گمشدہ افراد کے لواحقین کی تنظیم کی جانب سے گمنام قبروں کے اس وسیع سلسلے کا انکشاف ہونے کے بعد اے پی ڈی اے نے انٹرنیشنل پیپلز ٹریبونل آن ہیومن رائٹس اینڈ جسٹس کے نام سے عوامی تنظیم کے قیام کا اعلان کیا جس کے ارکان میں کیلی فورنیا یونیورسٹی میں انتھرویولوجی کی پروفیسر ڈاکٹر انگنا چتر جی بھارت میں انسانی حقوق کے علمبردار گوتم نولکھا جنہیں آج کل کشمیر کے داخلے پر حکومت ہند نے پابندی عائد کر رکھی ہے اور سری نگر کے پرویز امروز شامل ہیں نے ایسے خوفناک واقعات پر جنوبی افریقہ کی طرز پر ٹروتھ اینڈ ری کنسلی ایشن کمیشن کے قیام کامطالبہ کیا تھا۔تاکہ یہ پتا لگایا جاسکے کہ آیا ان گمنام قبروں میں جبری طور پر گم کردہ نوجوان تو نہیں۔ اے پی ڈی پی کی محنت شاقہ کے نتیجے میں انٹرنیشنل پیپلز ٹریبونل آن ہیومن رائٹس، ایمنسٹی انٹرنیشنل ، ایشیا واچ اور دیگر کئی اداروں کی طرف سے کشمیر میںجبری گمشدگیوں کے معاملے پرشورڈالا مگردلی اورسری نگر کی حکومتوںکے عدم تعاون کی وجہ سے بات عملی طورپر آگے نہ بڑھ سکی۔ واضح رہے کہ جموں وکشمیر کے مختلف علاقوں میں 3ہزار کے لگ بھگ گمنام یا قبریں موجود ہیں جن میں موجود افراد کی شناخت عمل میں نہیں لائی جارہی ہے ۔ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے تمام ریکارڈ توڑ ے جاچکے ہیں۔اس کے باوجودالمیہ یہ ہے کہ سرے سے ہی اس امر کا انکارہوتارہاہے کہ قابض بھارتی فوج کشمیریوں کی جبری گمشدگی میں ملوث نہیں۔دوسری طرف جن کے عزیز لاپتہ کئے گئے ہیںآنسوں بہابہاکر انکی آنکھیں پتھراچکی ہیں وہ اپنے عزیزوں کی واپسی کا انتظار کر رہے ہیں اوراپنے دروازوں پر گوش بر آواز ہیں کہ کہیں سے ان کا جگرپارہ واپس آکر انکو صدا دے ۔بلاشبہ کشمیرمیںجبری طورلاپتہ کئے گئے افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی تلاش میںجس کرب والم میںمبتلا ہیں اس کا اندازہ لگایا نہیں جاسکتا۔اگرچہ عالمی سطح پرکام کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیموں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پتہ لگائیں کہ کشمیرمیں جبری طور لا پتہ افراد کئے گئے لوگ کدھر ہیں۔وہ جاندار آوازبلند کر کے ملوثین سے اس کا جواب طلب کریں کہ کشمیر میں ہزاروںگمنام قبروں کے دریافت ہونے سے کشمیر کے لاپتہ افراداوران قبروںکے درمیان میں کہیں کوئی تعلق موجودتو نہیں ہے۔ معلوم نہیں کہ انسانی حقوق کا ڈھول پیٹنے والے ادارے کشمیر کے لاپتہ افراد کے بارے میں ڈھیلے پن کاشکار کیوں ہیں۔ کیا وہ دلی سے خوفزدہ ہیں یا پھر کشمیریوں کی تلاش میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔ انسانی حقوق میں سب سے زیادہ مقدم انسان کا حق آزادی اور حق خودارادی ہے۔ عالمی یوم گمشدگان کے موقعے پرکشمیرکے گمشدہ افراد کے اہل خانہ دنیائے انسانیت کے سامنے چِلا چِلا کراپنے عزیزوں کی بازیابی کی درخواستیں پیش کررہے ہیں لیکن تاحال ان بدنصیبوں کی صدائے احتجاج پر کسی نے کوئی کان نہیں دھرا ہے۔کشمیر پر عالمی سطح پر کی سرد مہری اورعدم توجہی کی وجہ سے عرصہ دراز سے بے بس کشمیریوں کوانصاف کی فراہمی نصیب نہیں ہوسکی۔ االمیہ ہے کہ برس ہا برس گذرنے کے باوجود کشمیر کے یہ خاندان بھارتی ظلم اورجبر کے شکار ہیں۔اس طرح ریاست جموں وکشمیرمیں بدترین انسانی حقوق کی پامالیاں رونما ہورہی ہیں اور مسلسل کشمیر میں انسانیت کی دھجیاں بکھیریںجارہی ہیں ۔ عالمی اداروں کی بے رخی سے کشمیری مسلمانوں کے دلوں میں یہ احساس پیدا ہورہا ہے کہ شاہد دینا کے کسی بھی کونے میں کوئی ایسالیڈر یا ملک نہیں ہے جو کشمیریوں کو بھارت کے چنگل سے آزاد کرنے میں مدد دے۔کشمیر ایک عرصے سے انسانی المیے کا سامنا کر رہا ہے۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ جب گمشدگان اور گمنام قبروں جیسے لرزہ خیز واقعات پر دنیا کے کسی جانب سے موثر انداز میں صدائے احتجاج بلند نہیں ہوتی تو کشمیر میں رد عمل بڑھنا فطری بات ہے کشمیر میں انسانوں کا قتل عام نظر آتا ہے نہ یہاں مظالم دکھائی دیتے ہیں۔ جبری گمشدگی بین الاقوامی قانون کے مطابق ایک سنگین جرم ہے اس جرم کے خلاف انٹرنیشنل کنونشن 20دسمبر 2006ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے ایک قانون منظور کر لیاہے جو متاثرین کے خاندانوں (reparations) حاصل کرنے کیلئے اور اپنے پیاروں کی گمشدگی کے بارے میں حقیقت جاننے اورانکی تلاش اوران کاسراغ لگانے کا حق فراہم کرتا ہے ۔کنونشن بہت واضح طور پر جبری گمشدگی کی تعریف بیان کرتا ہے اس کے مطابق ایسی گرفتاری، تحویل میں لینا یا اغوا کرنا یا کسی شخص کو آزادی سے محروم کرنا جو کہ ریاست کی طرف سے ہو ،اور اس کے نتیجے میں اس شخص کے بارے میں معلومات کسی کو بھی میسر نہ ہوں اور وہ شخص قانون کے دائرہ کار سے بھی باہر ہویہ جبری گمشدگی کہلاتی ہے۔کنونشن کے مطابق جبری گمشدگی کو کسی بھی قسم کے حالات چاہے حالت جنگ ہو یا جنگ کا خطرہ ہو، اندرونی سیاسی عدم استحکام ہو یا ایمرجنسی نافذہو ۔ ان میں سے کسی بھی شئے کو بنیاد بناکرجبری گمشدگی کو درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کنونشن کے مطابق ریاست لازمی طور پر ہرجبری گمشدگی کی ذمہ دارہوتی ہے اس لئے اسے بھی کنونشن میں فریق بنایا گیا ہے۔کنونشن میں بتایا گیاکہ ریاست اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کے فوجداری قوانین میںبھی جبری گمشدگی کو ایک جرم قرار دیا جائے۔ یعنی کہ اس میں ملوث شخص اور اس کے سپروائزر کو مجرم قرار دیا جائے اور کسی حکومتی اتھارٹی کے حکم یا ہدایت، چاہے وہ سول ہو یا فوجی، اس کی بنیاد پر کسی کی جبری گمشدگی کو درست قرار نہیں دیا جائیگا۔ کنونشن میں یہ بھی بتادیاگیاکہ جبری گمشدگی میں ملوث پایئے جانے والوںکی سزا طے کرتے وقت اس جرم کی انتہائی سنگینی کو ذہن میں رکھا جانا چاہئے۔ یعنی جتنایہ جرم تکلیف دہ ہے ملوثین کو بھی ایسی سزادی جائے تاکہ وہ کرب محسوس کر سکیں۔ یہ بات آسانی سے جانی جا سکتی ہے کہ جن ایشوز کا اس کنونشن میں ذکر کیا گیا ہے کشمیرمیںگذشتہ تیس برسوں سے یہ سارے ایشوزاٹھائے جا رہے ہیں۔ لیکن دلی کی سرکارنے کبھی اس پرتوجہ ہی نہ کی اوراس طرح یہ ظالمانہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ کوئی بھی ذی ہوش فرد اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتاکہ کشمیرمیں لاپتہ افراد کے سلسلے میں اقدامات نہ ہونے سے مجرموں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں ۔ بہرکیف ! عالمی اداروں کو چاہئے کہ وہ بھارت کواس امرکا پابندبنائیں کہ وہ عالمی کنونشن کے مطابق جبری گمشدگیوں کو سنگین جرم قرار دے اور اس میں ملوثین کیلئے کڑی سزائیں مقرر کی جائیں۔اس طرح کے اقدامات کئے بغیر جبری گمشدگیوں کو روکنامشکل ہے ۔ (ختم شد)