تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان داد کے مستحق ہیں کہ کم از کم وہ لگی لپٹی رکھے بغیر صاف گوئی سے کام لیتے ہیں ۔انھوں نے پی ٹی آئی کے کھلاڑیوں کے اس اعتراض کہ نظریاتی کارکنوں کو جنہوں نے پارٹی کی نشوونما کے لیے جدوجہد کی اور قربانیاں دیں ٹکٹوں سے کیونکر محروم رکھا گیا؟ ۔ عمران خان برملا طور پرفرماتے ہیں کہ الیکٹ ایبلز کو ٹکٹ دینا نئے پاکستان کی تشکیل کے لیے ناگزیر ہے ۔ دوسری طرف ان کا یہ بھی اصرار ہے کہ ٹکٹ میرٹ پر دیئے جارہے ہیں لیکن میرٹ سے غالبا ًان کی مراد یہ ہے کہ متوقع طور پر جیتنے والے امیدواروں کو ہی ٹکٹ دیا جائے ۔یہ باتیں وہ ناراض کارکنوں سے جو بنی گالہ کے گیٹ کے باہر کیمپ لگائے بیٹھے ہیں وقتا ً فوقتاً کرتے رہتے ہیں ۔ اصولی طور پر خان صاحب کی بات درست ہے کہ پارٹی جب تک قومی اسمبلی میں مطلوبہ نشستیں نہ جیت لے ،اقتدار میں کیسے آسکتی ہے ؟۔ لیکن وجہ اختلاف صرف یہ ہے کہ پرانے لوٹے جو قریبا ًہر سیاسی جماعت کا طواف کر چکے ہیں اور بھانت بھانت کی بولیاں بولتے ہیں،خان صاحب کیا ایسے لوگوں سے نئے پاکستان کی بنیاد رکھ سکیں گے جن میں سے اکثر خود کرپشن میں رنگے ہوئے ہیں اور وہ آنے والی قومی اسمبلی میں کرپشن کے خلاف قانون سازی میں ممدومعاون ثابت ہونگے یا خود الیکشن میں خرچ کی ہوئی رقم کو کئی گنا سے ضرب دے کر وصول کر لیں گے ۔ماضی میں جن لوگوں کا کردار یہی رہا ہے وہ یکدم پوتر کیسے ہو جائیں گے ؟۔ دیکھا جائے تو عصر حاضر کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ نظریاتی سیاست قریبا ً دم توڑ چکی ہے ۔تحریک انصاف ہو ، مسلم لیگ (ن) یا پیپلزپارٹی، اقتدار کے حصول کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرنے کو جائز سمجھا جاتا ہے۔کسی بھی جماعت نے ابھی تک اپنا انتخابی منشور جاری کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی ،واحد مطمع نظر حصول اقتدار ہے ۔گویا کہ اقتدار کا ہما ہمارے سر پر بیٹھ جائے باقی تو ہم سب ٹھیک کر لیں گے۔ عمران خان کو ٹھنڈے دل سے خود یہ سوچنا چاہیے کہ یہ نام نہاد الیکٹ ایبلز نظریئے کی خاطر ان کی پارٹی میں شامل ہوئے ہیںیا محض اقتدار کے حصول اور وزارتوں پر فائز ہونے کے لیے ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان میں سے اکثر خواتین وحضرات مسلم لیگ (ن) سے مراجعت کر کے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں ۔ قبل ازیں یہی لوگ مسلم لیگ (ق) سے (ن) میں آئے تھے اور میاں نوازشریف نے انھیں نہ صرف جی آیاں نوں کہا بلکہ عہدوں سے بھی نوازا ۔جب بھی پی ٹی آئی پر مشکل وقت آیا تو یہی لوگ مرغ دست آموز کی طرح ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے کسی اور مچان پربیٹھ جائیں گے ۔اصولوں کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں رہا ۔اگر ہوتا تو سینیٹ کے انتخابات اور اس کے چیئرمین چننے کے عمل میں جس طرح جوتیوں میں دال بٹی وہ پاکستان کی تغیر پذیر بے اصولی سیاست کا ایک سیاہ باب ہے۔جس طریقے سے پی ٹی آئی سمیت بعض سیاستدان سیاسی انجینئرنگ کی خاطر فوج کو سیاست میں درپردہ ملوث کرتے آ رہے ہیں وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ نوازشریف پر کرپشن کے کیسز کے باعث ان کی جماعت میں شامل امیدواروں کو جس قسم کے ہتھکنڈوں سے دبایا جا رہا ہے وہ پوری طرح عیاں ہیں۔ ویسے یہ حیرانی ضرور ہوتی ہے کہ اتنے سخت دباؤ کے باوجود اتنے لوگ اب تک مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کیسے کھڑے ہیں ؟ برطانوی جریدے اکانومسٹ نے اپنے حالیہ اداریے میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا بین الاقوامی طور پر جمہوری نظام خطرے میں ہے ۔اکانومسٹ کے مطابق گزشتہ صدی کے دوران 1941ء میں دنیا میں صرف بارہ جمہوریتیں تھیں اور2000ء تک اتنی ترقی ہوئی کہ دنیا میں محض 8ملک رہ گئے تھے جہاں عام انتخابات کا انعقاد نہیں کیا جاتا تھا ۔38 جمہوری ملکوں میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق پانچ میں سے چار لوگ جمہوری نظام کے تحت رہنا پسند کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود جریدے کے مطابق پھر جمہوری نظام کو خطرات لاحق ہیں ۔اس ضمن میں چین کے صدر شی جن پنگ کا تاحیات صدر منتخب ہونا بھی شخصی حکومت کی طرف ایک قدم ہے ،یہی حال ترکی کا ہے،طیب اردوان وزیراعظم کا عہدہ ختم کر کے مزید اختیارات کے ساتھ پھر صدر منتخب ہوگئے ہیں بلکہ انہوں نے اپنی جیت کا اعلان بھی خود کیا ہے ۔روس میں صدر پیوٹن اسی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں ۔ وینزویلا اور ہنگری میں بھی یہی حال ہے ۔اکانومسٹ کے مطابق آزاد عدلیہ اور جرات مند صحافت ہی جمہوریت کی گارنٹی ہیں ۔ اگر اسی پیمانے سے ناپا جائے جس کے مطابق مقبول لیڈر جمہوریت کے نام پر ہی جمہوری اداروں کو کمزور کر کے اپنا الو سیدھا کرتے ہیں توکچھ اس قسم کا معاملہ پاکستان میں بھی لگتا ہے کہ یہاں بھی جمہوریت کے نام پر ہی جمہوریت کو کمزور کیا جاتا ہے اور ہر ناخوب چیز کو خوب بنا کر پیش کیا جاتاہے ۔ اس ضمن میں میڈیا کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے اور پاکستان میں میڈیا کی آزادی پر قدغن کے حوالے سے انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ تشویش کا اظہار بھی کر چکا ہے ۔اگلے ماہ انتخابات کے بعد یہ فیصلہ ہوگا کہ جمہوریت مضبوط ہوئی ہے یا کمزور؟اور دس برس پہلے جو آزادی نظر آ رہی تھی وہ آزادی موہوم تو ثابت نہیں ہوئی ؟ دوسری طرف پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری نے یہ فیصلہ صادر کر دیا ہے کہ وہ اور ان کی جماعت عام انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے ۔حیران کن طور پر انھوں نے یہ گردان نہیں کی کہ یہ نظام اتنا کرپٹ ہے کہ اس کو یکسر تبدیل ہونا چاہیے اس میں انتخابات لڑنے کا فائدہ ہی نہیں ۔ویسے تو قادری صاحب کینیڈا کے باقاعدہ شہری ہیں،لہٰذا اگر وہ انتخا بات میں حصہ لینے کا ڈول ڈالتے بھی تو ان کے کاغذات نامزدگی ہی مسترد ہو جاتے، اگر بحث کی خاطر وہ اور ان کی سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ لے بھی لیتی تو قادری صاحب سمیت ان میں سے اکثریت کی ضمانت ضبط ہو جاتی ۔دوسری طرف ایک اور مذہبی جماعت جو خود کو فلاحی جماعت کہتی ہے یعنی حافظ سعید کی جماعت الدعوۃ نے عام انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ان کے صاحبزادے حافظ طلحہ سعید اور داماد حافظ خالد ولید دونوں انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں ۔ ایک خبر کے مطابق حافظ سعید اور ان کے حواری ایک غیر معروف سیاسی جماعت ’اللہ اکبر تحریک ‘کے تحت الیکشن لڑیں گے اور ملک بھر میں265 امیدواروں کو میدان میںاتارا جا رہا ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا ’اللہ اکبر تحریک ‘ کا اچانک ظہور بھی سیاسی انجینئرنگ کا حصہ ہے اور اس کا مقصد مسلم لیگ (ن) کے ووٹ کاٹنا ہے؟ لیکن ماضی میں ایسے ہتھکنڈے کبھی کامیاب نہیں ہوئے ۔