جس سودی سرمایہ دارانہ معیشت نے اپنے تحفظ کے لیے سیاسی جماعتوں اور گروہوں کی باہم چپقلش کی بنیاد پر ایک شاندار جمہوری نظام کو تخلیق کیا ہے وہ اس قدر سادہ تھے کہ اس کے ذریعے کسی نظریاتی طاقت کا اقتدار پر قابض ہونے کا خواب پورا ہونے دیں گے؟ جمہوریت کی اس دہلیز پر گزشتہ سو سالوں میں ہر نظریے نے سسک سسک کر جان دی ہے۔ جتنی دیر دنیا میں اس جمہوری نظام کو مستحکم ہوئے ہوئی ہے تقریباً اتنا ہی عرصہ گزشتہ دو صدیوں کو متاثر کرنے والے کیمونزم کو اپنی ریاست قائم کرتے ہوئے گزرا ہے۔ 1920ء کی دہائی میں عورتوں کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہوا اور یوں اہل، نااہل، صاحب علم، جاہل، چور، ڈاکو، لٹیرا، ایماندار، نیک اور پارسا برابری کی سطح پر صاحب الرائے ہو گیا۔ جمہوریت کے ترازو میں سب کے سب برابر ہو گئے۔ لیکن اس 1920ء سے تین سال قبل یورپ کے سب سے بڑے ملک روس میں 1917ء میں کمیونسٹ بالشویک انقلاب آچکا تھا لیکن چونکہ اس کمیونسٹ نظریاتی سیاست کی ضد ’’جمہوری نظام‘‘ یورپ، امریکہ اور دیگر علاقوں میں آہستہ آہستہ مستحکم ہورہا تھا اس لیے ان ملکوں میں کمیونسٹ نظریاتی سیاست کرنے والوں کا حکومت کرنے یا انقلاب لانے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ کارل مارکس، جس نے داس کیپٹل لکھ کر سرمایہ و محنت کی ایک نئی بحث چھیڑی، کمیونسٹ میسنی فیٹو لکھ کر ایک نظریاتی تحریک کی بنیاد ڈالی وہ جرمنی میں پیدا ہوا اور لندن میں انقلاب کا خواب آنکھوں میں لیے چونسٹھ سال کی عمر میں 14 مارچ 1883ء کو مر گیا۔ ویسٹ سنٹر ایبے کے قبرستان میں آج بھی اس کی قبر اس ناآسودہ خواہش کا نوحہ ہے کہ اس کی نظریاتی سیاست کے امین اور مشعل بردار ممالک جرمنی، فرانس اور انگلینڈ آج تک ایک کمیونسٹ انقلاب کو ترس رہے ہیں۔ کاش اسے علم ہوتا کہ سودی سرمایہ دارانہ معیشت نے جس جمہوریت کا پودا لگایا ہے وہ دراصل ایک آکاس بیل ہے جو بڑے سے بڑے نظریاتی درخت کو کھا جاتی ہے۔ نوازشریف کے فرشتوں کو بھی کیا خبر کہ نظریہ کیا ہوتا ہے۔ پیشہ ور تقریر سازوں کی پرچیوں پر لکھی تحریریں پڑھ کر گفتگو کرنے والے اور فیصل آبادی جگت بازوں کے بتائے ہوئے فقرے دہرانے والے کو کیا علم کہ نظریہ کیا ہوتا ہے۔ نوازشریف کے سیاست میں آنے سے 23 سال قبل 1958ء کے اکتوبر میں اسی نوازشریف کی طرح ایک اور سیاست دان نے فیلڈ مارشل ایوب خان کے مارشل لاء سے جنم لیا۔ یہ جنم بہت کمال کا تھا۔ 7 اکتوبر 1958ء کو اس سیاست دان ذوالفقار علی بھٹو کی ایرانی نژاد بیوی نصرت اصفہانی کی دوست ناہید کے خاوند سکندر مرزا نے جمہوری بساط لپیٹ کر ماشل لاء لگایا تو بھٹو کو وزیر تجارت بنایا۔ ٹھیک بیس دن بعد 27 اکتوبر کو جب پاکستان کے متنازعہ چیف جسٹس منیر نے مارشل لاء کے حق میں فیصلہ سنایا تو طاقت کے اصل مرکز و محور پاک فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان نے تختہ الٹ کر خود عنان اقتدار سنبھال لی لیکن سکندر مرزا کی کابینہ میں سے ذوالفقار علی بھٹو واحد شخص تھا جس نے ایوب خان کے دل میں بھی گھر کرلیا اور وہ 27 اکتوبر کی ایوب خان والی کابینہ میں بھی وزیر تھا۔ آکسفورڈ اور برکلے کا پڑھا ہوا یہ نوجوان نظریہ اور نظریاتی سیاست کو خوب جانتا تھا۔ اسے دنیا بھر میںانقلابات کی تاریخ ازبر تھی لیکن ایک فیوڈل گھرانے کی پیدائش نے اسے مفاد پرستانہ سیاست کے تمام گر سکھا دیئے تھے۔ جب برصغیر پاک و ہند میں کمیونسٹ پارٹی کے ارکان قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے تو ذوالفقار علی بھٹو اپنے والد سرشاہنواز بھٹو سے انگریز کی وفاداری اور جمہوری ریاست کے شاطرانہ دائو پیچ سیکھ رہا تھا۔ اس کی ٹریننگ اور اعلیٰ تعلیم نے سکھا دیا تھا کہ کس طرح ایک جمہوری سیاسی نظام میں نظریے کے چمتکار کو استعمال کر کے ووٹ بٹورے جاتے ہیں اور نظریے کو دفن کر کے اس کا صرف مرثیہ گایا جاتا ہے۔ اسی لیے جب وہ ایوب خان حکومت سے علیحدہ ہو کر 1967ء میں پیپلزپارٹی بنانے لگا تو اس نے اس دور کے مقبول ترین نظریے کمیونزم اور سوشلزم کو اپنا ہتھیار بنایا۔ کسان اور مزدور کی بادشاہت کے خواب بیچے۔ کمیونسٹ تحریک کے گزشتہ سو سال اس کے اس نعرے کی جھولی میں آ گرے۔ کیسے کیسے نظریاتی لوگ تھے جو اس کے حلقہ بگوش ہو گئے، جے اے رحیم، بابائے سوشلزم شیخ رشید، معراج محمد خان، ڈاکٹر مبشر حسن، حنیف رامے، غرض ہر شہر کا نظریاتی کمیونسٹ ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری سیاست میں اپنا انقلاب دیکھنے لگا۔ اس کے نعروں کی گونج میں عوامی سیلاب امڈ پڑا۔ انتخاب نزدیک ہوئے تو سندھ کے وڈیروں رسول بخش تالپور، محترم طالب المولیٰ، غلام مصطفی جتوئی سے لے کر بلوچستان کے نواب غوث بخش رئیسانی اور پنجاب کے غلام مصطفی کھر تک سب کے سب ’’نظریاتی انقلابی‘‘ ہو گئے۔ سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور سرداروں کی ایک طویل فہرست تھی جو سرمایہ داری اور جاگیرداری نظام کو دفن کرنے کے نعرے لگاتی تھی اور پورے کا پورا جمہوری نظام ان منافقوں پر قہقہے لگاتا تھا کہ دیکھو یہ لوگ کس طرح عام آدمی کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ اس جمہوری نظام کو علم تھا کہ وہ تو جرمنی، فرانس، انگلینڈ، اٹلی اور سپین کی بڑی بڑی کمیونسٹ نظریاتی تحریکوں کو کھا گیا۔ کارل مارکس نے اس جمہوری نظام کے بارے میں ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ جب سودی سرمایہ دارانہ معیشت کے مظالم سے لوگ تنگ آ جاتے ہیں اور وہ اسے بدلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور پورا معاشرہ ایک غبارے کی طرح پھول جاتا ہے اور وہ پھٹنے کو تیار ہوتا ہے تو الیکشن کی گہما گہمی اور ووٹ کی حرمت و افادیت اس غبارے میں سے ہوا نکال دیتی ہے۔ لوگ پھر اپنے ووٹ سے بننے والے ’’آقائوں‘‘ سے نئی امیدیں لگا لیتے ہیں اور یہ جمہوری نظام اپنی ’’ماں‘‘، سودی سرمایہ دارانہ معیشت کے تحفظ میں پھر سرگرم عمل ہو جاتا ہے۔ اقبال نے اس جمہوری سیاست کو جس طرح نظریہ، خواب، خواہش، آرزو اور تبدیلی کی موت کہا ہے وہ کمال ہے۔ خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری ہے وہی ساز کہن، مغرب کا جمہوری نظام دیو استبداد، جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے، یہ آزادی کی ہے نیلم پری اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو آہ اے ناداں، قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو سودی سرمایہ دارانہ معیشت کے پہرے دار جمہوری نظام کی دہلیز پر دنیا کے ہر نظریے نے تڑپ تڑپ کر جان دی ہے۔ کمیونزم روپ بدل کر آیا، سیاسی پارٹیاں بنائیں، الیکشن جیتے لیکن اقتدار میں آ کر اسے علم ہوا کہ وہ تو اس عالمی مالیاتی نظام کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے جس کے تحفظ کے لیے اقوام متحدہ سے لے کر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک اسے سانس بھی لینے نہیں دیں گے۔ ایک ہی مطالبہ ہے کہ جتنی تبدیلی کی ہم اجازت دیں گے بس اتنی ہی تبدیلی ہوگی ورنہ بوریا بستر گول کردیں گے۔ دیکھا نہیں ہم نے الجزائر کے اسلامی فرنٹ کا کیا حشر کیا۔ ہم نے مرسی کو اس مصر میں قید کر کے دکھا دیا جہاں سے وہ 65 فیصد ووٹ لے کر آیا تھا۔ ہم نے سپین، پرتگال اور یونان کے انقلابیوں کو کیسے بھوک کا تحفہ دیا۔ وہ پاکستانی جمہوریت جس میں ذوالفقار علی بھٹو جیسا شخص اپنے وقت کے سب سے مقبول نظریے کمیونزم اور سوشلزم کو کھا چکا ہو، اس کا مزار بنا چکا ہو اور اس کی پارٹی کے نظریاتی کارکن اس موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہ جائیں وہاں سراج الحق صاحب کی سیاست انہیں مفاد پرست سیاست کے چیمپئن مولانا فضل الرحمن سے بغل گیر کروا دیتی ہے اور اس کے باوجود دونوں اس ملک میں نظریاتی سیاست کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ نوازشریف کا تو کیا رونا کہ اسے تو نظریہ کے لغوی معنی تک نہیں آتے۔ آپ تو سید ابو الاعلیٰ مودودی سے لے کر اخوان اور دیگر عالمی تحریکوں کے وارث ہو۔ آپ بھی کل اس جمہوری نظام کی دہلیز پر نظریے کی موت کا ماتم کرو گے، پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