کیا ہم اس دنیا میں اکیلے ہیں جہاں رائے کی قیمت لگتی ہے اور ضمیر خریدے جاتے ہیں۔نہیں ! ہم اس مہذب دنیا کا حصہ ہیں جہاں جمہوری نظام کے اسٹاک ایکسچینجوںمیں شروع دن سے گرم بازاری رہی ہے۔ بھلے زمانوں میںجب انگلستان کے دار الامراء (House of Lords) کا کوئی رکن جب اپنی جائیداد فروخت کرنے کے لئے اخبار میں اشتہار دیتا توساتھ یہ بھی تحریر کیا کرتا تھا کہ "یہ صرف جائیداد ہی نہیں دار الامراء کی رکنیت بھی اسکے ہمراہ ہے"۔ فرق اتنا آیا ہے کہ بقول عدیم ہاشمی "لوگ بکتے تھے مگر اتنی بھی ارزانی نہ تھی" جس دن جدید تہذیب کی مقتدر قوتوں نے یہ طے کرلیا کہ اب اس دنیا پر صرف اور صرف سرمائے نے ہی راج کرنا ہے تو پھر تمام نظریات کو دفن کرکے ان پر خوبصورت کتبے سجا دیے گئے اورجسمانی طاقت و قوت کے ساتھ ٹیکنالوجی کو بھی دولت کا غلام بنا لیا گیا۔ اسی دن سے کرہ ارضی پر بسنے والے انسانوں کیلئے جمہوریت کے چمکدار اور دیدہ زیب کٹھ پتلی تماشے کا آغاز ہوا۔ یہ سب کا سب ایک ترتیب سے برپا کیا گیا۔ آغاز میں ،کون جانتا تھا کہ 1694ء میں بینک آف انگلینڈ کا چارٹر اور کاغذی کرنسی جاری کرنے کا اختیار لینے کے ساتھ ساتھ سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن قائم کرنے والے اپنے دماغوں میں ایک ایسے نظام کا خاکہ بھی رکھتے ہیں جو ایک دن پوری دنیا پر غیر محسوس طریقے سے حکومت کرے گا۔لوگ یہ سمجھیں گے کہ ہمارے حکمران اور پالیسی ساز عوام کی رائے سے منتخب ہوئے ہیں، لیکن دراصل ان سب کی طنابیں ان چند سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہوں گی جنہوں نے ان پارٹیوں کو مسلسل سرمایہ فراہم کیے رکھا۔ پارٹی فنڈنگ جمہوریت کا "مقدس ترین تصور مالیات" ہے ، جس میں بظاہر ضمیر یا رائے کی کوئی خریدوفروخت نظر نہیں آتی۔ لیکن پارٹی کو فنڈ دینے والا اس پارٹی کے سربراہ کے توسط سے اپنے مفادات کے تحفظ کی ضمانت لیتا ہے، اپنی مرضی کی پالیسیاں نافذ کرواتا ہے، اپنے فائدے کے لیے قوانین بنواتا ہے، یہاں تک کہ اپنے مال کی کھپت کے لیے جنگوں میں کودنے کے فیصلے کرواتا ہے۔ اس نظام کا سب سے بڑا دھوکا یہ ہوتا ہے کہ لوگ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہماری رائے سے منتخب ہونے والے اراکین پارلیمنٹ و کانگریس کر رہے ہیں، اور وہ یہ سب ہماری مرضی کے مطابق اور ہمارے مفاد کیلئے کر رہے ہیں۔ انکی اسی سادہ لوحی کو جمہوری نظام کے تسلسل اور تحفظ کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ بہت ہی کم لوگ اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ ان جمہوری حکومتوں اور پارلیمنٹوں کے پیچھے لاتعداد خونخوار بھیڑئے ڈوریاں ہلا رہے ہوتے ہیں۔ یہ افراد کسی بھی حکومت سے مالی فائدے کیلئے دنیا کے معدنی وسائل سے مالا مال ملکوں پرحملے کرواکر لاکھوں انسانوں کی لاشوں کے انبار کھڑے کر سکتے ہیں اور کرتے چلے آ رہے ہیں۔ لیکن اصل حقیقت کا علم اوران پس پردہ طاقتوں کا ادراک صرف چند لوگوں تک ہی محدود رہتا ہے۔ جبکہ اس جمہوری نظام کی ظاہری شکل کو خوبصورت دکھانے اور اسکے تحفظ کیلئے میڈیا ایک بہت بڑے جن کی صورت تخلیق کیا گیا، جسکی چمکدار دیوار پر روشنی ہے،چکاچوند ہے۔اس میڈیا پر دکھایا جانیوالا جمہوریت کا روشن چہرہ اسقدر بڑا اور چندھیا دینے والا ہے کہ اسکے پیچھے کچھ نظر نہیں آتا۔ شاید ہلاکو، چنگیز اور سکندر نے بھی اتنے قتل نہ کیے ہوں، تاریخ میں دو مذاہب کی لڑائی میں بھی اتنے لوگ نہ مارے گئے ہوں جسقدر خونریزی اور قتل و غارت اس دنیا میں جمہوری حکمرانوں کے دور میں برپا ہوئی۔ بیسویں صدی کے آغاز میں یہ جمہوری نظام اپنی پوری آب و تاب سے مستحکم ہوگیاتھا۔ اسکے بعد اس دنیا میں پہلی اور دوسری عظیم جنگیں ہوئیں جن میں اندازاً پندرہ کروڑ کے قریب انسان لقمہ اجل بنا دیے گئے۔ اسکے بعد سے اب تک دنیا کا ہر خطہ جنگ کی آگ میں یا تو سلگ رہا ہے یا پھر ان جنگوں کے لیے ہتھیار بنا بنا کر بیچ رہا ہے۔ ہتھیار بنا کر بیچنے والے اور دیگر سرمایہ دار وہ ہیں جنکے ہاتھ میں دنیا کی ہر جمہوریت کے تالے کی چابی ہے اور اس چابی کا نام " پارٹی فنڈنگ" ہے۔ کسقدر حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ صدیوں پہلے انسان اس لیے جنگیں کرتا تھا کہ اسکی سلطنت میں وسعت ہو، انکی بادشاہت دور تک پھیل جائے۔ لیکن جمہوری نظام کے بعد جنگ اس لیے کی جاتی ہے کہ علاقہ فتح کر کے اسے واپس اسکے عوام کو ان شرائط پر واپس کر دیا جائے کہ تم اپنے ملک میں جمہوریت کے نظام کو قائم رکھو گے اور ہم فاتحین کے کاروباری مفادات یعنی تیل، گیس، معدنیات، فصلیں اور سستی مزدوری کے راستے میں کبھی رکاوٹ نہیں بنو گے۔ورنہ یاد رکھو ہماری پارلیمنٹ تو ہمارے قبضے میں ہے۔ تمہاری اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ یہ نظام جسکی بنیاد 1694 میں مصنوعی کاغذی کرنسی کی دولت سے رکھی گئی تھی، 259 سال بعد 1945 میں دوسری جنگ عظیم کے بعد مکمل ہوا اور بریٹن ووڈز معاہدے کے بعد پہلے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک قائم ہوئے اور پھر انکی سیاسی سرپرستی کے لئے اقوام متحدہ معرضِ وجود میں آئی۔ انکے قیام کے ساتھ ہی یہ فیصلہ بھی ہوگیا کہ اب برطانیہ ہو یا فرانس، ہالینڈ ہو یا پرتگال سب اپنے زیر تسلط علاقوں کو آزاد کردیں گے کیونکہ اب انکو غلام بنانے کے لیے برطانوی یا فرانسیسی افواج کی ضرورت نہیں۔ ان میں پہلا یہ کہ ہر ملک کا ایک سینٹرل بینک ہوگا جو مصنوعی کاغذی کرنسی جاری کرے گا، دوسرا یہ کہ ہر ملک کا ایک آئین ہوگا جو عمومی طور پر بڑے ملکوں کا چربہ ہوگا اور یہ آئین جمہوریت کے تسلسل اور تحفظ کی ضمانت ہوگا اور تیسرا یہ کہ ہر ملک کا ایک قومی قرضہ ہوگا۔ ان تینوں تصورات پر عملدرآمد کیلئے ہر ملک میں سیاسی پارٹیوں کا وجود تخلیق کیا گیا ، اور پھر ان سیاسی پارٹیوں کو مقدس رتبہ اور مقام دیا گیا۔ نظریے کی موت ہوچکی تھی۔مذہب رخصت ہو گیا تھا اور کیمونیزم کی دنیا ہی الگ تھی۔ ہر پارٹی نے مرنجامرنج قسم کے جمہوری نظریے تخلیق کیے، لبرل، سوشل ڈیموکریٹ، کنزرویٹیو سب ایک ہی مخروطی منشور سے نکلے ہوئے تھے۔ دنیا کی کئی سو جمہوری سیاسی جماعتوں کے منشور اٹھا لیں، آپکو ان میں کوئی اہم فرق نظر نہیں آئے گا۔ یہ سب اس لیے کہ جمہوری نظام سے بغاوت کی بو نہ پیدا ہوپائے۔ پارٹی سسٹم کو اہمیت دی گئی۔ جو اسکو چھوڑ کر دوسری سمت جائے گا وہ مردود، لوٹا اور راندہ درگاہ۔ حیرت کی بات ہے کہ فلورکراسنگ یعنی پارٹی سے بے وفائی کے قوانین صرف چالیس ممالک کے آئینوں میں موجود ہیں اور یہ تمام چالیس کے چالیس غریب اور پسماندہ ملک ہیں۔ وجہ یہ کہ کبھی کوئی بھی، ہماری مرضی سے ادھر ادھر نہ جائے۔ اسکے برعکس "مہذب " دنیا کا عالم یہ ہے برطانوی وزیراعظم چرچل جیسا "عظیم" لیڈر اگر جیت کے امکانات دیکھ کر یکم جون 1904ء کو فلورکراسنگ کرکے کنزرویٹیو پارٹی سے لبرل میں چلا جائے اور 26 ستمبر 1926 کو مقبولیت دیکھ کرواپس کنزرویٹیو میں آجائے تو وہ لوٹا نہیں کہلاتا۔ امریکی صدر روزویلٹ 1912 میں پارٹی بدلے اور اس سے ہارنے والا وینڈل والکی روز ویلٹ کی پارٹی میں شامل ہو جائے، 1694 کی رپبلیکن پارٹی کی ،"گولڈ واٹر" لڑکی ہیلری کلنٹن فلور کراسنگ کے بعد ڈیموکریٹ پارٹی میں چلی جائے اور کہے کہ " میرا دل لبرل ہے اور ذہن کنزرویٹیو"، افغان جنگ کا ہیرو امریکی صدر رونالڈ ریگن ڈیموکریٹ پارٹی کا ترجمان رہے اور پھر ریپبلکن پارٹی کے تحت امریکی صدر منتخب ہو جائے تو کسی کو کوئی حیرت نہیں ہوتی۔ "لوٹے" کہلانے کی لعنت صرف غریب ملکوں کے لئے ہے۔دنیا بھر کے ممالک میں فلور کراسنگ اور پارٹی کے خلاف ووٹ دینے والوں کی فہرست اس قدر طویل ہے کہ برطانیہ کی پارلیمنٹ کے ایک ہزار ایک سو ساٹھ ممبران پارلیمنٹ اس میں شامل ہیں۔ صرف 2019 ء میں 28 ارکانِ پارلیمنٹ نے ایک نیا گروپ بنا کر پارٹی سے علیحدہ رائے اختیار کی۔ یہ ضمیر بیچنے کی علامات، لوٹا کریسی ،بے شرمی کے طعنے سب ہمارے جیسے پسماندہ ممالک کا مقدر ہیں۔ اس لیے کہ یہاں بھانت بھانت کے لوگوں سے معاملہ کرنا مشکل ہے۔ ایک لیڈر کو پارٹی فنڈنگ کے "مقدس سرمائے" سے خریداجاتا اور بے فکر ہو کر جو چاہے کرایا جاتا ہے۔ جس جمہوری نظام میں سینٹ اور قومی اسمبلی کی ٹکٹ لینے کے لیے کروڑوں روپے فی کس پارٹی فنڈنگ کے نام پر قائدین کو رشوت دی جاتی ہو، وہاں ووٹ بیچنے کا ماتم اچھا نہیں لگتا۔