یہ پی ٹی وی ایوارڈ شو تھا یا ویسے ہی پی ٹی وی کی کوئی تقریب تھی ، گلوکار عالمگیر نے گانا گایا،’’میں نے تمہاری گاگر سے کبھی پانی پیا تھا ، پیاسا تھا میں یاد کرو، سن لوذرا گوری ،تم شرما کے تھوڑا سا بل کھائی تھیں، وہ دن یاد کرو،گوری تم وہ دن یاد کرو،…۔‘‘عالمگیر کا یہ گیت سپر ہٹ ثابت ہوا۔ اگلے دن ہر طرف سنا جانے لگا۔ عالمگیر کا ایک اور گانا اس سے پہلے بہت مشہور ہوچکا تھا،’’دیکھا نہ تھا کبھی ہم نے یہ سماں…۔‘‘یہ نغمہ میگا سپر ہٹ تھا،اس زمانے میں لاکھوں نوجوانوں نے اس گانے کو بے شمار بار سنا، گایا۔ یہ کالم لکھنے سے پہلے اپنے ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر پر پہلے یہ دونوں نغمے سنے ۔مسحور ہو گیا۔سوال یہ ہے کہ اتنے خوبصورت سریلے گیت گانے والا عالمگیر کہاں کھو گیا؟طویل عرصہ ان کا نام ہی سننے میں نہیں آیا۔وہ غالباً امریکہ یا کینیڈا منتقل ہوگئے تھے ۔ پچھلے دنوںعالمگیر کی خبریں چھپیں ، وہ بھی علالت کے بارے میں۔ وہ پاکستان لوٹ آئے ہیں۔ اللہ انہیں شفایاب کرے۔ ہمارے ماضی کا بڑا حسین حصہ ان کی یادوں سے رچا بسا ہے۔ محمد علی شہکی اور سندھی لوک فنکار علن یا الن فقیر کا دوگانہ (ڈویٹ)’’اللہ اللہ کر بھیا، اللہ ہی سے ڈر بھیا‘‘ کسی بدنصیب ہی نے نہیں سنا ہوگا۔ کیا خوبصورت دھن اور سندھی اردو شاعری کا کیسا دلکش امتزاج تھا،’’ہو اللہ،ہو اللہ،ہما ہما پیاری، او سیانی، گجرن، بھل بھٹاری… تیرے عشق میں جو بھی ڈوب گیا اسے دنیا کی لہروں سے ڈرنا کیا، ہما ہما چل بھئی چل، ٹھمک ٹھمک تا تھیا…‘‘یہ کراچی ٹی وی کے پروگرام رنگ ترنگ(1986)میں پیش ہو۔ پی ٹی وی کی ایک بہت ٹیلنٹڈ اور ذہین سینئر پروڈیوسر ساحرہ کاظمی کا یہ آئیڈیا تھاکہ شہکی اور علن فقیر کو اکٹھا گوایا جائے۔ محمد علی شہکی کا عالمگیر والا حال ہوا۔منظر سے غائب ہوگئے۔ برسوں باہر مقیم رہے، پاکستان کبھی کبھار چکر لگتا رہتا ہے۔ عالمگیر اور شہکی کے کچھ بعد کی مثال گلوکار سجاد علی ہیں۔ کیسے کیسے خوبصورت گانے اس سریلے فنکار نے دئیے۔ ایک زمانے میں ان کی کیسٹیں بڑی ہٹ ہوتی تھیں۔ سجاد علی اس زمانے کے مقبول ترین گلوکاروں میں تھے۔ ان تینوں گلوکاروںسے چند سال بعد ایک کیوٹ سے نوجوان علی حیدرنے انٹری دی۔ ’’پرانی جینز اور گٹار‘‘، ظالم نظروں سے تم نہ مجھ کو دیکھو، مر جائوں گا(1996)۔پھر ایک ایسی آندھی آئی کہ سجاد علی، علی حیدراور ان کے ساتھ کے گلوکاروں کی پوری نسل اس کے گرد وغبار کے پیچھے اوجھل ہوگئی۔ ان میں ندیم جعفری بھی تھے،خاصے صحت مند۔ لہک لہک کر ان کا گایا ہوا ایک نغمہ میں نے ایک کیسٹ میں یوں ریکارڈ کرایا کہ دونوں سائیڈز میں وہی بار بار چلتا رہتا۔معلوم نہیں ندیم جعفری آج کل کہاں ہیں؟ کبھی ذکر ہی نہیں سنا۔ ان کے دوست فخر عالم تو گلوکاری ، سے سپورٹس کمنٹری اور پھر سیاست میں بھی انٹری مار چکے ہیں۔ ایک زمانے میں سنا تھاکہ فخر عالم نوجوان بلاول کے یکے از اتالیق ہیں، واللہ اعلم۔ سوال یہ ہے کہ ان سب کے ساتھ ایسا کیا ہوا کہ اچانک سب غیر متعلق (Irrelevent) ہوگئے؟ کیا کسی تیز جھونکے سے وقت کی کتاب کے اگلے ورق پلٹ گئے اور یہ پچھلے باب کا حصہ بنے رہے؟