت کسی طور جائز نہیں ہے۔ یہ تو ہو گئی مسلک کی بات تو بعض لوگ اسے مسلک سے ہٹ کر محبت کے کھاتے میں لے جاتے ہیں۔ کسی نے اقبال کا یہ شعر نقل کیا ہے وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات اب میں سوچتا ہوں کاش میں نے یہ جملہ معترضہ شروع نہ کیا ہوتا۔ عرض صرف یہ کرنا تھا کہ شریعت عشق کے بھی اپنے تقاضے ہیں۔ محبت کے اپنے قرینے ہیں دور بیٹھا غبار میرؔ اس سے عشق بن یہ ادب نہیں آتا اب آپ چاہیں تو اس وارفتگی اور بے خودی کے حق میں بھی مضمون باندھ دوں۔ تاہم اس وقت مرا مقصد یہ ہے نہ وہ۔ بس ایک معاملے پر وضاحت کرنا مقصود تھا۔ اب میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔ کیونکہ اس پر یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ محبت اور سیاست میں سب جائز ہے۔ یوں بھی کہہ لیجیے کہ سیاست اور جنگ میں ہر بات روا ہے۔ جملہ معترضہ تو تمام ہوا۔ مگر اب کالم کی گنجائش نہیں رہی۔ اب اگر کوشش بھی کروں تو اس کا معاملہ جملہ معترضہ کا بن جائے گا۔ ویسے یہ وہ دن نہیں جب سیاست کی اتنی گنجائش رہ گئی ہے۔ روز منظر نامہ بدلتا ہے خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ کوئی نادیدہ قوت معاملات پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔ سب کچھ فطری طور پر نہیں ہو رہا ایک دن تین خبریں اکٹھی آئیں۔ شاہد خاقان عباسی نااہل‘ دانیال عزیز نااہل‘ قمر الاسلام ن لیگ کا ٹکٹ ملتے ہی نیب کی قید میں۔ آج اچانک معلوم ہوا کہ جنوبی پنجاب سے ن لیگ کے دس ٹکٹ ہولڈر نے ٹکٹ واپس کر کے آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑنے کا اعلان کیا اور جیپ کا انتخابی نشان مانگ لیا۔ یہ نشان آزاد منشوں میں بڑا پاپولر جا رہا ہے۔ نواز شریف پہلی بار لندن سے بولے ہیں کہ ہمارے کارکنوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ایک کو تو تھپڑ مارے گئے ‘مارا پیٹا گیا۔ یہ تھپڑ کھانے والا بھی ایک ویڈیو میں نمودار ہوا اور صفائی دی کہ غلط فہمی ہو گئی۔ یہ منحرفین اس وقت سامنے آئے جب ن لیگ کے پاس کسی اور کوٹکٹ دینے کا وقت بھی نہ تھا۔ بالکل ویسا جیسا سینٹ کے انتخاب میں ہوا تھا۔ ٹکٹ دینے کا وقت گزر چکا تو نواز شریف کی نااہلی آ گئی اور ان کے دیئے ہوئے ٹکٹ بھی بے کار ہو گئے۔ ویسے اور بہت کچھ ہو رہا ہے۔ میانوالی میں عمران خان کو دھچکا پہنچا۔ چار لوگوں نے ٹکٹ واپس کئے اور دوسرے گروپ کو دے دیے گئے۔ الیکشن کی گھڑی سر پر ہے اور یہ سب اتھل پتھل ہو رہا ہے۔ بعض لوگ اسے جمہوریت کے لیے نیک شگون کہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس الیکشن کا انعقاد یقینی ہو جائے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو یہ سمجھ رہے تھے کہ اگر حسب حال مثبت نتائج کی صورت پیدا نہ ہوئی تو انتخاب نہ ہوں گے۔ خدا نہ کرے ایسا ہو۔ میری دعا یہ بھی ہے کہ انتخاب سکون سے ہو جائیں اور یہ بھی ہے کہ انتخاب کے بعد نتائج کو تسلیم کر لیا جائے۔ میں نے 73ء کے انتخاب دیکھے ہیں۔ یہ تیسری دنیا میں پہلی بار ہوا تھا کہ دھاندلی کے خلاف عوامی تحریک چلی تھی اگرچہ یہ بھی رائے ہے کہ یہ دھاندلی نہ بھی ہوتی تو بھی حکمران جماعت جیت جاتی۔ اس وقت بعض مبصرین کو خدشہ ہے کہ انتخابات کے بعد بھی معاملہ پرسکون نہ ہو گا۔ پہلے بہت خرابی پیدا ہو چکی ہے۔ راوی گواہی دیتا ہے کہ اس کے لیے ہم سب ذمہ دار ہیں۔ کوئی ایک گروہ یا ادارہ نہیں‘ ہم سب‘ سیاستدانوں میں بھی کوئی ایک جماعت نہیں‘ سبھی جماعتیں۔ اللہ ہمارے گناہ معاف کرے۔ بہرحال اس بقیہ کالم کو بھی ایک جملہ معترضہ سمجھ لیجیے۔ مفصل کالم بعد میں لکھوں گا۔ پر میرے لکھے سے کیا ہوتا ہے‘ بس فرض ادا ہو جاتا ہے۔