عمران خان سے ایک سادہ سا سوال ہے: کیا یہ ریاست شریف اور بھٹوخاندان کی جاگیر ہے اور کیا ہم ان کی رعایا ہیں ؟ اگر اس سوال کا جواب اثبات میں ہے تو ہماری بلا سے،بے شک اس ملک کا نام اسلامی جمہوریہ شریفستان رکھ دیجیے اور گلے میں آلِ شریف کی غلامی کا طوق ڈالنا لازم قرار دے دیجیے ۔ لیکن اگر کسی کے راجواڑے کے جانور نہیں بلکہ سلطنت خدادا د کے آزاد شہری ہیںتو پھر ریاستی اداروں کو ’ شریفائز ‘ او’ر بھٹوائز ‘ کرنے کی جو واردات اس ملک میں ڈالی گئی کم از کم اس بے ہودگی کا تو خاتمہ کر دیجیے۔ انسانی حقوق کی اس صدی میں احباب کس بے نیازی سے فرما دیتے ہیں بیانیہ صرف نواز شریف کے پاس ہے۔ کون سا بیانیہ؟ احساس کمتری کے مضحکہ خیز مظاہر کے سوا یہاں ہے ہی کیا۔ ریاستی اداروں کو دو بھائیوں سے یوں منسوب کیا گیا جیسے ہزاروں سال نرگس کے رونے کے بعد بس یہی دو دیدہ ور اس خطے میں پیدا ہوئے ہوں۔جو ادارہ ملا اسے ان دو نابغوں سے منسوب کر دیا گیا۔ ہسپتال چھوڑے نہ یونیورسٹی، حتی کہ سستے بازاروں اور پبلک ٹائلٹس کے باہر لگے بینرز پر بھی یہی سپوت براجمان ہوا کرتے تھے۔صاحب اور صاحبہ کی بحث تو یہاں اب شروع ہوئی ہے ان عالی دماغوں نے تو گرلز کالجز تک کو میاں نواز شریف سے منسوب کر دیا۔مُلا نصیر الدین بھی پڑھے تو سر پیٹ لے۔ معلوم انسانی تاریخ میں بد ذوقی اور احساس کمتری کے ایسے مظاہرکی مثال ڈھونڈ نا ،نا ممکن ہے۔ اخباری اشتہار شائع کیا تو سر چھوٹے بھائی کا لیکن نیچے دھڑ مائیکل ریوینز کا لگا دیا تا کہ بیانیہ ہینڈ سم ہو جائے۔ لیکن چوری پکڑی گئی۔ کہا ہم تحقیقات کر رہے ہیں ایسا کیوں کیا گیا۔ آج تک کسی کو معلوم نہیں کیا تحقیقات ہوئیں۔آج انہیں پاکستان کا کوئی ہسپتال پسند نہیں آ رہا۔ لیکن دور اقتدار میں ہسپتالوں کو انہوں نے ایسے ’ شریفائز ‘ کیا کہ آدمی حیران رہ جائے۔جنرل ہسپتال ملتان کا نام شہباز شریف جنرل ہسپتال رکھ دیا گیا۔ گونمنٹ میاں محمد نواز شریف ہسپتال، نواز شریف سیکیورٹی ہسپتال لاہور، نواز شریف ہسپتال یکے گیٹ لاہور اورمیاں شہباز شریف جنرل ہسپتال بیدیاں روڈ لاہور، کتنے ہی ہسپتال تھے جنہیں ’ شریفائز‘ کر دیا گیا۔سر گنگا رام اور گلاب دیوی جیسی مخیر شخصیات نے بلاوجہ ذاتی پیسوں سے ہسپتال بنائے۔ آدمی کے پاس اگر ایک عدد بیانیہ ہو تو صرف سیاست ہی کو نہیںریاستی اداروں کو بھی ’ شرافت کا نیا رنگ‘ دیا جا سکتا ہے، ایک دھیلا جیب سے خرچ کیے بغیر۔ تعلیمی اداروں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ گجرات میں قائم میڈیکل کالج کا نام نواز شریف میڈیکل کالج رکھ دیا گیا۔ ملتان میں انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی ہے وہ کھڑے کھڑے نواز شریف یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ہو گئی۔ملتان کی زرعی یونیورسٹی کواب نواز شریف ایگریکلچر یونیورسٹی کہا جاتا ہے۔سیالکوٹ میں ایک بوائز کالج تھا وہ راتوں رات گورنمنٹ شہباز شریف ڈگری کالج جامکے چیمہ ہو گیا۔چونا منڈی کے بوائز کالج کو میاں نواز شریف کالج کہا جانے لگا۔ خود نمائی اور احساس کمتری کا سب سے کریہہ مظاہرہ سیالکوٹ اور منڈی بہاوالدین میں ہوا جہاں لڑکیوں کے کالج کا نام نواز شریف گرلز کالج رکھ دیا گیا۔