خبروں کے مطابق’’ الیکشن کمشن آف پاکستان کے پاس رجسٹرڈ 122 سیاسی جماعتوں میں سے 95 سیاسی جماعتوں نے 25 جولائی کے عام انتخابات میں حِصّہ لِیا، جن میں سے صِرف 12 سیاسی جماعتیں قومی اسمبلی میں پہنچ سکیں۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں 5 ، بلوچستان اسمبلی میں 10 ، پنجاب اسمبلی میں 5 اور سندھ اسمبلی میں 6 سیاسی جماعتیں پہنچ سکی ہیں۔ الیکشن کمِشن کے پاس جنابِ ذوالفقا ر علی بھٹو کی یادگار ’’پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ کے نام سے چار سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں ۔ بلاول بھٹو زرداری کے چیئرمین شِپ میں پاکستان پیپلز پارٹی ، آصف زرداری کی صدارت میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز، محترمہ غنویٰ بھٹو کی چیئرپرسن شِپ میں پاکستان پیپلز پارٹی ( شہید بھٹو گروپ )اور ڈاکٹر صفدر علی عباسی کی صدارت میں ’’پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ (ورکرزگروپ )۔ میرا موضوع صِرف نواسۂ بھٹو بلاول بھٹو زرداری کی چیئرمین شِپ میں ’’پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ ( پی۔ پی۔ پی ) ہے اور دامادِ بھٹو آصف زرداری کی صدارت میں ’’پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ‘‘( پی۔ پی۔ پی۔ پی) ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کو انتخابی نشان تلوار ( Sword) الاٹ کِیا تھا اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کو ’’ تیر ‘‘ (Arrow) ۔دونوں پارٹیوں کی الگ الگ تاریخ ہے ۔ جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کے دو اڑھائی سو دوستوں اور عقیدت مندوں نے 30 نومبر 1967ء کو لاہور میں جمع ہو کر ’’جناب ذوالفقار علی بھٹو کی چیئرمین شپ میں ’’پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ قائم کی تھی ۔ بعد ازاں ، پارٹی کے دوسرے عہدیدار ( اوپر سے نیچے تک ) جنابِ بھٹو یا اُن کے نامزد کردہ عہدیداروں نے نامزد کئے تھے ۔ جنابِ بھٹو نے ، قصور کے رُکن قومی اسمبلی احمد رضا خان قصوری کے والد نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے بڑے ملزم کی حیثیت سے گرفتار ہو کر جیل جانے سے پہلے ، اپنی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو کو پارٹی کی چیئرپرسن نامزد کردِیا تھا۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد ، چیئرپرسن بیگم نصرت بھٹو نے اپنی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کو پارٹی کی شریک چیئرپرسن نامزد کردِیا تھا ( حالانکہ پارٹی کے منشور میں شریک چیئرپرسن کا کوئی بھی عہدہ نہیں تھا) ۔ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَورمیں 10دسمبر 1993ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس طلب کر کے چیئرپرسن بیگم نصرت بھٹو ( اپنی والدۂ محترمہ )کو برطرف کر کے خُود چیئرپرسن شِپ سنبھال لی تھی۔ 18 دسمبر 1987ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی آصف زرداری صاحب سے شادی ہُوئی ۔ 27 دسمبر 2007ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل ہُوا۔ قابل ذِکر بات یہ ہے کہ ’’ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں ، اپنے شوہر نامدار ؔکو ، پاکستان پیپلز پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا۔ 10 اکتوبر 2002ء کے عام انتخابات سے پہلے ، محترمہ بے نظیر بھٹو کی ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس رجسٹرڈ نہیں تھی، چنانچہ اُنہوں نے ، بھٹو خاندان کے دو وفاداروں، مخدوم امین فہیم اور راجا پرویز اشرف کی چیئرمین شِپ اور سیکرٹری جنرل شِپ میں ایک نئی پارٹی رجسٹرڈ کرائی ، جس کا نام تھا / ہے ’’ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز‘‘ (پی۔ پی۔ پی۔ پی) ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے (پی ۔ پی۔ پی۔ پی) کو انتخابی نشان ’’ تیر‘‘ ( Arrow) الاٹ کِیا گیا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد ، جنابِ آصف زرداری نے ( اپنی مقتولہ اہلیہ کی مبینّہ وصیت کے مطابق) اپنے 19 سالہ بیٹے بلاول زرداری کو ’’ بھٹو‘‘ کا خطاب دے کر پاکستان پیپلز پارٹی ( پی۔ پی۔ پی) کا چیئرمین نامزد کردِیا اور خُود اُس کے ماتحت شریک چیئرپرسن کا عہدہ سنبھال لِیا ۔ اُسی وقت جنابِ زرداری نے یہ اعلان بھی کِیا کہ ’’ پاکستان پیپلز پارٹی کو بھاری مینڈیٹ ملنے کی صُورت میں ، مخدوم امین فہیم وزیراعظم ہوں گے ‘‘ ۔ 18 فروری 2008ء کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کو بھاری مینڈیٹ مِلا تو"Non Graduate" آصف علی زرداری صدرِ پاکستان منتخب ہوگئے لیکن، اُنہوں نے وزیراعظم سیّد یوسف رضا گیلانی کو منتخب کرادِیااور جب سپریم کورٹ نے اُنہیں نااہل قرار دِیا تو، راجا پرویز اشرف کو ۔ مخدوم صاحب راجا صاحب کے ماتحت بھی وزیر ہی رہے؟۔ جناب آصف زرداری صدرِ پاکستان تھے جب، لاہور ہائیکورٹ کے لارجر بنچ نے دو عہدے رکھنے پر توہین عدالت کیس کی سماعت کے دَوران 17 مارچ 2013ء کو حکم دِیا تھا کہ ’’ صدر آصف علی زرداری آئندہ سماعت (29 مارچ) تک سیاسی عہدہ چھوڑ دیں ورنہ عدالت فیصلہ کرے گی! ‘‘۔ صدر زرداری نے حکم کی تعمیل کی، چنانچہ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے (جس کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری تھے) 22 مارچ کو اعلان کِیا گیا کہ ’’ صدر زرداری نے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن کا عہدہ چھوڑ دِیا‘‘۔ اعلان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’’ بلاول بھٹو زرداری اب ، پاکستان پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ ہوں گے اور پنجاب کے سابق گورنر جناب لطیف کھوسہ سیکرٹر ی جنرل‘‘۔ اعلان میں وضاحت نہیں کی گئی تھی کہ ’’بلاول بھٹو زرداری تو اُس پارٹی کے سرپرست بن گئے لیکن، پارٹی کا چیئرمین کون ہوگا؟‘‘ ۔ قبل ازیں صدر زرداری کے خلاف دو عہدے رکھنے پر توہین عدالت کیس کی سماعت کے دَوران 6 فروری 2013ء کو صدر آصف زرداری کے وکیل جناب وسیم سجاد نے لاہور ہائیکورٹ کے روبرو یہ مؤقف اختیار کِیا تھا کہ ’’ صدر آصف علی زرداری جس پارٹی ( پاکستان پیپلز پارٹی ) کے شریک چیئرپرسن ہیں وہ سیاسی جماعت نہیں اور نہ ہی فعال ۔ اِس پارٹی کو پرائیویٹ ایسوسی ایشن کہنا ہی مناسب ہوگا۔ اِس وقت جو ، پارٹی حکومت میں ہے وہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز (پی۔ پی۔ پی۔ پی) ہے جِس کے چیئرمین مخدوم فہیم ہیں اور سیکرٹری جنرل راجا پرویز اشرف‘‘ ۔ 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات میں بھی ، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) نے ہی حصّہ لِیا۔ مخدوم امین فہیم 21 نومبر 2015ء کو انتقال کر گئے تو، جنابِ آصف زرداری نے ’’ پی۔ پی۔ پی۔ پی‘‘ کی چیئرمین شِپ کے بجائے اُس کی صدارت ؔ کا عہدہ قبول کرلِیا۔ 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس دو الگ الگ سیاسی جماعتیں ’’پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ ( پی۔ پی۔ پی) اور ’’ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز‘‘ ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) رجسٹرڈ کرائی گئیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی ( پی ۔ پی۔ پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہیں اور ’’ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز‘‘ ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) کے صدر ؔجناب آصف علی زرداری ۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے ’’پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ کو انتخابی نشان ’’تلوار‘‘ (Sword ) الاٹ کِیا گیا اور ’’ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز‘‘ ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) کو ’’ تیر‘‘ (Arrow) ۔ یاد رہے کہ ’’ 1970ء کے عام انتخابات میں ، جناب ذوالفقار علی بھٹو نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کا انتخابی نشان اپنے نام کی مناسبت سے ’’ذوالفقار علی ‘‘ (علی کی تلوار) کے حوالے سے ’’ تلوار‘‘ (Sword) منظور کرایا تھا اور اُسی انتخابی نشان پر پاکستان پیپلز پارٹی نے مارچ 1977ء کے انتخابات میں بھی حصّہ لِیا۔ سوال یہ ہے کہ ’’ اگر محترمہ بے نظیر بھٹو زندہ ہوتیں تو، کیا وہ اپنے والد (مرحوم) ذوالفقار علی بھٹو کی یادگار ’’پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ کا انتخابی نشان ’’ تلوار‘‘(Sword) پسند کرتیں یا مخدوم امین فہیم کی پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کا انتخابی نشان ’’تیر‘‘ (Arrow) ؟۔ صُورت حال یہ ہے کہ اِس وقت سینٹ آف پاکستان ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں جنابِ آصف علی زرداری کی صدارت میں سرگرم عمل ’’پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ‘‘ ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) کے منتخب ارکان تو ہیں لیکن، ’’قائد عوام ‘‘ اور ’’ فخر ایشیا ‘‘ کہلانے والے ، پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین (مرحوم ) ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی ’’پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ (پی۔ پی۔ پی) تو، سینٹ ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے غائب ہی ہوگئی ہے۔ ’’ اِک زرداری سب پر بھاری ‘‘ کا نعرہ تو بہت عام تھا لیکن، کیا جنابِ زرداری اپنے اکلوتے ’’ فرزند ِ ارجمند‘‘ پر بھی بھاری ہیں ؟۔