اگر یہ پریس کانفرنس آصف زرداری، نواز شریف، بلاول، شہباز شریف، اسفندیار ولی یا عمران خان نے کی ہوتی تو مجھے کوئی حیرت نہ ہوتی ان رہنماؤں کی تربیت ایسی ہے اور نہ ہی ان کی سیاست کی اساس ایسے اصولوں پر مبنی ہے۔ یہ تمام لوگ ایک سیاسی نظام کے یرغمال ہیں جس میں عوام کی حاکمیت ہی دراصل ایک مسلم حقیقت ہے۔ پاکستان کا آئین، پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ جب، جس وقت اور جیسے چاہے آئین کی کسی بھی اسلامی شق کو نکال کر باہر پھینک دے اور پارلیمنٹ کی بالادستی اسے اس فیصلے پر قادر سمجھتی ہے۔ سپریم کورٹ خواہ مدتوں اس پر بحث کرے کہ آپ آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل نہیں کرسکتے، فیصلہ بدلنے کا اعلان بھی کر دے تو پارلیمنٹ جمہوریت کی روح "طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں" کے اصول کے تحت ریفرنڈم کے ذریعے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو بھی تبدیل کر کے رکھ سکتی ہے۔ پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں اسی اصول اور جمہوریت کی اسی اساس پر یقین رکھتی ہیں۔ اس معاملے میں سیکولر، لبرل، کیمونسٹ یا اسلامی جماعتوں میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں۔ سب کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اس نظام ، سسٹم اور جمہوریت کو بچانا چاہتے ہیں اور اس کے لئے انہوں نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2018 کے الیکشنوں میں ہارنے والی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کے آخر میں جب مولانا فضل الرحمن صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے تو وہ جمہوریت، جمہوری جدوجہد اور عوام کی حاکمیت کے خمار میں اس قدر ڈوبے ہوئے تھے کہ اپنے پیچھے کھڑے اسفندیارولی، محمود خان اچکزئی اور دیگر سیکولر قوم پرست رہنماؤں سے بالکل مختلف نظر نہیں آئے۔ یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ ایک عالم دین کی پریس کانفرنس ہے۔ عالم دین بھی وہ، جو تزکیہ و تقویٰ کے بلند معیار پر فائز علما دیوبند کی میراث کو سنبھالے ہوئے ہے۔ پوری پریس کانفرنس میں مولانا کے جوشیلے خطاب میں آپ کو یوں لگے گا جیسے جمہوریت کے "دین" پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے، اس کی "شریعت" کو پامال کردیا گیا ہے، اور اس جمہوری دین کے "سابقون الاولون" نے جو اصول مرتب کیے تھے انہیں روندا گیا ہے، اس لیے ہم اس کی بحالی کے لیے جدوجہد کریں گے، تحریک چلائیں گے۔ ان کی اس تقریر کا بہاؤ اس فقرے کی جانب تھا جسے جمہوری نظام کی بنیاد سمجھا جاتا ہے یعنی "طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں"۔ مولانا فضل الرحمن نے جمہوریت کے منبر پر کھڑے ہو کر عوام کی بادشاہت کا اعلان کرتے ہوئے کہا "جو قوتیں یہ سمجھتی ہیں کہ سب کچھ ان کے ہاتھ میں ہے، وہ سن لیںکہ آپ کے ہاتھ میں کچھ نہیں سب کچھ عوام کے ہاتھ میں ہے"۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں یہ "مکمل فقرہ کسی عالم دین کے منہ سے پہلی دفعہ سنا ہے۔ علماء و صلحاء کی گفتگو اور سیکولر لبرل سیاسی رہنماؤں کی گفتگو میں بس یہی ایک فرق تو باقی رہ گیا تھا کہ یہ علماء عمل کریں یا نہ کریں لیکن اپنی تقریروں میں طاقت و قوت کے منبع و سرچشمہ کا تذکرہ کرتے تو اللہ سبحان و تعالیٰ کا ذکر کرتے اور ایسا کرتے ہوئے ان کی زبانوں سے اللہ کی شہنشاہیت اور مالک کل ہونے کا اظہار ہوتا اور وہ ببانگ دہل کہتے "سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے"۔ لیکن کیا کریں جمہوریت اور جمہوری جدوجہد کا، عوامی مینڈیٹ کا، ووٹ کی بھیک کا, جمہوریت پرست علماء اور سیکولر لیڈروں کے ہجوم کی قیادت کا جس کی وجہ سے ایک عالم دین کو میرے اللہ نے پوری پریس کانفرنس میں ایک لمحے کے لیے بھی اپنی بادشاہت، کبریائی یا "علٰی کل شئی قدیر" کے اعلان کی طاقت کی ہی نہ دی۔ آپ آنکھیں بند کر کے اس پریس کانفرنس کو سنیں، آپ کو یہ کسی ایسے شخص کی گفتگو ہر گز نظر نہیں آئے گی جس نے مسجد کی چٹائیوں پر بیٹھ کر قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی ہو۔ میرے کانوں میں سورہ الکھف میں دو باغات کے تقابل والی آیات گونجنے لگیں اور میں ایک انجانے سے خوف میں مبتلا ہو گیا۔ میں نے اپنے جاننے والے علماء ، مختلف واٹس اپ گروپوں میں گفتگو کرتے لوگوں سے فوراً اس کیفیت کا اظہار کیا۔ کیوں کہ یہ کسی عام سیاسی لیڈر کی گفتگو نہ تھی، ایک عالم دین کی گفتگو تھی جو سیاست کو دین کے رنگ میں رنگنے کا دعویٰ لے کر اٹھا ہے۔ اگر ہماری اصطلاحات ہی ہماری گفتگو سے غائب ہو جائیں تو پھر ہماری پہچان کیا صرف داڑھی، پگڑی، ٹوپی رہ جائے گی۔ داڑھی توچی گویرا اور فیڈل کاسترو کی بھی تھی اور ٹوپی پگڑی تو آج بھی بے شمار بے عمل مسلمان اور ہندو کانگریسی لیڈر پہنتے ہیں۔ ہماری اساس ہی اللہ کی بادشاہت کا اعلان ہے جو ہمارے علماء کی گفتگو میں ہر آن جھلکتا تھا۔ لیکن بْرا ہو جمہوریت اور جمہوری جدوجہد کا اب وہ رنگ بھی اتر گیا ،جو علمائے دیوبند، بریلی و اہل حدیث، تشیع اور دیگر کی پہچان تھی۔ سورہ الکھف میں اللہ نے اپنے عذاب کی وجوہات اور غضب کی علامات کے طور پر دو باغ والوں کا قصہ بیان فرمایا ہے۔ اللہ فرماتا ہے "اے نبی، ان کے سامنے ایک مثال پیش کرو۔ دو شخص تھے۔ جن میں سے ایک کو ہم نے انگوروں کے دو باغ دے رکھے تھے اور ان کو کھجوروں کے درختوں سے گھیرا ہوا تھا۔ اور ان دونوں باغوں کے درمیان کھیتی لگائی ہوئی تھی۔ دونوں باغ پورا پورا پھل دیتے اور کوئی باغ پھل دینے میں کوئی کمی نہیں چھوڑتا تھا، اور ان دونوں کے درمیان ہم نے ایک نہر جاری کردی تھی۔ اور اس شخص کو خوب دولت حاصل ہوئی تو وہ اپنے ساتھی سے باتیں کرتے ہوئے کہنے لگا کہ : میرا مال بھی تم سے زیادہ اور میرا جتھہ بھی تم سے زیادہ مضبوط ہے"۔ اور وہ اپنی جان پر ستم ڈھاتا ہوا اپنے باغ میں داخل ہوا۔ کہنے لگا: "میں نہیں سمجھتا کہ یہ باغ کبھی بھی تباہ ہوگا"۔ اور میرا خیال یہ ہے کہ قیامت کبھی نہیں آئے گی۔ اور اگر کبھی مجھے اپنے رب کے پاس واپس بھیجا بھی گیا، تب بھی مجھے یقین ہے کہ مجھے اس سے بھی اچھی جگہ ملے گی"۔ اس کے ساتھی نے اس سے باتیں کرتے ہوئے کہا: کیا تم اس ذات کے ساتھ کفر کا معاملہ کر رہے ہو جس نے تمہیں مٹی سے، اور پھر نطفے سے پیدا کیا، پھر تمہیں ایک بھلا چنگا انسان بنادیا۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، میں تو عقیدہ رکھتا ھوں کہ اللہ میرا پروردگار ہے اور میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہیں مانتا۔ اور جب تم اپنے باغ میں داخل ہو رہے تھے تو تم نے یہ کیوں نہیں کہا "جو اللہ چاہتا ہے، وہی ہوتا ہے، اللہ کی توفیق کے بغیر کسی میں کوئی طاقت نہیں"۔ اگر تمہیں یہ نظر آرہا ہے کہ میری دولت اور اولاد تم سے کم ہے۔ تو میرے رب سے کچھ بعید نہیں کہ وہ مجھے تمہارے باغ سے بہتر چیز عطا فرما دے، اور تمہارے اس باغ پر کوئی آسمانی آفت بھیج دے، جس سے وہ چکنے میدان میں تبدیل ہوجائے۔ یا اس کا پانی زمین میں اتر جائے اور تم اسے تلاش نہ کر سکو"۔ اور پھر ہوا یہ کہ اس کی ساری دولت عذاب کے گھیرے میں آ گئی اور صبح ہوئی تو اس حالت میں کہ اس نے باغ میں جو کچھ خرچ کیا تھا، وہ اس پر ہاتھ ملتا رہ گیا، جبکہ اس کا باغ اپنی ٹیٹوں پر گرا پڑا تھا اور وہ کہہ رہا تھا "کاش میں نے اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہوتا" (الکھف: 32 تا 42)۔ اس پورے قصے میں اللہ نے کہیں بتوں یا زمینی خداؤں کے شرک کا ذکر نہیں کیا بلکہ آیات کا بہاو اس آخری آیت کی جانب لے کر آتا ہے کہ "کاش میں شرک نہ کرتا"۔ گویا اپنی قوت دولت اور طاقت پر بھروسے بلکہ اس کے اظہار کو بھی اللہ نے شرک قرار دیا ہے۔ جبکہ جمہوریت میں تو آپ خالصتاً عوام کی طاقت پر بھروسہ کرتے ہیں اور ایک عالم دین ہونے کے باوجود کتنے فخر سے اعلان کرتے ہیں کہ "ساری طاقت عوام کے پاس ہے"۔ یہ ہے جمہوریت کی اصل اساس، یہ ہے اللہ کی طاقت اور قوت سے انکار اور اس سے بغاوت کا اعلان ہے اور یہی وہ شرک ہے جس کی کوکھ سے جمہوریت پروان چڑھتی ہے۔ جو اللہ باغ میں سرمایہ کاری پر بھروسہ کرنے کو شرک سے تعبیر کرتا ہے اور عذاب نازل کرتا ہے، وہ عوام کی طاقت پر مکمل بھروسا کرنے والے کے ساتھ کیا کرے گا۔ سوچتا ہوں تو خوف سے کانپ اٹھتا ہوں۔ آصف زرداری، نواز شریف، عمران خان، محمود اچکزئی یا اسفند یار ولی جیسا کوئی دنیا کی منزلوں میں گم شخص یہ بات کرتا تو ڈر نہ لگتا۔ یہ تو تمام مسالک کے دینی رہنماؤں کے سربراہ کی گفتگو تھی۔