نواز شریف ڈگری گرلز کالج سیالکوٹ اور نواز شریف گرلز کالج منڈی بہاولدین۔چونا منڈی کے بوائز کالج کو اب نواز شریف کالج کہا جاتا ہے۔راولپنڈی کے خیابان سرسید ڈگری کالج کا نام شہباز شریف کالج خیابان سر سید۔ سڑکیں ، پارک اور سپورٹس کمپلیکس تک پر بیانیے کے جھنڈے گاڑ دیے گئے۔مری روڈ راولپنڈی پر نواز شریف فلائی اوور، اس سے اتریں تو نواز شریف پارک، آگے جائیں تو شہباز شریف سنٹر ، دائیں مڑیں تو نواز شریف فوڈ سٹریٹ۔راول روڈ پر ایک سپورٹس کمپلیکس ہے اسے شہباز شریف سپورٹس کمپلیکس کہا جاتا ہے۔جہلم اور سیالکوٹ میں پل بنے تو نام رکھا گیا : شہباز شریف برج۔شاہی خاندان کے ہاتھوں جو بچ رہا اس پر نورتنوں نے اپنے علم لہرا دیے۔ گویا مال غنیمت تھا جو بٹ رہا تھا۔سیالکوٹ میں میڈیکل کالج کو خواجہ صفدر میڈیکل کالج بنا دیا گیا۔ خواجہ صفدر خواجہ آصف کے والد تھے۔بہائوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کا لیہ میں سب کیمپس ہے اس کا نام بہادر کیمپس رکھ دیا گیا۔ بہادر صاحب مسلم لیگ (ن) کے ایم پی اے اعجاز اچھلانہ کے والد تھے۔ایک آڈیٹوریم ایم پی اے صاحب نے اپنے نام کر لیا اسے اعجاز اچھلانہ آڈیٹوریم کہتے ہیں۔لڑکوں کے ہاسٹل پر بھی موصوف کا پرچم لہرا دیا گیا اس کا نام اعجاز ہال ہے۔ایک لڑکیوں کا ہاسٹل تھا اس کا نام ریحانہ ہال رکھ دیا گیا۔آپ سوچ رہے ہوں گے یہ ریحانہ کون ہیں؟ یہ اعجاز اچھلانہ کی اہلیہ محترمہ ہیں۔ ’ شریفائزیشن‘ کا یہ عمل شعور انسانی کی توہین اور سماج کی تضحیک ہے۔یہی کام پیپلز پارٹی نے بھی کیا اور سرکاری اداروں کونہ صرف بھٹو اور محترمہ بے نظیر بلکہ بلاول اور بختاورتک سے منسوب کر دیا گیا۔بلاول میڈیکل کالج ، بختاور کیڈٹ کالج۔علامہ اقبال اور قائد اعظم کے نام سے ایک ایک یونیورسٹی ہے لیکن بے نظیر بھٹو کے نام پر سات یونیورسٹیاں ہیں اور درجنوں کالج اور ہسپتال ہیں۔مشاہیر کے نام پر قومی اداروں کے نام دنیا بھر میں رکھے جاتے ہیں ۔ لیکن جو واردات پاکستان میں کی گئی اس کا مہذب دنیا میں کوئی تصور نہیں کر سکتا۔کیا مہذب دنیا کی اخلاقیات میںاس حرکت کا کوئی تصور کیا جا سکتا ہے؟ کیا یہ رویہ جمہوری رویہ ہے؟ کیا یہ ہے وہ بیانیہ جس پر صبح و شام غزل کہی جاتی ہے؟نیکی کے کسی کام میں ان لوگوں نے ایک دھیلہ خرچ نہیں کیا۔پیسہ عوام کا لیکن تختیاں قبضہ گروپ کی۔عوام کے پیسوں سے کوئی ترقیاتی کام ہوتا ہے تو دو خاندانوں کے فضائل پیکج کا حصہ ہوتے ہیں۔ ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے ان دو خاندانوں کی سخاوت اور قربانی ہے اور وہ عوام کی محبت میں گویا یہ سب کچھ اپنی تجوریوں سے خرچ کر رہے ہیں۔پبلک ٹائلٹس کے باہر بھی اگر خادم اعلی کی تصویر آویزاں ہوتی ہے تو یہ عوامی نفسیات کے ساتھ ایک پوری واردات ہے۔ یہ لوگوں کے لاشعور میں غلامی شامل کرنے کی کوشش ہے۔ اب عمران خان کی حکومت ہے۔ مان لیا معاشی اصلاحات میں تو وقت لگے گالیکن قومی اداروں کی ’ شریفائزیشن ‘ اور ’ بھٹوائزیشن ‘کے اس عمل کے خاتمے کے لیے تو عمران خان کا صرف ایک حکم کافی ہے۔کیا وہ یہ حکم جاری کر کے سماج کو ان خاندانوں کی لاشعوری غلامی سے نجات دلا سکتے ہیں؟