زمانہ ہارنے والوں کا ماتم نہیں جیتنے والوں کے گیت گاتا ہے۔ ریاستوں کے تعلقات جذبات اور مہربانی پر نہیں باہم مفادات کی بنیادوں پراستوار ہوتے ہیں دنیا بھر کی حکومتیں اور ان کی ریاستی مشینری دیگر ریاستوں سے تعاون بڑھانے کے لئے اختلافات اور تضادات میں مفادات تلاش کرنے پر توانائی صرف کرتی ہیں‘ ایسی ہی ایک کوشش وزیر اعظم عمران خان کی عسکری قیادت کے ساتھ دورہ امریکہ کے دوران ثمرآور ہوئی۔ پاکستانی قیادت کے دورہ امریکہ کی کامیابیوں نے عالمی منظر نامے پر ہلچل مچائی تو ہمسایہ ملک بھارت میں طوفان برپا کر دیا۔ ملکی اور غیر ملکی دانشوروں نے پاکستانی قیادت کے کامیاب دورہ امریکہ کا اپنے اپنے انداز میں تجزیہ کیا اور اسباب و وجوہات تلاش کرنے کی یہ کوشش اب بھی جاری ہے۔ گلوبل ریسرچ کے جنوب ایشیائی کے امور کے ماہرمحقق ایڈم گری نے اس کامیابی کو وزیر اعظم عمران خان اور امریکی صدر ٹرمپ کی شخصیت اور حالات کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی اور لکھا کہ عمران خان اور ٹرمپ دونوں ہی اقتدار میں آنے سے پہلے شہرت کی بلندیوں کو چھو چکے تھے اور ان کا مقابلہ بھی اپنے اپنے ملک کی سیاسی اشرافیہ کے ساتھ تھا۔ گری نے عمران خان کے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی باریاں توڑ کر اقتدار کی راہ بنانے کی بات کی تو ٹرمپ کے بھی بش اور کلنٹن خاندانوں کے حصار کو چیر کر راستہ بنانے کا ذکر کیا۔ ان کے خیال میں عمران خان اور ٹرمپ کے پاس حالات کا رخ موڑ کر مسائل اور چیلنجز کا سامنا کرنے اور کامیاب ہونے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔ اس لئے انہوں نے رائے عامہ کے خلاف تنازعات اور مسائل کو حل کرکے اپنی اہلیت ثابت کرنے کی کوشش کی۔ کامیابی اس قدر غیر متوقع تھی کہ برطانیہ کے ایک نشریاتی ادارہ نے وزیر اعظم کی خوش بختی کا راز جاننے کے لئے کپڑے سینے والا درزی کھوج نکالا۔ کامیابی کا نظارہ کرنے والی کروڑوںآنکھوں میں ایک کیمرے کی آنکھ نے بھی ایک لمحہ محفوظ کر لیا جس میں پاکستان کا سپہ سالار وزیر اعظم کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ اگلے روز یہ تصویر دنیا بھر کے میڈیا میں بغیر کسی کیپشن کے شائع ہوئی کیونکہ تصویر خود بول رہی تھی کہ ایک جنرل کے لبوں پر ایسا تبسم اور آنکھوں میں چمک صرف اسی وقت نمودار ہوتی ہے جب اس نے گھمسان کے رن کے بعد میدان مار لیا ہو۔ گلف نیوز کے ڈپٹی ایڈیٹر صادق سبحان نے ٹرمپ عمران ملاقات کے دوران ٹرمپ کے ثالثی کے بیان کو مودی سرکار پر بم شیل سے تعبیر کیا۔ ان کے خیال میں دنیا کی واحد امریکی سپر پاور کے صدر سے بھارتی وزیراعظم کی کشمیر پر ثالثی کی درخواست کے انکشاف نے مودی کے لئے پارلیمنٹ کے باہر اور پارلیمنٹ کے اندر مسائل کا پہاڑ کھڑا کر دیا ہے جو وزیراعظم پاکستان کی شخصیت کے سحر کے سوا کچھ نہیں۔ صادق سبحان نے بھارت کے ثالثی سے انکار کو مسترد کرتے ہوئے کارگل جنگ میں امریکی مداخلت کو ثالثی سے ہی تعبیر کیا ہے۔ کامیابی کا ایک راز وزیر اعظم نے خود بھی افشا کیا کہ پاکستان کا تو پہلے ہی یہ موقف تھا کہ افغانستان میں امن طاقت سے نہیں تمام سٹیک ہولڈرز کو مذاکرات کی میز پر لانے سے آئے گا۔ امریکہ کی سمجھ میں یہ بات اب آئی ہے تودونوں ممالک میں مثبت ورکنگ ریلیشن شپ کی امید پیدا ہوئی ہے۔ یہ تو ایک پہلو ہے ! سچ اس کے سوا بھی ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں ہماری حکومتوں نے کھلے دل سے معاملات کو سمجھنے اور سمجھانے کی سعی ہی نہیں کی۔1988ء سے 1998ء تک باریاں لینے والے حکمران اپنی توانائیاں اپوزیشن کو سکیورٹی رسک ثابت کرنے اور اپنے اقتدار کو طول دینے پر صرف کرتے رہے۔ پھر حالات نے دونوں کو اقتدار کی رنگ سے نکال باہر پھینکا تو جلا وطنی میں خود احتسابی پر مجبور ہوئے۔مگر خود احتسابی بھی کیسی؟ اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں پر نظرثانی کے بجائے قومی سلامتی کے اداروں کو کمزور کرنے کا میثاق کرلیا۔ پہلے باری لینے والوں نے پاکستان کو افغانستان سے آنے والی آگ اور بارودکے رحم پر چھوڑا اور امریکی سفارت خانے اور سفارت کار کو قومی اداروں کو کمزور کرکے جمہوریت کو مضبوط کرنے کا ہنر آزمایا۔ ریاستی مفاد پر توجہ نہ دی۔ میثاق کے دوسرے چمپئن کی باری آئی تو اس نے براہ راست پنجہ آزمائی کا راستہ منتخب کیا۔ ڈان لیکس سے بات پاناما لیکس تک پہنچی اور موصوف وزیر اعظم ہوتے ہوئے ملزم سے مجرم ثابت ہوئے ‘ووٹ کو عزت دو کا کوسنا کوسنے لگے۔ ملک معاشی خارجی اور داخلی محاذ پر بحرانوں کا شکار ہوتا گیا۔ قوم میں سیاسی اشرافیہ کے بارے میں مایوسی بڑھتی گئی۔ ان حالات میںنئے پاکستان کی خوش کن آواز نے عوام کو متوجہ کیا۔ عوام نے 2018 ء کے عام انتخابات پر تیسری قوت کو آزمانے کا فیصلہ دیا اور عمران خان کو مسائل میں گھرا پاکستان ملا۔ وزیر اعظم نے پہلے آٹھ ماہ تک مسائل کو سمجھنے اور اداروں کے ساتھ باہمی تال میل بنانے کے لئے چلا کاٹا اور عسکری قیادت کے ساتھ خلوص نیت اور منظم انداز میں آگے بڑھنے کی حکمت عملی طے کی۔ سچ جانئے پاکستان کی کامیابی اسی خلوص اور اداروں کے باہم اعتماد اور تعاون کا ثمر ہے مگر یہ منزل نہیں محض نشان منزل ہے۔ ترقی و خوشحالی کے لئے ابھی بہت سے آگ کے دریا آپ کے منتظر ہیں ہمت کیجیے اداروں کو کمزور کرنے کے بجائے اسی طرح اپنی قوت بنا کے رکھیے دنیا ہارنے والوں کے ساتھ ماتم نہیں جیتنے والوں کے گیت گاتی ہے۔ اختلافات اور تضادات کے بوسے میں سے مفادات کی سہولتوں کی تلاش جاری رکھیے اور خلوص نیت سے اداروں سے باہمی تعاون کے ساتھ آگے بڑھتے جائیے۔