جب بھی کوئی پارٹی بلکہ شخصیت اقتدار سے باہر ہوتی ہے جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے اور سب ہارنے والے قائدین کے پیٹ میں جمہوریت کا مروڑ اٹھنے لگتا ہے جیسے کہ آجکل مولانا فضل الرحمٰن کو ہو رہا ہے کہ اصلی تے وڈی جمہوریت ملک سے نا پید ہو گئی ہے اور انہوں نے اسکی بحالی کا بیڑا اٹھایا ہے۔ انکا مشن تو بہت جلد مکمل ہونے والا ہے اور انکو اسی جمہوریت پر گزر بسر کرنا ہوگی اور چار سال بعد شاید انکو دوبارہ موقع ملے کہ جس قسم کی جمہوریت انکو درکار ہے وہ قائم کر سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ستر کی دہائی میں ون مین ون ووٹ کے وقت سے ہمارے ہاں یہی جمہوریت رائج ہے اور کسی دور میں بھی ہمارے اپنے تیار کردہ جمہوری اصولوں میں تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیںکی گئی بلکہ بے اصولی پر مبنی جمہوریت کے خود ساختہ اصولوں کو اس طرح پروان چڑھایا گیا کہ بہت سے سیاسی قائدین اور انکے بغل بچے اسی کو اصولی جمہوریت سمجھتے ہیں ۔ان کو آج تک اصلی اورہماری اصولی جمہوریت کافرق معلوم نہیں ہو پایا ۔جب یہ اصلی جمہوریت خطرے میں ہو تو ڈکٹیٹرکے حکومت میں آنے کا جواز بنتی ہے ۔ اگر سیاسی لیڈر کو اقتدار میں ہر حال میں رہنے کا جواز چاہئیے ہو توبھی جمہوریت کے نام پر ہی سب کچھ ہوتا ہے۔جس کے پاس زیادہ ووٹ ہیں وہی عہدے اور اقتدار کا حقدار ہے۔ اس نے جیسے بھی حاصل کئے ہوں یا اکٹھے کئے ہوں اس کا کوئی ذکر نہیں۔جو مال خرچ کر کے یہ ووٹ حاصل کئے جاتے ہیں اس کے بارے میں بھی سوال کرنا گویا انکی اصولی جمہوریت کو للکارنے کے مترادف ہے۔ وہ سب لوگ جن کو ہمارے ہاں رائج جمہوریت کا کئی دہائیوں کا تجربہ ہے وہ بھی واویلا مچا رہے ہیں۔ حالانکہ اس رائج جمہوریت کے چمتکار کی وجہ سے یہ لوگ اہم منصبوں پر پہنچے، ورنہ غالب کی آبرو کیا تھی۔ کوئی بھی انتخابات ہوں انکے بعدہارنے والے سیاستدان جس قسم کے بیانات دیتے ہیں اس پر تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس سادگی پہ کون مر نہ جائے سینیٹ کے انتخابات گزشتہ سال جب ہوئے تو اس پرمولانا فضل الرحمن نے فرمایا تھا کہ ، پس پردہ کھیل کھیلا جا رہا ہے، اصول دائو پر لگ چکے ہیں اور سمجھوتوں کی سیاست ہو ررہی ہے۔آجکل بھی وہ اسی قسم کے بیانات دیتے پھر رہے ہیں۔کیا سادگی ہے۔انہیں غالباً 2002 میں ایم ایم اے کی تشکیل بھی یاد نہیں ہے،اسکی غیر معمولی فتح بھی وہ بھول چکے ہیں، خیبر پختونخوا کی حکومت بھی ایک آمر کے دور میں انکی گود میں ڈال دی گئی تھی جس کا احسان اتارنے کے لئے انہوں نے جنرل پرویز مشرف کو با وردی صدر بھی منتخب کرایا۔پیپلز پارٹی کی عددی اکثریت ہونے کے باوجود مولانا قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے لیڈر بننے کے حقدار ٹھہرے اور اسکے عوض آمریت کو آئینی تحفظ بھی عنایت فرمایا۔مولانا کی اصولی سیاست کی ایک طویل داستان ہے۔اگر انکی یاد داشت ساتھ چھوڑ گئی ہے تو انکا انتخابات پر اعتراض بجا ہے۔