31مئی کی رات بارہ بجے ن لیگ کی حکومت اپنی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد رخصت ہو چکی ہے اب اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں چند ہفتوں کے لیے نگران حکومت بھی تشکیل پا چکی ہے تاریخ میں پہلی بار جمہوری عمل کو دس سال کا تسلسل حاصل ہوا ہے اس تمام عرصے کے دوران دو مرتبہ قومی انتخابات ہوئے۔ ستر سالوں میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ کم از کم دس سال تک ملک میں جمہوریت ہی رہی اس دوران بار بار ایسے مواقع آئے کہ بڑی آسانی سے ملک میں افواج پاکستان دوبارہ اپنا کنٹرول حاصل کر سکتی تھی۔ حالات خاصے پیچیدہ رہے سیاسی اور معاشی طور پر صورت حال خاصی گھمبیر چلی آ رہی ہے پھر بھی ہم تیسری مرتبہ قومی انتخابات کی جانب جا رہے ہیں اس عمل کے دوران احتساب کا عمل بھی جاری ہے جمہوری تسلسل کے اس عرصے کے دوران احتسابی عمل برابر جاری رہنا چاہیے اور جن لوگوں نے ماضی میںپاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حکومتوں کے دوران کرپشن کی ہے ان لوگوں کو 2018ء کے انتخابات میں کسی طور پر بھی حصہ لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے عوامی نمائندوں کے روپ میں قومی لوٹ مار کا بازار گرم رکھا ہے کسی نے زیادہ تو کسی نے کم کرپشن ضرور کی ہے یہ حقیقت سب جانتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ اب اس کرپشن کے ثبوت لانا بھی ایک مشکل مرحلہ ہے کیونکہ بیورو کریسی میں آج بھی وہی افسران برابر موجود ہیں جو کہ گزشتہ حکومتوں کے ادوار میں آئوٹ آف ٹرن ترقیاں حاصل کر کے اہم عہدوں پر تعینات ہوئے تھے۔ وہی لوگ چہرے بدل کر دوبارہ اقتدار کے ایوانوں میں ہونگے اور دوبارہ لوٹ مار کا بازار گرم ہو جائے گا 25جولائی کو ہونے والے انتخابات 21کروڑ لوگوں کی قسمت کا فیصلہ کر دیں گے قومی اتفاق رائے اب ہو چکا ہے کہ ہر حالت میں جمہوریت رہنی بھی چاہیے اور ساتھ ہی کرپشن کا خاتمہ بھی ہونا چاہیے اب ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ اب آئندہ عوامی نمائندے ہرگز غنڈے ‘ ڈاکو اور سمگلر نہ ہوں یہ واقعی عوام دوست عوامی نمائندے ہی ہوں انتخابی اخراجات جو کہ اب 20کروڑ سے تجاوز کرتے جا رہے ہیں ان اخراجات کو بھی کم کرنا ہو گا اس ضمن میں الیکشن کمشن آف پاکستان کو فوری طور پر ہنگامی اقدامات کر کے ضروری کارروائی کرنی چاہیے۔ ہر عوامی نمائندے کا پورا پورا ماضی عام ہونا چاہیے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدوار خود اپنا ماضی اور اپنے اثاثے ظاہر کریں۔ محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی کم از کم ساٹھ فیصد قومی معیشت کا حصہ کالا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس تمام آمدن پر کوئی ٹیکس ادا ہی نہیں کیا جاتا اس کے علاوہ قریباً 30لاکھ کے قریب ایسے لوگ بھی ہیں جو کہ بڑے بڑے محل نما گھروں کے مالک ہیں جن کی قیمت تین کروڑ سے لے کر چالیس اور پچاس کروڑ تک ہوتی ہے ان گھروں میں رہنے والے اپنی گرمیاں برطانیہ اور امریکہ میں گزارتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے اثاثے اور جائیدادیں بھی بیرون ملک ہیں یہ لوگ بھی بار بار قومی انتخابات میں حصہ لیتے ہیں اور پھر عوامی نمائندے کی حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر جائز ناجائز حربہ استعمال کر کے اپنی دولت میں اضافہ کرتے ہیں جو کہ کرپشن ہے اس سارے عمل کو اب مکمل طور پر ختم کیا جانا چاہیے۔ سابقہ پارلیمنٹ کے ممبران کی اکثریت ایسے عوامی نمائندوں پر مشتمل تھی جو کہ پارلیمنٹ میں آتے ہی اس لیے تھے کہ ایک ذاتی کاروبار پروان چڑھتا رہے اور ان کی دولت میں بھی اضافہ ہو۔ ہمیں ماضی کی یہ حقیقت بھی تسلیم کر لینی چاہیے کہ دس سالوں میں ہمیں جو جمہوریت میسر رہی ہے یہ بالکل بھی کسی طور پر پرفیکٹ نہ تھی ہمیں ماضی سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا چاہیے اب ہونا یہ چاہیے کہ تمام سیاسی جماعتیں 2018ء کے ان انتخابات کو موثر منشور کی بنیاد پر لڑیں اور ان کے اس منشور میں سرفہرست جو ایجنڈا ہو اس میں کرپشن کا خاتمہ اور پورے ملک میں تعلیم کو عام کرنا اور حصول تعلیم کو آسان بنانا ان کی ترجیحات میں شامل ہو۔ یہ انتہائی خوش آئند امر ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے بدنام زمانہ آرڈی ننس NROکے حوالے سے 2008ء کے قومی انتخابات سے قبل 8ہزار سے زائد جن مقدمات کو ختم کر دیا گیا تھا اب دوبارہ ان تمام افراد کو نوٹسز جاری کر دیے گئے ہیں سابق صدر (ر) جنرل پرویز مشرف نے اپنی سیاسی بقا یقینی بنانے کے لیے پیپلز پارٹی کے ساتھ سودے بازی کر کے این آر او جاری کیا تھا جس کے نتیجے میں ایک ہزار ارب روپے سے زائد کے مالی جرائم کے مقدمات داخل دفتر کر دیے گئے تھے۔ جن کو بعد میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے مکمل طور پر ختم کر دیا تھا اب جن 248افراد کی ایک لسٹ سپریم کورٹ میں پیش کی گئی ہے جو کہ اپنی آمدن سے زائد مال و دولت رکھنے میں ملوث ہیں ان میں سابق صدر آصف علی زرداری بھی شامل ہیں جن پر مختلف کک بیکس کی مد میں ڈیڑھ ارب ڈالرز اور 22ارب روپے وصول کرنے کا الزام ہے لیکن بعد میں احتساب عدالتوں نے ان کے خلاف تمام الزامات مسترد کر دیے تھے۔ اسی طرح بے شمار ایسے وڈیرے ‘ جاگیردار اور کاروباری افراد ہیں جو کہ ماضی میں بھاری قرضے معاف کروا کر انتخابات لڑتے چلے آ رہے ہیں یہ افراد ملک کی تمام کی تمام سیاسی جماعتوں میں کسی نہ کسی حوالے سے ضرور موجود ہیں اور اس بار دوبارہ پھر انتخابی عمل کا حصہ بننے جا رہے ہیں کم از کم اس طرح کے افراد کو انتخابی عمل سے دور رکھنے اور ان پر پابندی عائد کرنے کی غرض سے الیکشن کمشن آف پاکستان کو فوری نوٹس لینا چاہیے دوہری شہریت کی حامل شخصیات انتخابی فارم بھر کر عوامی نمائندے کی حیثیت سے انتخاب لڑنے کی تیاریوں میں ہیں۔ جب تک ماضی کی ان تمام غلطیوں کا ازالہ نہیں کیا جائے گا قومی انتخابات کا انعقاد محض رسمی کارروائی ہی ہو گی کیونکہ یہ ہی افراد دوبارہ پارلیمنٹ کا حصہ بن کر ایک بار پھر قومی خزانے پر بوجھ بنیں گے اور غیر ملکی قرضے مزید بڑھ جائیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نگران حکومت کی ذمہ داری صرف اور صرف قومی انتخابات کا انعقاد کروانا ہی ہے لیکن اس کے باوجود اب دیگر قومی اداروں کو اپنا قومی فریضہ ادا کرتے ہوئے کم از کم اتنا تو کرنا چاہیے کہ اس بار قومی انتخابات سے قبل ماضی کی دونوں حکومتوں کے ادوار میں کرپشن اور بدعنوانیوں کے جن قصوں نے جنم لیا ان کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کروائی جائے جن اعلیٰ شخصیات نے اپنے اختیارات سے تجاوزات کرتے ہوئے اختیارات کا غلط استعمال کیا ان کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ عدالت عظمیٰ نے وزیر اعظم کو ناہل قرار دیا مگر پھر بھی ن لیگ کی حکومت میں سکہ نواز شریف ہی کا چلتا رہا۔ حکومت چلانے کے لیے احکامات میاں نواز شریف ہی جاری کرتے تھے یہ اندھیر نگری نہیں تو اور کیا ہے۔ قوانین پاکستان کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور آئین پاکستان سے انحراف کی کھلی مثال ہے عدلیہ کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا گیا افواج پاکستان کو خلائی مخلوق کا نام دے کر تمسخر اڑایا گیا مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ اس پورے عمل میں افواج پاکستان اور عدلیہ نے اپنا قومی فریضہ بھر پور انداز میں ادا کرتے ہوئے آئین پاکستان کو مقدم جانا اور ملک میں جمہوری تسلسل کو جاری رکھا بے شک ابھی ہماری منزل دور ہے لیکن پھر بھی ستر سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ہم اپنی منزل کے قریب ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اب عوام کی ذمہ داری ہے کہ 2018ء کے قومی انتخابات میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں اور اپنے ووٹ کا استعمال کر کے عوام دوست عوامی نمائندوں کا چنائو کریں جن کا ماضی اور حال ہر قسم کی بدعنوانیوں سے پاک ہو اور جن کی جائیدادیں اور اثاثے بیرون ملک نہ ہوں ان کا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہو اور پھر ان کی شہریت بھی صرف اور صرف پاکستان کی ہو۔ پاکستان میں آئین پاکستان اور قانون کے محافظوں سے مودبانہ گزارش ہے کہ خدارا کم از کم عام آدمی کی اذیت ناک زندگی میں خوشحالی لانے کے لیے اب تو اپنا عملی کردار ادا کریں وہ اس طرح کہ جمہوری تسلسل بھی جاری رہے اور احتسابی عمل بھی ہر قیمت پر جاری رہے۔ کرپٹ کو کرپٹ ہی کہا جائے‘ جھوٹے کو جھوٹا ہی کہا جائے‘ جس نے قومی خزانے کو لوٹا ہے اسے لٹیرا ہی کہا جائے‘ لوٹ مار اور کرپشن کے ثبوت نہ پہلے کبھی ملے ہیں اور نہ اب ملیں گے‘ جس کسی نے بھی لوٹ مار کی ہے سب کو معلوم ہے پھر دیر کس بات کی۔ احتساب بھی ہو اور قومی انتخابات بھی ایک ساتھ یہ ہی تو ہے وہ جمہوری تسلسل جو قوم کی ضرورت بن چکا ہے۔