ان سب کے ساتھ شوکت واسطی کے مشہور شعر کا معاملہ ہوا،ع شوکت ہمارے ساتھ بڑا حادثہ ہوا ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا چند ایک استثنائی مثالیں بھی ہم دیکھتے ہیں۔ جنید جمشید کے وائٹل سائنز نے تہلکہ مچایا، وہ خود تو تبلیغی جماعت کا حصہ بنے اور موسیقی کی دنیا سے الگ ہوگئے، آخری عرصے میں چند نعتیں ضرور گائیں۔ جنید کے ساتھیوںنے اپنی اپنی جگہ نام بنایا، پہلے جنون کے پلیٹ فارم سے اور پھر انفرادی طور پر شناخت بنائے رکھی، کوک سٹوڈیو وغیرہ میں بھی اِن رہے۔ نازیہ حسن ایک شاندار استثنا تھیں۔ ان کا پہلا گانا بھارتی فلم کے ذریعے حیران کن ہٹ ہوا، آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے…۔ ‘‘ اتنے بڑے ہٹ گانے کے بعد فنکاروں کے لئے مشکل پیدا ہوجاتی ہے، نازیہ حسن نے اچھا کام کیا اور جب لوگ انہیں بطور گلوکارہ بھلانے والے تھے، تب ایک سدا بہار قسم کا پنجابی گیت پی ٹی وی پر گا کر اپنے مداحین کو فسوں زدہ کر دیا،’’ٹالی دے تھلے بہہ کے کرئیے پیار دیاں گلاں…۔‘‘ یہ سب تو ہماری مقامی مثالیں ہیں، وہ بھی میرے بچپن، لڑکپن کے زمانے کیں۔ سب سے بڑی اور انوکھی مثال شہرہ آفاق عالمی میوزک گروپ بیٹلز کی ہے۔ بیٹلز نے ساٹھ کے عشرے کے اواخر اور ستر کے عشرے میں دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا۔ یہ دنیا کا مقبول ترین بینڈ تھا۔ میں نے سکول کے زمانے میں بیٹلز کے بارے میں بہت کچھ پڑھا، کئی مشہور بائیوگرافیز میں اس کاتذکرہ تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ شائد اس گروپ کے فنکار دنیا سے چلے گئے ، اس لئے کوئی نام نہیں لیتا۔ برسوں بعد میں پتہ چلا کہ بیٹلز تو ختم ہوگیا، مگر اس کے فنکار وں میں سے بعض اس کے بعد تین عشروں تک رہے۔ ابھی بھی ایک دو حیات ہوں گے۔ ماہرین فن جانتے ہوں گے کہ ایک مقبول ترین بینڈ کیسے ختم ہوا اور اس کے فنکار بھی اپنی ماضی کی اساطیری شہرت سے بہت نچلے درجے کی شہرت اورمعیار کے ساتھ زندہ رہے۔ میرے لئے یہ ایک مسٹری ہی ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں۔ رجحانات بدل جانا، فنکاروں کے باہمی اختلافات، کسی ایک فعال ساتھی کا دنیا سے رخصت ہونا اور شائد کہیں پر تخلیقی بنجر پن بھی وجہ بن جاتی ہے۔ تیقن کے ساتھ کہنا مشکل ہے کہ ذمہ دار فنکار خود ہیں یا سماج ؟ فنکاروں کی مثالیں زیادہ آ گئیں، بعض اور شعبوں میں بھی ایسا ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ کھلاڑیوں کے ساتھ بھی ایسا ہوجاتا ہے۔ ایسے کئی کرکٹر ہیں جن کا آغاز شاندار تھا،حیران کن پرفارمنس اور پھر سال دو کے اندر ہی وہ کھلاڑی غائب ہوگیا۔کئی بار کوچز، ٹیم مینجمنٹ اور کرکٹ بورڈ ذمہ دار ہوتے ہیں اور بہت بار کھلاڑی کا اپنا قصور بھی کم نہیں رہتا۔ وہ اپنی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ کھیل کا سٹائل تبدیل ہوگیا، جیسے آج کل ٹی ٹوئنٹی نے نقشہ ہی بدل دیا ہے، کئی کھلاڑی اپنے آپ کو وقت کے ساتھ تبدیل کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں کر پاتے۔ وقت انہیں غیر متعلق کر دیتا ہے۔ ایسا لکھاریوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ قارئین کا ذوق اور عمومی رجحان بدل گیا، مگر کچھ لکھنے والے اپنے پرانے انداز سے لگے رہتے ہیں۔شائد وہ سمجھتے ہیں کہ قاری کو ان کا ساتھ دینا چاہیے نہ کہ وہ قاری کے لئے تبدیل ہوں۔ عام طور سے ایسے رائٹرز کے ساتھ پھر وقت زیادہ اچھا سلوک نہیں کرتا۔ ایک بڑا فیکٹر بڑھتی یا ڈھلتی عمر کے ساتھ پیدا ہونے والی جسمانی کمزوری بھی ہے۔اچھا اور بڑا لکھنے کے لئے ذہنی عرق ریزی کے ساتھ جسمانی محنت بھی درکار ہے۔ عمر، بیماریاں اور معاشی مجبوریاں بھی لکھنے والوں کو آخر تک لکھتے رہنے پر آمادہ رکھتی ہیں۔ ظاہر ہے وہ معیار نہیں رہتا۔ لاہور کے ایک ممتاز اور مقبول کالم نگارنے اپنے آخری آٹھ دس برسوں میں جو لکھا، وہ ان کا اسلوب ہی نہیں تھا۔ انہوں نے بڑے معرکتہ الآرا قسم کے ٹی وی ڈرامے لکھے، جنہوں نے غیر معمولی عوامی مقبولیت حاصل کی۔ عام فہم عوامی انداز میں لکھتے تھے، مگر آخری برسوں میں نجانے کن معاشی فلسفوں اور مارکسی تھیوریز کو لکھتے رہے، یہ کہہ لیں کہ ان کے نام سے وہ تحریریں چھپتی رہیں۔ افسوس ہوتا تھا ۔ ایسی ایک مثال فیض احمد فیض کے داماد اور سلیمہ ہاشمی کے خاوند شعیب ہاشمی کی ہے۔ایک زمانے میں انہوں نے بچوں کے لئے بہت مقبول ٹی وی پروگرام کئے تھے، اکڑ بکڑ، ٹال مٹول وغیرہ۔ان کا وہ فسوں ہم نے سنا، دیکھ نہیں پائے۔شعیب ہاشمی کی ذہانت، تخلیقی اپج کی بڑی تعریف سنی تھی، نجانے کیوںسب کچھ سے دست بردار ہوگئے۔ بعد میں ایک انگریزی اخبار میں کالم بھی لکھتے رہے، بڑے اشتیاق سے پڑھا، مگربات بنی نہیں۔ ضیا دور میں ان پر پابندی ہوگی، مگر اس کے بعدانہیں بہت وقت ملا۔پتہ نہیں کیا ذہنی بیرئر آ یا تھا کہ شعیب ہاشمی جیسا شاندار تخلیق کار اپنے سفر کو جاری نہ رکھ پایا۔ چند دن پہلے فاروق قیصر کا انتقال ہوا۔ میری نسل کی بہت حسین یادیں ان کے ساتھ وابستہ ہیں۔’’ پتلی تماشا ‘‘کون بھلا سکتا ہے۔ انکل سرگم، ماسی مصیبتے ، چونی سیٹھ، بونگا بخیل اور کئی کرداروں نے دو نسلوں کو محظوظ کیا۔ فاروق قیصر کا اپنا ہی سٹائل تھا،پروگرام میںمشاعرے کا تڑکا بھی لگاتے ۔وہ بھی بدلتے رجحان کا شکار ہوئے یا اپنے خاص حصار سے نہ نکل پائے۔ چار پانچ سال پہلے کسی نجی چینل پر ان کا پروگرام شروع ہوا، دلچسپی سے دو تین شو دیکھے۔ مایوسی ہوئی ، وہ ابھی تک اپنے پرانے سٹائل اور فارمیٹ کے اسیر تھے۔ اندازہ ہوگیا کہ زیادہ نہیں چلے گا۔ یہی ہوا۔ آخری دس پندرہ برس انہوں نے بطور صحافی گزارے ، کالم لکھے، کارٹون بنائے۔ اچھا کام تھا، مگر جس اعلیٰ تخلیقی سطح پر انہوں نے پتلی تماشا چلایا،اس کی بمشکل ایک جھلک نظر آئی۔ میں ان کا مداح ہوں،ان پر تنقیدکرنا مقصود نہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس میں ہمارا سماج بھی قصوروار ہے کہ وہ اپنے بڑے تخلیق کاروں کو ساتھ لے کر نہیں چلتا۔ناکارہ سمجھ کر پیچھے چھوڑ دیا جاتا ہے۔حساس فنکار، تخلیق کار اس صدمے ہی سے جانبر نہیں ہوسکتے۔ زندہ بھی رہتے ہیں تو ذہنی اور فکری سطح پرکونپلیں مرجھا جاتی ہیں۔