میں آج تک اس پانچ سالہ بچے کا چہرہ نہیں بھول سکا اور لگتا ہے کہ موت تک وہ چہرہ میری آنکھوں کے سامنے رہے گا یہ الفاظ آئندہ امریکی انتخابات میں ڈیمو کریٹ پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار کی دوڑ میں شریک سیٹھ مولٹن(seth moultan)کے ہیں۔ اکتالیس سالہ مولٹن میسی چوسٹ ریاست سے امریکی کانگریس کا رکن ہے۔ ہاورڈ یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد وہ 2002ء میں سکینڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے فوج میں بھرتی ہوا اور ورجینیا کے ٹریننگ سکول سے تربیت کے بعد وہ براہ راست صدام حسین کے عراق پر حملے کے لئے بھیج دیا گیا۔ اس نے 2003ء سے 2007ء تک پانچ برسوں میں چار دفعہ عراق کے خون و بارود سے لتھڑے ہوئے ماحول میں امریکی ریاستوں کی کمان کی۔ وہ اس پہلی انفنٹری پلاٹون کی قیادت کر رہا تھا جو بغداد میں داخل ہوئی۔ اس نے نجف اور نصیریہ جیسے شہروں کو فتح کرنے کی جنگیں لڑیں۔ وہ صرف ایک فوجی آفیسر تک ہی محدود نہ رہا بلکہ اس نے بغداد کی فتح کے بعد ایک ٹیلی ویژن ٹاک شو کی مشترکہ میزبانی بھی کی جس کا نام مولٹن اینڈ محمدتھا۔ وہ ان فوجی افسران میں سے تھا جنہیں امریکی ٹیلی ویژن چینل والے اکثر اپنے شوز میں بلاتے رہتے۔ اس نے اکیڈمی ایوارڈ یافتہ اس ڈاکومنٹری فلم میں بھی گفتگو کی جو عراق میں امریکی افواج کی دو سالہ کارکردگی پر بنائی گئی تھی۔ یہ فلم No end in sightمیں ایسے پینتیس امریکیوں کے انٹرویو کئے گئے تھے جو امریکہ کی اس جنگ سے سخت پریشان کن تجربات لیے لوٹے تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پوری فلم صرف فوجی حکمت عملی سے متعلق ہے لیکن اس میں عراق میں موجود انسانوں پر گزری قیامتوں کا کوئی ذکر نہیں ہے لیکن آج اس جنگ کو عراق پر مسلط ہونے کے پندرہ سال بعد مائیک مولٹن ظلم و دہشت کے لاتعداد واقعات کے ساتھ ساتھ اس دردناک واقعے کا ذکر کرتا ہے۔ دو جون 2019ء کو سی این این کے مشہور صحافی اور اینکر پرسن جیک ٹیپر (jake tapper) کو انٹرویو دیتے ہوئے اس نے کہا کہ یہ جنگ کا آغاز تھا۔ میری پلاٹون نے کچھ بسوں اور کاروں پر اندھا دھند فائر کھول دیے کیونکہ ہمارا گمان یہ تھا کہ ان میں صدام حسین کے فوجی سوارہو کر بھاگ رہے ہیں ان میں سے ایک کار وہاں رک گئی اور اس میں سے عراقی خاندان نکل کر بھاگ کھڑا ہوا میں جب اس کار کے نزدیک پہنچا تو وہاں سڑک پر ایک پانچ سالہ زخمی بچہ پڑا تھا جسے وہ جان بچانے کی کوشش میں وہاں چھوڑ گئے تھے۔ میں نے صرف اتنا کیا کہ میں نے اپنی گاڑی اس کے پاس کھڑی کر دی اور وہاں سے اپنی پلاٹون کو چاروں جانب فائر کرنے کا آرڈر کرتا رہا۔ میں اس وقت اپنی محفوظ آرمڈ گاڑی سے نکل کر اس بچے کی مدد کر سکتا تھا لیکن میں نے ایسا نہیں کیا اور اس کا چہرہ آج تک میری آنکھوں میں ہے اور موت تک میرا پیچھا کرتا رہے گا۔ بظاہر یہ انٹرویو اور اس کی گفتگو بڑی اچھی اور انسانیت دوست لگتی ہے لیکن اگر آپ پورا انٹرویو سن لیں تو آپ کو اس شخص کے اس انسانیت سے محبت کے تصور سے نفرت ہونے لگے۔ اس نے یہ انٹرویو اس لئے دیا ہے کہ امریکہ کی ذہنی صحت کی سہولیات کو زیادہ سے زیادہ ان امریکی فوجیوں تک پہنچانا چاہیے جوعراق اور افغانستان کی جنگ سے واپس آئے ہیں اور وہاں ان کے ہاتھوں سے جو ظلم ہوئے ہیں ان کی وجہ سے وہ ذہنی معذوری کا شکار ہو چکے ہیں اس سے زیادہ خود غرضی بے حسی اور انسان دشمنی نہیں ہو سکتی۔ یعنی انہیں اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ افغانستان‘ عراق یا کسی اور ملک میں ان کے سپاہیوں کی گولیوں سے یا ڈرون حملوں سے کتنے لوگ کسی اذیت سے مرتے ہیں۔ انہیں تو صرف اس بات سے دلچسپی ہے کہ ان اذیت ناک لمحات کو دیکھنے کے بعد ان کے سپاہی جس ذہنی اذیت کا شکار ہوکر پاگل ہو رہے ہیں ان تک صحت کی سہولیات زیادہ سے زیادہ کیسے پہنچائی جا سکتی ہیں، نیشنل گارڈ سولجرز کی تحقیق کے مطابق ایسے تمام امریکی سپاہی جو افغانستان اور عراق گئے ہیں ان میں سے واپس آنے والوں میں 31فیصد اس طرح کے پاگل پن کا شکار ہوئے ہیں اور یہ بیماری برسوں گزرنے کے بعد بھی قائم رہتی ہے اور یوں اس کے نتیجے میں 22امریکی سپاہی روزانہ خودکشی کرتے ہیں۔ جنگ کی اس ہولناکی پر اپنی قوت کا محل تعمیر کرنے کا یہ رویہ اور اپنے قاتلوں کو عزت و تکریم اور ہر طرح کی سہولیات فراہم کرنے کا یہ روپ صدیوں پرانا ہے اور جنگی اخلاقیات نام کی چڑیا دنیا میں کبھی تلواروں کی چھائوں میںچہچہاتی ہے اور نہ بارود کی بو میں زندہ رہی ہے۔ ہلاکو خان کا وہ واقعہ جنگی اخلاقیات کی مثال ہے کہ اس سے سوال کیا گیا کہ تمہیں کبھی کسی پر ترس آیا کہنے لگا ایک عورت کا بچہ دریا میں ڈوب رہا تھا اور وہ رحم کی بھیک مانگ رہی تھی‘ مجھے اس پر ترس آیا میں نے اپنے نیزے میں بچے کو پرو کر باہرنکالا اورماں کے حوالے کر دیا لیکن یہاں تو پانچ سالہ بچہ ماں کے حوالے بھی نہیں کیا گیا۔ اسے سڑک پرتڑپتے ہوئے چھوڑ دیا گیا۔ گزشتہ صدی یعنی 1901ء سے لے کر 2000ء تک، جہاں مذہب سے آزادی، سیکولرازم‘لبرل ازم اور جمہوریت کی صدی ہے وہیں اس نئے نظام زندگی کی کوکھ سے جنگوں کا اتنا بڑا جہنم برآمد ہوا ہے کہ پوری پانچ ہزارسالہ انسانی تاریخ میں اتنے انسان اس الائو میں نہیں جل مرے ہوں گے جتنے اس ایک صدی کے دوران لقمہ اجل بن گئے۔ یوں تو ایک طویل فہرست ہے ان جنگوں کی جو نسل‘ رنگ‘ زبان اور علاقے کے لئے لڑی گئیں لیکن چند ایک میں پہلی جنگ عظیم (1914-1918ء ) جس میں 85لاکھ تو فوجی مارے گئے اور عام شہریوں کی تعداد پانچ کروڑ سے زیادہ تھی۔ انقلاب روس 1911ء نوے لاکھ لوگوں کی جان لے گیا۔ دوسری جنگ عظیم (1939-1945ئ) سات کروڑ سے زیادہ اموات ‘ کوریا کی جنگ(1950-1953ئ) ویت نام جنگ(1959-1975ئ) پچاس لاکھ لوگوں کی موت۔ اس کے علاوہ روس افغان جنگ۔ انڈو چائنا جنگیں‘ فرانس الجزائر جنگ وغیرہ کو ہی دیکھا جائے تو یوں لگتا ہے جیسے قومی ریاستوں کی جغرافیائی حدود اور نسلی علاقائی تصور مادر وطن کی کوکھ سے صرف اور صرف جنگ برآمد ہوئی ہے ۔ کیا مؤرخ سچ لکھے گا کہ اس گزشتہ بیسویں صدی میں ساری کی ساری جنگیں نسلی اور علاقائی عصبیت کے نام پرلڑی گئیں اور اس قتل و غارت میں دنیا کا کوئی مذہب بھی شریک نہ تھا۔ سرزمین کے ایک ایک انچ کی حفاظت میں تو چلوکمزورقومیں لڑیں لیکن وہ جو صرف دنیا پر اپنا سکہ جمانے کے لئے جنگ میں کودے اور آج بھی کود رہے ہیں۔ جنہوں نے اس صدی کے آغاز میں عراق اور افغانستان پر اس بنیاد پر حملہ کیا کہ وہاں صدام حسین اور ملا عمر جمہوری اور لبرل نظام حکومت نہیں قائم کرتے۔ جمہوری آئین کی تدوین اوراس کے تحت عراق اور افغانستان میں الیکشن کے نفاذ کے لئے لاکھوں انسانوں کے قتل عام کے بعد بھی اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ جمہوریت تلوار کے زورسے نافذ نہیں ہوتی تو اسے اپنے استدلال پر غور کرنا چاہیے۔