حکومت نے ابھی اڑان بھی نہیں بھری تھی کہ مسائل اور مشکلات کے گرداب میںبری طرح پھنس گئی۔حکومت کا حال آگے کنواں پیچھے کھائی والا ہے۔ مہنگائی کے طوفان نے ہر عام وخاص کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ روپے کی تیزی سے گرتی قدر نے شہریوں کے چہروں پر خوف کے سائے لہرا دیئے ہیں ۔ حکومت نے برسراقتدارآتے ہی معاشی بدحالی کا جو رونا رویا وہ اگرچہ حقائق کے برعکس نہ تھا لیکن سیانے بچوں کو نصیحت کرتے ہوتے ہیں کہ خالی پیٹ سے قمیض اٹھا کر اپنوں کو بھی نہ دیکھاؤ وہ بھی مدد کرنا چھوڑدیں گے۔ تاجر اور کاروباری طبقات موسمی پرندوں کی مانند ہوتے ہیں۔ منافع کم یا خسارے کا اندیشہ ہوتو وہ دوسرے دیسوں کا رخ اختیار کرتے ہیں۔ حکومت نے آہ وفریاد ڈال کر سرمایہ کاروں کو بھی بھگادیا۔ نیب اور سپریم کورٹ نے بھی نہلے پر دھلا مارا۔یہ وقت تھا کہ حکومت بیرون ملک آباد پاکستانیوں اور سرمایہ کاروں کو ملک کی ترقی میں حصہ لینے کے لیے ترغیبات دینے کااعلان کرتی ۔حکومت اور اداروں نے تلوار یں سونت لیں اور اعلان کیا کہ وہ کسی کو بخشیں گے نہیں۔وزیراعظم عمران خان تو اٹھتے بیٹھے جیل کی ہوا کھلانے کی دھمکی دیتے ہیں۔ چند ہفتوں میں اسٹاک مارکیٹ بیٹھ گئی۔ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں مندا آگیا۔ بڑے کاروبار دباؤ میں آگئے۔ سرمایہ چھن جانے کے اندیشہ نے ان کی راتوں کی نیندیںاور دن کا سکھ چین حرام کردیا۔ عتاب کے شکار لوگوں نے مل کر حکومت کے چھکے چھڑا دیئے۔ گھاگ سیاستدان اور کاروباری لوگوں کو سرکار تنگ کرتی تو وہ اس کے خلاف مشترکہ محاذ بنالیتے ہیں۔مصنوعی معاشی بحران پیدا کردیتے ہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کو فنڈنگ کرکے سیاسی عدم استحکام پیدا کرادیتے ہیں۔دیکھتے ہی دیکھتے حکومت کی رٹ بکھر جاتی ہے۔ ملکی سرمایہ کار خوف زدہ ہوجائے توبیرونی سرمایہ کاری کے امکانات خودبخود بند ہوجاتے ہیں۔حکومت کے پاس اب لے دے کر ایک ہی آپشن ہے کہ وہ اٹھارویں ترمیم کے خاتمے کے ذریعے صوبوں سے مالی وسائل واپس لے۔ پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت نہ ہونے کے باعث حکومت کوئی بھی آئینی ترمیم منظور کرانے کی پوزیشن میں نہیں۔ بتایاجارہاہے کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ وفاقی حکومت صوبوں سے وسائل واپس اپنے قبضے میں لے تاکہ وہ عالمی مالیاتی اداروں کی قسطیں ادا کرنے کے قابل ہوسکے۔اس وقت 57.5فی صد وسائل صوبوں کو منتقل کردیئے جاتے ہیں ۔ وفاق کے پاس محض 42.5% مالی وسائل ہوتے ہیں۔ دفاعی ضررویات اور غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے بعد ملازمین کو تنخوائیں اور بجلی کا بل دینے کی بھی رقم نہیں بچتی۔ مشکل یہ ہے کہ صوبے اپنے حصے کے وسائل سے دستبردار ہونے کے لیے نہ صرف تیار نہیں بلکہ وہ مزید کا تقاضہ کرتے ہیں۔ عالمی اداروں کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات کار خوشگوار نہیں۔ سکیورٹی سے متعلقہ ادارے خو ف کی فضاسے نکل ہی نہیں پاتے۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے ذریعے اسامہ بن لادن تک پہنچنے کے قصے کے بعد غیرملکیوں اور عالمی اداروں خاص طورپر این جی اوز کے خلاف ملک گیر سطح پر منفی مہم چل رہی ہے۔ کوئی سوال نہیں اٹھاتا کہ آخر اسامہ بن لادن ہماری ناک تلے کیونکر معمول کی زندگی بسر کررہاتھا؟ البتہ 27 بین الاقوامی این جی اوز کو آپریشن بند کرنے کا حکم جاری کردیاگیا۔