جناب عمران سے ہر کسی نے اپنے ذوق اور اپنے اپنے اعتماد کے حوالے سے امیدوں کے شیش محل وابستہ کر رکھے تھے۔ مجھے یہ امید تو نہ تھی کہ جناب عمران خان برسر اقتدار آ کر آسمان سے تارے توڑ لائیں گے نہ ہی مجھے یہ توقع تھی کہ وہ آتے ہی دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے۔ نہ ہی یہ امید تھی کہ عمران خان بے روزگاری‘ مہنگائی اور بدحالی کا مکمل خاتمہ کر دیں گے۔ البتہ مجھے یہ یقین ضرور تھا کہ کچھ ہو یا نہ ہو ظلم نہیں ہو گا۔ عمران خان کے دور حکومت میں ظلم پر وہ تڑپ اٹھے گا۔ میرا اندازہ یہ تھا کہ آتے ہی عمران خان سب سے پہلا کام پولیس کو نتھ ڈالنے کا کرے گا۔ مگر حیران کن کام یہ ہوا کہ عمران خان نے اپنی کرشماتی شخصیت کی تمام تر توانائیاں پولیس کو نتھ ڈالنے کی بجائے اپوزیشن کو نتھ ڈالنے پر صرف کر دیں۔ عمران خان تو مرد میدان تھے وہ اپنی شخصیت سے اور اپنی سابقہ پرفارمنس کے اعتبار سے حریف سے کھلے میدان میں مقابلہ کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ وہ میدان میں سینہ سپر ہو کر حریف کا مقابلہ کیا کرتے تھے۔ کرکٹ کے معرکے میں وہ کھیل کے میدان میں پنجہ آزمائی کیا کرتے تھے۔ سیاست کے کھیل میں ایوان، پارلیمنٹ کو میدان کی حیثیت حاصل ہوتی ہے مگر مجھے نہیں معلوم کہ ان کے کس ’’خیر خواہ‘‘ نے انہیں گلیاں سنجیاں کرنے کا مشورہ دیا۔ اب تقریباً ان کا ہر قابل ذکر حریف پس دیوار زنداں ہے۔ مالی کرپشن کا احتساب نیب کی ذمہ داری ہے مگر جس طرح سے جناب وزیر اعظم اور ان کے بہت سے پرجوش وزیروں نے حزب اختلاف کے رہنمائوں کو جیل میں ڈالنے کی دھمکیاں دیں تو اس سے یہ تاثر ملا کہ احتساب نیب نہیں حکومت کر رہی ہے۔ دو روز قبل جناب چیف جسٹس آف پاکستان نے نئے عدالتی سال کے آغاز پر بنچ اور بار کی مشترکہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس تاثر کا اظہار نہایت ہی واشگاف الفاظ میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ احتساب پر سیاسی انجینئرنگ کا تاثر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ نہایت ہی خطرناک تاثر ہے، اسے ختم کرنا ہو گا۔ میرا دوسرا گمان یہ تھا کہ عمران خان قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائیں گے اور حصول انصاف کے خواب کو حقیقی تعبیر میں بدل دیں گے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ ایسا نہ ہوا۔ وفاقی حکومت اپنے اصل اہداف پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کی بجائے سیاست کے میدان میں وہ چومکھی جنگ لڑ رہی ہے جس کا اسے کسی نے چیلنج بھی نہیں دیا۔ عمران حکومت صوبہ سندھ کی صفائی اورمعیشت جیسے مسائل میں صوبائی حکومت اور بلدیاتی اداروں کی مدد کرنے کی بجائے کبھی وہاں پر فواد چودھری جیسے سیاسی و سائنسی پیراٹروپر اتار کر وہاں ان ہائوس تبدیلی لانے کی باتیں کرتی ہے اور کبھی فروغ نسیم جیسے سنجیدہ وزیر قانون کو صوبے میں آئین کے آرٹیکل 149(4) کے ذریعے بے چینی پیدا کرنے کا غیر سنجیدہ ٹاسک دیتی ہے اور کبھی اسد قیصر جیسے حکیم و داناسپیکر کو ممبران اسمبلی کے پروڈکشن آرڈرز کینسل کرنے کا غیر آئینی اورغیر جمہوری حکم دے کر ان کی شخصیت کو متنازعہ بناتی ہے۔ اس غیر مطلوب چومکھی جنگ میں حکومت نے صدر مملکت کے انتہائی باوقار منصب کو بھی ملوث کر لیاہے۔ صدر کے ذریعے سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس فائز عیسیٰ اور کچھ اور ججز کے خلاف ریفرنس بھی دائر کروا رکھا ہے۔ اس صدارتی ریفرنس پر کارروائی روک دی گئی ہے اور اب جسٹس فائز عیسیٰ کی طرف سے ریفرنس کے خلاف دائر کی جانے والی پٹیشن کی سماعت سپریم کورٹ کا سات رکنی بنچ 17ستمبر سے شروع کرے گا اسی طرح صدر کی طرف سے الیکشن کمشن کے ممبران کے طور پر جن دو حضرات کو سندھ اور بلوچستان سے نامزد کیا گیا تھا انہیں چیف الیکشن کمشن نے یہ کہہ کر قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ ان کی تقرری غیر دستوری اور غیر آئینی ہے۔ یہی بات گزشتہ روز الیکشن کمشن کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی کہی گئی۔ اس کے ساتھ ہی اپوزیشن کی طرف سے اس مجوزہ ریفرنس کی مذمت کی گئی ہے۔ جو حکومت چیف الیکشن کمشنر کے خلاف دائر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے خطاب میں اس اہم نکتے پر بہت زور دیا کہ طرز حکمرانی میں سیاسی دائرہ سکڑنا ملک اور آئینی جمہوریت کے لئے بہتر نہیں۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر سیاسی جنگ کو غیر سیاسی طور پر لڑا جائے گا اور حزب اختلاف کے ساتھ افہام و تفہیم کی فضا پیدا کرنے کی بجائے چپقلش اور آویزش کی چنگاریوں کو ہوا دی جائے گی تو یہ ملک و قوم کے لئے بہت نامناسب ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی جناب چیف جسٹس نے تیسری اہم بات یہ کہی کہ کسی کی آواز یا رائے دبانا بداعتمادی کو جنم دیتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میڈیا پر قدغن تشویشناک ہے۔ ایسی قدغن معاشرتی تنائو میںاضافے اور جمہوریت کے لئے خطرہ ثابت ہوتی ہے۔ اس وقت ملک کو تین اہم مسائل کا سامنا ہے۔ پہلا تو مسئلہ کشمیر ہے جو اس وقت تاریخ کے نازک ترین موڑ پرکھڑا ہے۔ حکومت کو درپیش دوسرا چیلنج معیشت ہے۔ پاکستانی معیشت روز بروز ابتری اور پستی کی طرف جا رہی ہے لوگ اب برملا عمران خان سے بڑا عاجزانہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں ہمارا پرانا پاکستان لوٹا دو۔ تیسرا چیلنج گورننس کا چیلنج ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی سادگی اور شرافت میں کسی کو اختلاف نہیں مگر کئی ملکوں سے بڑے صوبے پنجاب کے لاء اینڈ آرڈر کو برقرار رکھنے اور انتظامیہ کی شاطرانہ چالوں کا مقابلہ کرنے اور پولیس کی من مانیوں اور دست درازیوں کو روکنے کے لئے کسی مضبوط شخصیت کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ حکومت کی ساری تگ و تاز اپوزیشن کو ناک ڈائون کرنے پرمرکوز ہے۔ یہ مثبت نہیں منفی کارروائی ہے نہ جانے وہ کون سے مشیر ہیں جو حکومت کو اپوزیشن کے تعاون‘ اپوزیشن کے اتحاد اور اپوزیشن کے تجربے سے استفادہ کرنے سے روکتے ہیں۔ جمہوریت پارلیمانی ہو یا صدارتی ہو دونوں صورتوںمیں اپوزیشن کا تعاون ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ میں تو سینٹ کی قائمہ کمیٹیاں ہی ساری حکومت چلاتی ہیں اور بڑے بڑے طاقتور ادارے ان کمیٹیوں کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں۔ نہ جانے کیوں یہاں ون مین شو کو ہی سب کچھ سمجھا جاتا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ اس وقت ہمارے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے آج تک جناب عمران خان نے پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے کھلے دل کے ساتھ ساری پارلیمانی و غیر پارلیمانی سیاسی قیادت کو مسئلہ کشمیر پر اکٹھے ہونے اور اپنی تجاویز پیش کرنے کے لئے نہیں بلایا۔ سوائے پہلے رسمی اجلاس کے۔ اسی طرح معیشت برسوں سے بہتے ہوئے دریا کی مانند ہے۔ اگر اس دریا میں پانی میں کمی یا اس کی روانی میں سست رفتاری دیکھنے میںآتی ہے تو گزشتہ ملاحوں سے ضرور صلاح مشورہ ضروری سمجھا جاتا ہے۔ چلیے آپ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ آپ اگر سابقہ حکومتوں سے تعاون کے طلب گار ہوں گے تو اسے آپ کی کمزوری سمجھا جائے گا تو اسے چھوڑ دیجیے مگر قائمہ کمیٹیوں کے فیصلوں اور پارلیمانی بحث مباحثے کے اہم نکات پر تو عملدرآمد کیجیے۔ ہم تو جب بھی حکمرانوں سے کچھ عرض کرتے ہیں تو یہ کہہ کر عرض کرتے ہیں کہ ع ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں مگر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کا خطاب صرف صرف نصیحت ہی نہیں یہ ان کے طویل سیاسی و عدالتی مشاہدے کا نچوڑ بھی ہے۔ جناب چیف جسٹس کا یہ کہنا کہ احتساب پر سیاسی انجینئرنگ کا تاثر ہے جسے ختم کرنا ہو گا اس میں جہان معانی پنہاں ہے۔ حکمرانوں کو جناب چیف جسٹس کے لائوڈ اینڈ کلیر انتباہ پر پوری سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور اس کی روشنی میں اپنا طرز حکومت اوراپنا طرز سیاست بدلنا چاہیے اسی میں حکمرانوں اور ملک و قوم دونوں کا بھلا ہے۔