جدید دور کا سیکولر ازم دراصل ایک زمینی مذہب ہے،جو اپنے ماننے والوں سے اپنے تمام عقائد ونظریات کو مکمل طور پر اپنانے اور ان پر ایمان کی حد تک یقین رکھنے کا تقاضہ کرتا ہے۔ان عقائد و نظریات سے ایک طرزِ زندگی اور لائف سٹائل جنم لیتا ہے،جس کا سیاسی چہرہ مغربی جمہوریت ہے، معاشی چہرہ سودی معیشت ہے،اخلاقی چہرہ تمام جنسی اخلاقیات کا مذہب کی قید سے آزادی ہے اور معاشرتی چہرہ عورت کے حقوق کی وہ معراج ہے جس میں وہ اتنی خود مختا رہو جائے کہ اسے زندگی گزارنے کیلئے کسی مرد کی ضرورت تک محسوس نہ ہو،سیکولرازم کے اس مذہب کا رکھوالا اور بانکا پہریدار جمہوری نظام ہے۔یہی وجہ ہے کہ سیکولرازم اور لبرل ازم کے دلدادہ اور عشاق کبھی بھی بھارت اور اسرائیل کے جمہوری نظام کی برائی نہیں کرتے۔ ان سے سوال کیا جائے کہ ان دونوں ملکوں میں مسلمان اقلیت کے مسائل کا کوئی حل جمہوری نظام میں موجود ہے، تو ان سے کوئی جواب نہیں بنتا۔اسی طرح سیکولر الزم اور لبرل ازم کے یہی عشاق اور اس زمینی مذہب پیروکار کسی ایسے ملک کی ترقی و خوشحالی کا کبھی تذکرہ نہیں کرتے، جہاں جمہوری نظام موجود نہیں ہے مگر اس نے ایسی مثالی ترقی کی کہ دُنیا دنگ رہ گئی،جیسے سنگا پور اور چین۔کس قدر حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کے سب سے زیادہ قریبی اور دیرینہ تعلقات چین سے ہیں، لیکن ہم میں سے شاید ایک فیصد لوگ بھی ایسے نہیں ہیں جو چین میں رائج نظامِ حکومت و معیشت کو بخوبی جانتے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ جب عمران خان چین کے نظام کی بات کرتا ہے تو اس سیکولر لبرل طبقے کو سخت بُرا لگتا ہے اور وہ اس ڈر سے عمران خان کی ہنسی اُڑانے لگتے ہیں کہ کہیں لوگ چین کی کامیابیوں کو سمجھنے کیلئے اس کے نظام کا مطالعہ ہی نہ شروع کر دیں۔ سیکولر ازم ایک ایسا متشّدد زمینی مذہب ہے جو دُنیا میں صرف اپنے ہی نظام کا نفاذ چاہتا ہے،خواہ اس کیلئے عراق اور افغانستان پر حملہ کر کے لاکھوں لوگوں کو قتل کرنے کے بعد سیکولر جمہوریت نافذ کرنا پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سیکولر لبرل جمہوری گماشتوں کو عمران خان کے منہ سے ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کا لفظ بھی بُرا لگتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ جس طرح ضیاء الحق بے شک اسلام کے نفاذ میں مخلص نظر نہیں آتا تھا مگر اس نے جو چند ایک قانونی اصلاحات کیں وہی آج تک ان لوگوں کے حلق کا کانٹا بنی ہوئی ہیں۔ ریاست مدینہ کے تصور سے تو ان کی راتوں کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں۔ مغربی جمہوریت کیلئے اس وقت سب سے بڑا خوف چین اور چین کی پھیلتی پھولتی اور ترقی کرتی ہوئے معیشت کا ہے۔ چین کیا ہے، اس کی معیشت و معاشرت کیسی ہے اور اسکی ثقافت و تہذیب اور سیاسی نظامِ زندگی کیسا ہے۔ ایسے لا تعداد سوالات ہر اس شخص کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں جو یہ دیکھتا ہے کہ چین کی معیشت دُنیا کی سب سے مضبوط معیشت بن چکی ہے اور ساتھ ساتھ وہ اس بات پر بھی حیران ہوتا ہے کہ چین نے نہ کبھی کسی ملک پر قبضہ کیا اور نہ ہی اُس کے کوئی توسیع پسندانہ عزائم ہیں، لیکن پھر بھی پوری کی پوری سیکولر لبرل جمہوری دُنیا، چین کی ترقی کو محدود (Containment) کرنے کیلئے آج خوفناک جنگی محاذ آرائی پر اُتر آئی ہے۔ اسی لئے وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ چین کے نظام اور طرزِ زندگی میں ایسی کیا خاص بات ہے جس میں اس قدر ترقی ہوئی ہے کہ دُنیا کا ہر بڑا جمہوری ملک اس سے خوفزدہ ہے۔ اس سارے گورکھ دھندے کو سمجھنے اور مکمل ادراک حاصل کرنے کیلئے سنگا پور کی ترقی کے عظیم معمار لی کو آن یو (Lee Kuhn Yew) کی کتاب ’’دنیا ایک آدمی کی نظر سے‘‘ One "Man's view of the world" ایک جامع کتاب ہے۔ یوں تو اس میں دُنیا بھر کی سیاسی قیادتوں کا تذکرہ موجود ہے لیکن چین کی ترقی، اس کی ثقافت ، تہذیب اور تاریخ پر سب سے زیادہ روشنی ڈالی گئی ہے۔ پیشے کے لحاظ سے لی کوآن ایک قانون دان تھا جو صرف 26 سال کی عمر میں 1959ء کو سنگا پور کا وزیر اعظم بنا اور 32 سال تک وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہا۔ اس نے خود اپنے جانشین کا انتخاب کیا، ستمبر 1990ء میں مستعفی ہوا، لیکن پارٹی قیادت دو سال تک اپنے پاس رکھی تاکہ جانشین کی تربیت کرسکے۔ لی کوآن نے اپنے دورِ اقتدار میں سنگا پور کو معجزاتی طور پر ترقی کی معراج پر پہنچایا، لیکن لندن سکول آف اکنامکس کے پڑھے ہوئے اس عظیم رہنما نے جمہوریت کو اپنے ساحلوں سے بہت دُور رکھا اور یوں ترقی و خوشحالی کی منزل حاصل کر لی۔ لی کوآن وہ شخص ہے جس نے سب سے زیادہ چین کے دورے کئے اور جس نے چین میں بار بار اُبھرنے والی قیادتوں کو بے حد متاثر کیا۔ وہ پہلی دفعہ 1976ء میں ایک وفد لے کر چین گیا اور پھر 39 سال مسلسل چین جاتا آتا رہا۔ اس دوران وہ مائوزے تنگ، ڈین ژائوبنگ، ژنگ ژین ، ہوجن تائو اور ژی جن پنگ سے بار بار ملا اور چین کی معاشی سمت درست کرنے اور سیاسی نظام کے خدوخال طے کرنے میں اس کا بہت بڑا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 18 دسمبر 2018ء کو چین نے اس کیلئے ایک خصوصی ایوارڈ تخلیق کیا جس کا نام تھا ’’چینی اصلاحات دوستی میڈل ‘‘ (China Reform Frindship Medal) ۔ لی کوآن اپنی اس کتاب میں لکھتا ہے کہ چین باقی پوری دُنیا سے بالکل مختلف ہے، چینی گزشتہ پانچ ہزار سال سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک ملک اُسی وقت مضبوط ہو سکتا ہے جب اس کا مرکز مضبوط ہو۔ ایک کمزور مرکز کا مطلب بدنظمی اور انتشار ہے۔ یہ تصور ہر چینی کے دل پر نقش ہے اور وہ اپنی بقاء اسی میں سمجھتا ہے۔ مغرب کے بہت سے لوگ یہ خواب دیکھتے ہیں کہ چین مغربی طرز کی جمہوریت اختیار کر لے گا۔ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ چین کے ڈیڑھ ارب لوگوں کا اپنا ایک کلچر اور اپنی تاریخ ہے۔ یہ اپنی زندگی اپنے طریقے سے گزارنے کے عادی ہیں۔ وہ اپنی سرحدوں میں سکون سے رہنے کے قائل ہیں۔ غور کریں کہ اگر چین کے بحری جہاز اور فائٹر جیٹ امریکہ کے ساحل سے بارہ میل دُوری پر آ کر بیٹھ جائیں تو پورے امریکہ میں ایک طوفان کھڑا ہو جائے، جبکہ امریکی بحری بیڑے چین کے آس پاس بڑے آرام سے منڈلا رہے ہیں، لیکن چین تحمل اور بردباری سے خاموش ہے۔ جس زمانے میں چین کی ترقی کو ایک ’’ہُوّا‘‘ بنا کر پیش کیا جا رہا تھا تو لی کوآن یو نے کہا تھا :کہ چین کی مثال سے سیکھو، اس کے پڑوس میں بھارت تقریباً اسی رفتار سے ترقی کر رہا ہے لیکن چین اس کو اپنے لئے کسی قسم کا خطرہ تصور نہیں کرتا۔ ڈین ژیائو بنگ نے جب چین کو کیمونسٹ معاشی نظام سے نکال کر عالمی منڈیوں کی تجارت سے منسلک کیا تو اس میں بھی مشورہ لی کوآن کا شامل تھا۔ موجودہ چینی صدر ژی جب منظر سے غائب تھا تو اس دوران اس کی مسلسل مشاورت لی کوآن سے رہتی تھی، جس نے اس کو دو مشورے دیئے تھے، ایک مغرب کے جمہوری نظام کے بارے میں کبھی سوچنا بھی نہیں اور دوسرا کرپشن کے خلاف سخت ترین قوانین لائو، ورنہ ساری ترقی تباہ ہو جائے گی۔ دُنیا شاہد ہے کہ ژی نے برسر اقتدار آتے ہی چین کی کرپشن کیخلاف اپنی مہم کے پہلے دو برسوں میں ہی لاتعداد بڑے لوگوں کو پھانسیاں دی گئیں، عمر قید تو عام سی بات تھی اور دو لاکھ سے زیادہ افراد سرکاری نوکری سے فارغ کر دیئے گئے، لیکن ایسا سب کچھ کرنے کیلئے پارٹی کا ڈاکومنٹ 9 بہت اہم تھا جس کے تحت میڈیا پر کرپٹ سیاسی لیڈروں کے حمایتی تجزیہ کاروں پر پابندی لگائی گئی۔ یہ ہے چین کا وہ ماڈل جس کی کامیابی مغربی سیکولر لبرل جمہوری نظام کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کوئی مغرب زدہ دانشور چین کی اس کامیابی کی اصل وجہ کسی کو نہیں بتاتا۔ وجہ صرف ایک ہے۔ جمہوریت سے دُوری اور مضبوط مرکز۔