ان اداروں کے ساتھ پاکستان کے ذہین ترین اور اعلیٰ پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والی شخصیات کام کرتی ہیں ان کی حب الوطنی پر شک کیاگیا۔ چند این جی اوز نے اپنے دائرہ کار سے تجاوزکیا ہوگا جن کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی ہونی چاہیے لیکن تمام اداروں کو ایک لاٹھی سے ہانکنا دانشمندی نہیں۔سنٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹیڈیز کے ڈائریکٹر امیتاز گل نے لکھا : حکومت کے اس اقدام سے کم ازکم بیس لاکھ افراد کا روزگار متاثر ہوا۔ این جی اوز پاکستان میں غیر ملکی ایجنٹوں کا کردار نہیں بلکہ بیرونی دنیا میں پاکستان کے امیج سازی کا ایک دروازہ (ونڈو) ہوسکتی تھیں اگر ان کے ساتھ حکمت کے ساتھ معاملات کیے جاتے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ بین الاقوامی داروں کو اس وقت دیس نکالا سنایاگیا جب پاکستان پر یہ الزام لگ رہاہے کہ وہ میڈیا پر سنسر شپ عائد کررہاہے۔ بعض عالمی ادارے کہتے ہیں کہ پاکستان کا میڈیا کے ساتھ طرز عمل ترکی اور چین والاہے۔ علاوہ ازیں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا ریویوابھی باقی ہے۔ بیرون ملک سے دہشت گرد اور انتہاپسندو گروہوں کے لیے آنے والی مالی امداد اور ہنڈی کے ذریعے منتقل ہونے والی رقم کو روکنے میں حکومت اس قدر مستعد نہیں جس قدر وہ این جی اوز اور میڈیا کا گلا دبانے میں سرگرم ہے۔ لندن سے ایک صحافی نے بتایا کہ وہ پاکستان آنا چاہتی ہیں لیکن ویزے کا حصول بہت مشکل بنادیاگیا ہے۔ویزہ جاری کرنے کا پراسیس بہت پیچیدہ اور طویل ہے۔ حکومت سیاحت کی ترقی چاہتی ہے لیکن اکثر علاقوں میں غیر ملکی سیاحوں کو جانے کی اجازت تک نہیں۔بیرون ملک سفر کریں یا بیرون ملک سے پاکستان کی فلائٹ لیں۔ ہر دوصورتوں میں کسی غیر ملکی کی شکل دیکھنے کو لگائیں ترس جاتی ہیں۔ حالانکہ اسی کی دہائی میں ہماری عام سے بسوں میں درجنوں غیر ملکی سوات، گلگت بلتستان اور شمالی علاقوں کا سفر کرتے اور راجہ بازار راولپنڈی کے بازار میں گھومتے نظر آتے۔ احتساب اور شفافیت کی اہمیت سے انکار نہیںمگر یہ ٹیڑھی کھیر والا معاملہ ہے۔ محض بدعنوان عناصر کو پکڑنے سے حکومت ملکی مالیاتی مسائل کا حل تلاش نہیں کرپائے گی۔ یہ سائے کے تعاقب کے سوا کچھ نہیں ۔ آصف علی زرداری لگ بھگ دس برس جیل میں رہے لیکن حکومت ان سے کچھ نہ نکال سکی۔الٹا انہیں جناب مجید نظامی نے مرد حر کا خطاب دیا۔شریف خاندان کے خلاف پرویز مشرف نے ایڑی چوٹی کا زور لگایاپر ہاتھ کچھ نہ آیا۔ وائٹ کالر جرائم اور خاص طور پر بے نامی جائیدادیں اور بینک اکاؤنٹس کی تلاش اور انہیں ضبط کرنا ایک طویل المدتی اور پیچیدہ عمل ہے۔نیب کے وکیلوں کی پیشہ وارانہ استعدا د کا بھانڈا عین چوراہے میں کئی بار پھوٹ چکا ۔وہ وائٹ کالر جرائم میں ملوث شخصیات کو پکڑنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ملک کے اندر اور باہر ایسے ٹھوس اقدامات اٹھائے جو بے روزگاری اور مہنگائی پر قابوپانے میں مدد دیں۔شہریوں کو ریلیف مل سکے۔خوف کی موجودہ فضا ختم ہو سکے۔ دھونس اور دھمکی کے بجائے حکمت اور دانشمندی سے کاروبارحکومت چلانے کی کوشش کی جائے۔ پچاس لاکھ مکان بنتے بنتے بنیں گے۔ بقول غالب ؎ آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک کون جیتا ہے تیر ی زلف کے سرہونے تک جناب وزیراعظم! آب بیتی کہوں یا جگ بیتی، مہنگائی کے طوفان نے ہماری چیخیں نکال دی ہیں۔