یہ خبر پڑھ کے ’’نواز شریف‘‘ شہباز شریف اور آصف زرداری کی سکیورٹی پر قومی خزانے سے سولہ ارب روپے خرچ ہوئے۔ یقین آ گیا کہ ملک میں کہنے کو جمہوریت مگر حقیقتاً بادشاہت کا نظام رائج ہے بادشاہت میںظل الٰہی ہی سب کچھ ہوتے ہیں۔ ملک ان کا، خزانہ ان کا، مفادات ان کے، عزت آ برو ان کی‘ اقتدار اور اقتدار اعلیٰ ان کا۔ باقی رہے عوام تو ملک خدا تنگ نیست۔ پارکیں‘ فٹ پاتھ اوور ہیڈ برج اور مسجدوں کے دالان زندہ باد کسی رات شہر کے گشت پر نکل جائیے ان مقامات پر خلق خدا اپنے بازوں کو سرہانہ بنائے خواب خرگوش کے مزے لیتی ملے گی۔ ان کے کھانے کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں تو کچن اور کک کی دستیابی کا کیا سوال؟ جمہوریت اور بادشاہت میں فرق ہی کیا ہے؟ جمہوریت عوام مرکز اور بادشاہت شخصیت مرکز نظام حکومت کا نام ہے۔ جب جمہوریت شخصیت مرکز طریقہ حکومت بن جائے تو یہ بھی بادشاہت ہی کی ایک قسم ہوتی ہے بادشاہت میں بادشاہ کی آمد کا اعلان ’’باادب ‘ باملاحظہ ہوشیار‘ نگاہ روبرو بادشاہ سلامت تشریف لاتے ہیں سے کیا جاتا تھا تو اب جمہوری بادشاہ محل سے باہر نکل کرسڑکوں کو رونق بخشیں تو ٹریفک روک دی جاتی ہے۔ پولیس کے محافظ دستے دو رویہ سڑک کے اطراف تعینات کر دیے جاتے ہیں۔ پچاسوں گاڑیوں کے جلوس کے رو میں جمہوری بادشاہ سلامت اپنی چمکتی دمکتی‘ مرعوب کن گاڑی میں ایسے جلوہ افروز ہوتے ہیں کہ کیا مغل بادشاہ اپنے ہاتھی پر جلوہ افروز ہوتے ہوں گے۔ یہ سارے لچھن جمہوری بادشاہت کے یہی بتاتے ہیں کہ جمہوریت وغیرہ محض جمہوری تماشا ہے ورنہ فی الواقع نظام بادشاہت ہی رائج ہے۔ یقین نہ آئے تو یورپ کے چھوٹے چھوٹے ملکوں کی جمہوریت سے اپنے ملک کی جمہوریت سے موازنہ کر لیجیے۔ فرق معلوم ہو جائے گا کہ وہاں کا جمہوری نظام اپنے ظاہرو باطن میں واقعتاً جمہوری ہوتا ہے۔ وہاں کے صاحبان اقتدار اپنے ملکی قوانین کے تابع ہوتے ہیں۔ زندگی کے رہن سہن میں سادگی نظر آتی ہے۔ اپنی گاڑی خود ڈرائیور کرنا اور سڑک پہ آ جائیں تو ہٹو بچوکا شور شرابا نہ مچنا۔ اپنی چائے اور کافی دفتر میں خود بنانا۔ اپنے کام اپنے ہاتھوں سے خود کرنا۔ دوسرے لفظوں میں ایک عام آدمی نظر آنا اور حقوق و مراعات میں بھی ایک عام آدمی سے بلند اور مختلف و منفرد نظر نہ آنا۔ حقیقی جمہوریت کی روح یہی ہے جس کا فقدان ہمارے جیسے ملکوں میں ہے جہاں کے حکمران ’’عوام عوام‘‘ کی رٹ لگاتے اور اپنے طور اطوار میں آقائوں کا برتائو کرتے نظر آتے ہیں۔یہ بونے‘ پستہ قامت حکمران درحقیقت اقتدار میں آ کر اپنی محرومیوں اور ناآسودہ تمنائوں کا انتقام اپنے اہل وطن سے لیتے ہیں۔ سرکاری اور قومی خزانے کا اپنی ذات اور خاندان پر استعمال ایسی فراخ دلی سے کرتے ہیں جیسے یہ خزانے ابا حضور ترکے اور میراث میں ان کے لئے چھوڑ گئے تھے۔ برسہا برس سے یہی چلن حکمرانوں کا رائج ہے اور عوام بھی ایسے عادی ہو گئے ہیں کہ ان شاہ خرچیوں پر انگلی نہیں اٹھاتے کہ اسے حکمرانوں کا حق جانتے اور اخلاقی طور پر اس طرز عمل کو روا سمجھتے ہیں ایسے ملکوں میں جہاں حکمراں عوام کے سامنے خود کو جوابدہ سمجھتے ہی نہ ہوں۔ ان کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون کا درجہ نہ بھی رکھتا ہو لیکن خوشامدی مصاحبین اسے ایسا ہی مقدس اور قول فیل گردانتے ہوں‘ وہاں کیسی اور کہاں کی جمہوریت؟ ظاہری ڈھانچہ جمہوریت کا اور اندرونی سارا نظام‘ سارا کروفر‘ معاملات کرنے کے سارے انداز اورطور طریقے وہی بادشاہت کے۔ جنوبی ایشیا کی یہ جمہوریت قرونی وسطیٰ کی بادشاہت سے کس طرح اور کیسے مختلف ہے۔ کوئی سمجھائے تو سہی۔ مثلاً جمہوری طرز حکومت قانون کی حکمرانی کا نام ہے۔ یہ اصول کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ کیا ہماری جمہوریت میں ایسا ہی ہے۔ ہاں ہمارے ہاں بھی قانون کے نزدیک سب برابر ہیں۔ مگر کچھ لوگ کچھ زیادہ ہی برابر ہیں۔ جمہوریت میں حکومت عوامی نمائندوں کی مشاورت سے کی جاتی ہے کیا مشاورت واقعی ہوتی ہے؟ یا جمہوری بادشاہ جو طے کر دیں۔ جو پالیسی وضع کر دیں۔ کابینہ سے لے کر ان کی پارلیمانی پارٹی اسی کی تائید و حمایت میں ہر فورم پر کمر بستہ رہتی ہے۔ جمہوریت میں اتنی گنجائش بہرحال ہوتی ہے کہ وزیر اعظم چاہے تو آمرانہ طور طریقے اختیار کر لے۔ دستور اس کے آمرانہ اختیارات پہ قدغن لگاتا ہو تو دستور میں ترمیمیں کر دی جائیں(ہمارے ہاں بھٹو صاحب نے دستور بنایا اور نافذ بھی کیا لیکن تھوڑے ہی عرصے میں چھ سات ترامیم کر کے دستور کا حلیہ ہی بگاڑ دیا)جمہوریت اصل میں ایک مخصوص اسلوب فکر اور اسلوب زندگی کا تقاضا کرتا ہے اگر آپ اپنے رویوں اور سوچنے اور برتنے کے معاملات میں جمہوری نہیں ہیں تو جمہوریت کی لاکھ کلغی ماتھے پہ سجا لیں آپ جمہوری نہیں کہلا سکتے۔ پچھلی جمہوری حکومتوں سے اگر قوم و ملک کا بھلا نہ ہو سکا تو وجہ وہی رہی کہ جمہوری ڈھانچے میں امداد کار اور انداز فکر بادشاہت کا رہا۔ آج بھی جو حکومت تبدیلی کے نعرے کے ساتھ آئی ہے اس کی قوت برداشت اور رویے محل نظر ہیں۔ اپنے مخالف کو مخالفانہ یا اختلاف فکر رکھنے کا حق دینا‘ روح جمہوریت ہے۔اختلاف فکر کو طاقت‘ جبر اور دھونس سے دبانے کی کوشش کی موجودگی میں جمہوری نظام کہاں جمہوریت کہلا سکتا ہے۔ اگر جمہوریت بدترین ہو کر بھی بہترین آمرانہ حکومت سے بہتر ہوتی ہے تو اس لئے کہ وہ مخالف یا ناقد کے وجود کو اختلاف فکر کی آزادی کے ساتھ قبول کرتی ہے۔ یہی جمہوریت کا سب سے بڑا وصف اور یہی اس کا حسن ہے۔ ہمارے سیاست داں اور حکمران جب تک جمہوریت کے محاسن کو اپنی فکر اور اپنے وجود کا حصہ نہیں بنائیں گے حقیقی جمہوریت کاخواب محض خواب ہی رہے گا اور حکمران اپنے ہر مفاد اور اپنے تحفظ کو جمہوریت کا لازمہ سمجھتا رہے گا اور جمہوریت کی اصل منزل کھوٹی ہی رہے گی۔