پاکستانی سیاست کا وہ مرحلہ ختم ہی لگتا ہے جس میں اس نے نئی سمت اختیار کرنا تھی۔ نو مئی اور اس کے بعد کے حالات و واقعات نے اسے واپس وہیں پر لا کھڑا کردیا ہے جہاں سے تبدیلی کے سوال نے جنم لیا تھا۔ وہی پرانی دو سیاسی پارٹیاں جنہیں تبدیلی کے نام پر دیوار سے لگایا گیا تھا، واپس پلٹ آئی ہیں اور سیاسی منظرنامہ پر چھائی ہوئی ہیں۔ ماضی کی دشمنِ جان پارٹیوں میں سیاسی بھائی چارہ اتنا کہ مرکز میں شریک اقتدار ہیں۔ یہ سیاسی بھائی چارہ بش دور حکومت میں ان کی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس کی مہربانی سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ہونے والے میثاق جمہوریت کی وجہ سے قائم ہوا تھا۔ اس معاہدہ کے مطابق انیس نوے کی دہائی کی سیاسی محاذ آرائی ختم ہوگئی تھی اور دونوں پارٹیوں نے پارلیمان کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی اور صوبائی خود مختاری کے اصول پر اتفاق کیا تھا۔ میثاق جمہوریت نے ہی، ایک این آر او کے ذریعے، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی جلاوطن قیادت کی وطن واپسی کی راہ ہموار کی تھی۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے میثاق جمہوریت میں توسیع کی گئی جس میں مذہبی اور قوم پرست پارٹیوں کو بھی حصہ دار بنایا گیا۔ جہاں پارلیمان کی بالا دستی، عدلیہ کی آزادی اور صوبائی خود مختاری کے لیے آئین کی شق وار ترمیم کی گئی وہیں پر صوبہ سرحد کو ایک نسلی نام دیا گیا جبکہ ملک کی مذہبی شناخت کو بھی قائم رکھا گیا۔ پورے دس سال (-2018 2008) میں ہونے والی آئین سازی کی نوعیت سے یہ واضح ہوگیا کہ دو بڑی پارٹیوں نے اقتدار میں باری لینے کا پکا بندوبست کرلیا تھا کہ کہیں سے تحریک انصاف ٹپک پڑی۔ تحریک انصاف، جو تبدیلی کی علامت کے طور پر سامنے آئی تھی اور پاکستان کے انتظامی اور آئینی ڈھانچہ کو عہد نو کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کا وعدہ کرتی تھی، اس نے ملک کی اکثریتی آبادی، یعنی نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اورانہیں بھی جو پرانی پارٹیوں کی قدامت پرستی سے نالاں تھے۔ دوہزار تیرہ کے انتخابات میں اس نے خیبر پختونخوا سے میثاق جمہوریت کا حصہ عوامی نیشنل پارٹی کا صفایا کرکے وہاں اقتدار پر قبضہ کیا اور دوہزار اٹھارہ میں پنجاب کو فتح کرکے مرکز میں بھی اپنی حکومت بنا لی۔ یہاں سے پاکستان کی سیاست میں ایک نئی صف بندی شروع ہوئی جس نے تحریک انصاف کی چار سالہ حکومت کو ہی نہیں ختم نہیں کیا بلکہ اس پارٹی کے وجود کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ پچھلے سال کے اوائل میں پاکستان میں آئی سیاسی تبدیلی کے بعد یہ خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ شاید میثاق جمہوریت کی تجدید ہو اورپچھلے انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والی پاکستان تحریک انصاف کو بھی اس میں شامل کرلیا جائے لیکن نومئی اور بعد کے واقعات سے ایسا لگتا ہے کہ اب اس تردد کی ضرورت نہیں رہی۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ یہ تو تب ہو تا جب وہ مسائل ہی حل ہوجائیں جنہوں نے ایک تیسری سیاسی طاقت کی ضرورت پیدا کی تھی۔ نو مئی کے بعد تحریک انصاف کا کیمپ جس تیزی سے خالی ہوا ہے، اس سے لگتا یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے اعلان تک یہ پارٹی ختم ہوجائیگی۔ جب تشدد اور چادرو چاردیواری کی پامالی کے خوف کی وجہ سے قد آور سیاسی راہنما پارٹی ہی نہیں سیاست کو بھی خیرآباد کہہ رہے ہیں تو کل کلاں اس پارٹی کے ٹکٹ پر کون الیکشن لڑنے کی جرات کریگا۔ ایسے میں اگلے انتخابی دنگل کے پہلوان کون ہونگے ؟ بلاول زرداری۔ بھٹو اور مریم نواز شریف؟ مدمقابل سیاسی پارٹیوں کا ایجنڈا کیا ہوگا جس پر وہ انتخابات لڑیں گی؟ اگر عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف انتخابی مقابلے میں آتی ہے تو جو کچھ اس پارٹی کے ساتھ ہوا ہے وہ سب قبل ازانتخابات دھاندلی کے زمرے میں آئے گا۔ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ عمران خان نے بچی کھچی پارٹی کو منظم کیا ہے اور اس کی اعلی قیادت پر مشتمل مذاکراتی ٹیم تشکیل دے دی ہے تاکہ حکومت سے اگلے عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے لائحہ عمل طیکیا جاسکے۔ اب شاید ایسے حالات نہیں رہے کہ وہ عام انتخابات سے پہلے ہی صوبائی انتخابات پر اصرار کریں یا پھر وہ قبل ازانتخابات پر زور دیں۔ وہ کہہ رہے کہ عام انتخابات قبل از وقت نہ سہی لیکن وقت پر لازمی ہونا چاہئیں۔ انہوں نے بنیادی حقوق کی معطلی، قبل از وقت انتخابات دھاندلی اور شفاف انتخابات کے حوالے سے عدلیہ کو آواز دی ہے۔ تاہم حکومت اب اپوزیشن سے بات ہی نہیں کرنا چاہتی۔ یوں اگر حکومت کے لب و لہجے کو دیکھا جائے تو عام انتخابات کا معا ملہ بھی گڑ بڑ نظر آتا ہے۔ پہلے معاملہ یہ تھا کہ اس نے آئی ایم ایف کی شرائط کو مان کر ایسے اقدامات اٹھالیے تھے جس سے عام آدمی کی زندگی مشکلات کا شکار ہوئی تھی۔ خطرہ یہ تھا کہ وہ پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی کے صوبوں میں انتخابات کراتی ہے جہاں اپوزیشن کا اثر و رسوخ بھی موجود تھا، وہ الیکشن ہار جائے گی۔ اسے امید تھی کہ سخت معاشی اقدامات کے نتیجے میں آئی ایم ایف سے امداد مل جائے گی، اگلے بجٹ میں عوام کو ریلیف دے کر اپنی سیاسی ساکھ کو بحال کرالے گی، تب ہی عام انتخابات کرائے گی۔ اب شنید یہ ہے کہ اگلا بجٹ آئی ایم ایف کی ہدایات کی روشنی میں ترتیب دیا جا رہا ہے۔ اس صورت میں تو ظاہر ہے عوام کے لیے ریلیف کی گنجائش کم رہے گی۔ اب یا تو پی ٹی آئی انتخابی عمل سے باہر کردی جائے گی یا پھر انتخابات ہی کچھ عرصہ کے لیے ملتوی کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ دوسری طرف عدلیہ بھی نومئی کے واقعے سے جڑے حالات سے زیادہ عرصہ لاتعلق نہیں رہ سکتی۔ صوبائی انتخابات کے حوالے سے پہلے ہی معاملات خراب ہیں کہ سپریم کورٹ کی واضح ہدایات پر عمل نہیں ہوسکا۔ یوں سیاست کا اونٹ کس کروٹ پر بیٹھے گا ابھی کچھ واضح نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ عدلیہ جمہوریت کی گلوخلاصی کراسکتی ہے لیکن حکومت اس کے ساتھ ہی مخاصمت کے راستے پر گامزن ہے۔