کمالیہ سے ایک سابق خاتون ایم این اے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ مسلم لیگ ن کی یہ رہنما اپنے باپ کی عمر کے ایک بزرگ کو تھپڑ مار رہی ہے۔ اس کا گریبان پکڑ کر اسے کھینچ رہی ہے۔ وہ بچائو کے لیے چہرے کے سامنے اپنے لرزیدہ ہاتھ کی اوٹ بناتا ہے تو خاتون سیاستدان اسے دھمکاتے ہوئے ہاتھ نیچے کرنے کا کہتی ہے اور تھپڑ مارنے لگتی ہے۔ معاملے کا پتہ نہیں کیا ہے‘ ہو سکتا ہے وہ بزرگ شخص ہی قصووار ہو مگر اس کے سفید بالوں کا لحاظ نہ کرنا… یہ کیا ہے۔ گزشتہ برس ایک خاتون رکن اسمبلی کی ایسی ہی ویڈیو لاکھوں پاکستانیوں نے دیکھی۔ اس خاتون نے بھی اپنے باپ کی عمر کے ایک شخص کا منہ اپنے ہاتھوں سے کالا کیا۔ پیپلز پارٹی کی رکن سندھ اسمبلی وحیدہ شاہ تو یاد ہو گی۔ وہ وحیدہ شاہ جس نے ایک پولنگ سٹیشن میں گھس کر انتخابی ڈیوٹی پر مامور دو خواتین کو تھپڑ مارے۔ شریف گھرانوں کی دو استانیاں طاقت سے بے قابو وحیدہ شاہ سے مار کر کھا کربے بسی سے روتی رہیں۔ ہم جس جمہوریت کو فوجی آمریت پر فوقیت دیتے ہیں وہ اندر سے گٹر ہے۔ اپر کلاس کی ساری گندگی اس سے جڑی ہوئی ہے۔ پاکستان کا مطالبہ غریب اور استحصال زدہ طبقات نے کیا تھا مگر 1946ء تک تحریک پاکستان کی قیادت جاگیرداروں‘ نوابوں اور انگریز کے مراعات یافتہ طبقات کے ہاتھ آ چکی تھی۔ان سب کی آل اولاد آج ہم پر مسلط ہے۔ بہت سال ہوئے میں نے حکیم سید اسماعیل راز جالندھری کی ڈائری کے ذریعے ان کی زندگی کے کچھ گوشوں کی تحقیق کی۔ حکیم صاحب مسلم لیگ کے جلسوں میں ولولہ انگیز نظمیں پڑھا کرتے‘ پنجاب مسلم لیگ گارڈ کے سرگرم لیڈر تھے‘ کانگرس کے جلسوں کو الٹا دیا کرتے۔ یہ ڈائری تدوین کے بعد اکادمی ادبیات نے اشاعت کے لیے منظور کی۔ پچھلے 18سال سے وہاں پڑی ہے‘ جانے مسودہ موجود ہے یا کسی نے غائب کر دیا۔ حکیم صاحب کو لوگ شاید ہی اب جانتے ہوں۔ ہمارے کچھ عزیز آزادی کے وقت ضلع فیروز پور میں واقع قصبے موگہ کے رہنے والے تھے۔ آزادی کا اعلان ہوا تو سارے خاندان کو کمروں میں بند کر کے آگ لگا دی گئی۔ ایک بچہ ہمسایوں نے چھپا دیا۔ جو بعد میں نزدیکی گائوں میں رہنے والے رشتہ داروں کے ساتھ پاکستان آیا۔ یہ ساری زندگی بند کمرے میں نہ سو سکا‘ ہمیشہ بس کی چھت پر سفر کیا۔ دروازہ بند ہوتا تو اس پر ایک خوف طاری ہو جاتا۔ میں نے بہت سال پہلے ایک بزرگ کا انٹرویو کیا۔ آزادی کے وقت وہ اپنے ماں باپ سے بچھڑ گیا۔ ایک بے اولاد سکھ خاندان نے اسے چار سال بیٹا بنا کر رکھا۔ پھر 1952ء میں پولیس نے اسے پاکستان بھیج دیا۔ یہاں وہ یتیم خانے میں پلا‘ کسی خدا ترس نے شادی کرا دی۔ چالیس سال بعد وہ ڈھونڈتا ڈھونڈتا فیصل آباد کے ایک گائوں میں اپنی بہن تک جا پہنچا۔ باپ فوت ہو چکا تھا مگر ماں حیات تھی۔ عام لوگوں نے پاکستان کی محبت میں دکھ سہے۔ انہوں نے اپنے رہنمائوں کی بات پر یقین کیا کہ پاکستان میں ان کی عزت‘ جان اور مال محفوظ ہوں گے۔ پچھلے ایک سال میں 300سے زائد بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔ یہ سب غریب گھروں کی بیٹیاں تھیں۔ گزشتہ ایک سال میں سینکڑوں ایسے مجرم باعزت بری ہوئے جن کا تعلق بالائی طبقات سے ہے۔ یہ جو لوگ ہمارے نمائندے بننے کے لیے کروڑوں روپیہ خرچ کرتے ہیں‘ پولیس‘ انتخابی عملہ اور بدمعاشوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ انتخابی دفتر بنا کر لوگوں کو ایک ماہ تک روٹی کھلاتے ہیں کیا یہ لوگ ہم جیسے ہیں ’کیا یہ سورج کی تمازت میں برہنہ پا چلنے والوں کی تکلیف سے واقف ہیں کیا انہیں معلوم ہے کہ لاکھوں پاکستانی پورا مہینہ اتنا کھانا نہیں کھاتے جتنا ہمارے دولت مند نمائندے ایک روز ضائع کر دیتے ہیں۔ عمران خان کہا کرتے ہیں کہ امیر کا پاکستان الگ اور غریب کا الگ ہے۔ پہلے ہم بھی ایسا ہی سمجھتے تھے لیکن اب لگتا ہے پاکستان صرف امیروں کا ہے۔ غالباً 2007-8ء کی بات ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کے کچھ لوگوں نے عمران خان سے بدسلوکی کی۔ میں نے اس واقعہ کی مذمت میں کالم لکھا۔ مرحوم عباس اطہر اور نذیر ناجی سمیت کئی لوگوں نے اس واقعہ پر جمعیت اور جماعت اسلامی کو شرمسار کیا۔ عمران خان نے ہمیں اپنے گھر مدعو کیا۔شکریہ ادا کیا۔ ان دنوں تحریک انصاف نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا۔ میں نے عمران خان سے کہا کہ آپ نے کئی برس تک لوگوں کو یقین دلایا کہ ایک غیر منصفانہ نظام ان کا استحصال کر رہا ہے۔ لوگ آپ کی بات پر جب اعتبار کرنے لگے تو آپ نے کاغذات نامزدگی پھاڑ ڈالے۔ سینئر کالم نگاروں نے میری اس بات کی تائید کی۔2011ء میں جب اقبال پارک کے وسیع و عریض میدان میں لاہور کے نوجوان طلباء و طالبات اور گھریلو خواتین نے لاکھوں کی تعداد میں شرکت کی تو یہ کسی الیکٹ ایبل کا کمال نہ تھا۔ الیکٹ ایبلز اس وقت ن لیگ سے ہتھیائی مراعات پر عیش کر رہے تھے۔ آج جب لوگوں کی امید تحریک انصاف سے بندھی تو عمران پھر وہی بات کہہ رہے ہیں کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں ان لوگوں کو اہمیت دی گئی جو جیت کی سائنس سے واقف ہیں۔ خان صاحب آپ کو معلوم ہے بھٹو صاحب کے بارے مشہور تھا کہ وہ کسی کھمبے کو بھی کھڑا کر دیں تو وہ جیت جائے۔ کئی ایسے کھمبے جیتے بھی۔ بھٹو نے غریب لوگوں کو اسمبلی میں رکھا۔ آپ نے تو ان چہروں کو بھی ٹکٹ نہ دیے جو تحریک انصاف کی شناخت ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ہارنے کا خوف دلا کر کچھ لوگ آپ کو اسی طرح گرانا چاہتے ہیں جیسا کہ 2013ء میں آپ لفٹر سے گرے۔ عوام کو تھپڑ مارنے والے اپنی سابقہ کارکردگی کا جواب نہیں دے رہے۔ ڈیرہ غازی خان کا وہ نوجوان پولیس گردی کا شکار ہو رہا ہے جس نے ایک عادی سیاستدان سے اپنی محرومیوں کا گلہ کیا تھا۔ وقت آ پہنچا ہے کہ جمہوریت کو جاگیرداروں‘ ساہو کاروں‘ کارخانہ داروںاور جرائم پیشہ اپر کلاس سے بازیاب کرایا جائے۔ طے کر لیجیے یہی وقت ہے کہ آپ نے ظلم سہنا ہے یا ملک میں سب کی خوشحالی کی ضامن جمہوریت لانی ہے۔