وفاقی انسپکٹر ریلوے ظفر اللہ کلور نے جناح ایکسپریس ٹرین حادثہ کی رپورٹ تیار کر کے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کو ارسال کر دی ہے۔ 2013ء سے 2018ء کے دوران ریلوے میں کافی بہتری آئی۔ ٹرینوں کے شیڈول بہتر ہوئے، مال گاڑیوں میں اضافہ ہوا، حادثات میں جاں بحق ہونے والے مسافروں کی انشورنس کا اجرا ہوا، جس کے باعث یہ ادارہ دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑے ہونا شروع ہوا لیکن ایک بار پھر اس محکمے کو نظر بد لگ گئی ہے۔ صرف 9مہینے میں 17حادثات ہو چکے ہیں۔ ٹرینوں کا تاخیر سے آنا جانا معمول بنتا جا رہا ہے، جس کے باعث ایک بار پھر ریلوے کی تنزلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ جناح ایکسپریس حادثے کی رپورٹ میں ڈرائیور کو ذمہ دار قرار دیا گیاہے لیکن اس حادثے کے ساتھ ہی کئی کہانیاں سامنے آ گئی ہیں۔ در حقیقت جناح ایکسپریس ریلوے کی سب سے وی آئی پی لگژری نان اسٹاپ ٹرین ہے جو صرف 15گھنٹوں میں 6500مسافروں کو کراچی سے لاہور اور لاہور سے کراچی پہنچاتی ہے۔ اس ٹرین کی وجہ سے کئی بڑے ٹرانسپورٹرز کا کاروبار سخت متاثر ہوا ہے۔ اس لئے وفاقی انسپکٹر ریلوے کو اپنی تحقیق کے دائرے کو ذرا ادھر بھی بڑھانا چاہیے کیونکہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں تب کے وزیر ریلوے اور ٹرانسپورٹر کے گٹھ جوڑ سے ہی ریلوے کا بیڑا غرق ہوا تھا۔ اس لئے اب بھی اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وزیر ریلوے شیخ رشید پریس کانفرنسوں کے ذریعے اپوزیشن کی گرفتاریوں کی پیش گوئیوں کی بجائے اگر اپنی وزارت کو ایک منافع بخش اورکمائو ادارہ بنا دیں تو انہیں اس حوالے سے تادیر یاد رکھا جائے گا اور اسی میں ان کی نیک نامی ہے۔