ممکن ہے کچھ عرصے بعد انکو اس قسم کی اصولی سیاست کی ضرورت پڑ جائے تو انکی یاد داشت بھی واپس آ جائے۔ گزشتہ کالموں میں تحریر کیا تھا کہ تاریخی طور پر دیکھیں تو ہمارے ہاں کبھی انتخابات منصفانہ،غیر جانبدارانہ اور شفاف ہوئے ہیں اور نہ ہی کوئی حکومت عوام کی نمائندہ مانی گئی ہے بھلے وہ میاں نواز شریف کی دو تہائی اکثریت والی ہی کیوں نہ ہو ۔ یہ سب کچھ مشکوک بنانے والے ہمیشہ جمہوری عمل پر بظاہر یقین رکھنے والے اسکاحصہ بننے والے، انتخابات میں حصہ لینے، کئی بار حکومتیں کرنے والے سیاستدان ہیں۔ جنہوں نے انتخابی عمل کے بارے میں ہارنے کے بعد بہت واویلا کیا لیکن اسکی اصلاح کے لئے جب بھی موقع ملا کچھ نہیں کیا بلکہ اس کو اپنے حق میں ناجائز طور پر استعمال کیا۔ اسی طرح سے پارلیمان کی تشکیل کے بعد ہر حکومت نے واویلا کیا کہ سارے سیاسی مسائل پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہئیں لیکن جیسے ہی اپوزیشن میں آئے پوری کوشش کی کہ پارلیمنٹ فعال نہ رہے اور کسی نہ کسی طور حکومت کو وقت سے پہلے گھر بھیجا جائے۔ میاں نواز شریف نے بھی ایک بار موجودہ حکمرانوں کو چابی والے کھلونے قرار دیا تھا ۔ چابی والے کھلونے کے بارے میں داستانوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔میثاق جمہوریت لکھا گیا تو جمہوری حلقوں میں امید بندھی کہ ہماری قومی قیادت نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے اب وہ نہ تو جی پی ایس پر چلیں گے اور نہ ہی کوئی چابی دے کر اپنی تال پر انہیںنچا سکتا ہے۔لیکن ہم سب یہ بھول گئے کہ ان چابی والے کھلونوں کا سافٹ وئیر جہاں سے تیار ہوا ہے یہ جیسے ہی انکی رینج میں آئینگے پھر سے اسی دھن پر ناچنا شروع کر دیں گے۔ میمو گیٹ میں سب نے دیکھا کہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں سیٹلائٹ کی مدد سے کون سا چابی والا کھلوناپیپلز پارٹی کی حکومت کو گرانے سپریم کورٹ جا پہنچا۔آصف علی زردار ی کو ملک دشمن اور امریکی ایجنٹ قرار دلانے کی بھرپور کوشش کی۔ ایک اچھی خبر یہ ہے کہا مولانا فضل الرحمٰن کے احتجاج کی اصولی حامی مسلم لیگ(ن) نے جمعہ کے روز سیلیکٹڈ حکومت اور جعلی اسمبلی کے اندر حکومت کے ساتھ قانون سازی کے معاملات میں بھرپور تعاون کا معاہدہ کیا ہے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں حکومت نے گزشتہ ماہ جاری کردہ چھ آرڈیننس کو کمیٹیوں میں بھیج کر اپوزیشن کی مشاورت سے بل کی صورت میں لانے کا فیصلہ کیا ہے جسکے جواب میں مسلم لیگ (ن) نے اعتماد سازی کے لئے ڈپٹی سپیکر کے خلاف جمع کرائی جانے والی تحریک عدم اعتماد واپس لے لی ہے۔ فیصلہ یہ یا گیا ہے کہ اطراف ایک کمیٹی کے لئے چار چار ارکان نامزد کرینگے جو کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کے حوالے سے معاملات کو دیکھیں گے۔ حکومت نے اپنے چار ارکان کے ناموں کا اعلان کر دیا ہے۔ مسلم لیگ(ن) بھی ایک دو روز میں اپنے نام دے دیگی۔ اسکے بعد شاید مولانا فضل الرحمٰن کے جمہوریت کے لئے درد میں کچھ افاقہ ہو جائے۔