شیخ عبداللہ دو قومی نظریئے کے مخالف اور مقبوضہ کشمیر میں کانگریسی فکرکے داعی تھے یہ آزاد خودمختار کشمیر براستہ دہلی کے حامی توتھے لیکن انکی حریت پسندی کانگریس نے اقتدار کے سنہرے پنجرے میں قید کرڈالی تھی ۔یہ وزیر اعلیٰ ہوئے ان کے بعد ان کا بیٹا فاروق عبداللہ اور پھر ان کا پوتا عمر عبداللہ بھی وزیر اعلیٰ رہا ۔شیخ عبداللہ کشمیر کی سیاست کا بڑا نام تھے ان کے ذکر کے بغیر کشمیر کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی ۔شیخ عبداللہ کتاب دوست آدمی تھے انہوں نے آتش چنار کے نام سے اپنی سوانح حیات بھی لکھی ہے وہ قائد اعظم کو ’’جناح ‘‘ کہہ کر پکارنے والوں میں سے تھے اور اسی جناح نے انہیں ایک بار خبردار کیا تھا انہیں نصیحت کی تھی جسکا ذکروہ آتش چنار کے صفحہ218 پر کرتے ہیںلکھتے ہیںکہ ''مسلم لیگ اور نیشنل کانفرنس کے درمیان غلط فہمیوں کی خلیج وسیع ہوتی جارہی تھی۔ میری ہرگز یہ مرضی نہیں تھی کہ ان دو جماعتوں کے درمیان آویزش کا ماحول قائم ہو۔۔۔ اور میں نے اسی مقصد سے جناح صاحب کے نام ایک خیر سگالی کا مکتوب بھِی روانہ کیا۔جناح صاحب نے اس کے جواب میں مجھے دہلی آنے اوران سے ملاقات کرنے کی دعوت دی تھی۔ چنانچہ موقع پاکر میں اْن سے ملنے کے لئے دہلی گیا۔ اس وقت بخشی غلام محمد بھی میرے ساتھ تھے۔ جناح صاحب نے ہمیں شرفِ ملاقات بخشا اور یہ ملاقات دو گھنٹے تک جاری رہی۔ اْن دنوں وہ اپنی قیام گاہ اورنگزیب روڈ میں مقیم تھے۔ میں نے جناح صاحب کے سامنے تحریک کشمیر کی تفصیل بیان کی اور جن نشیب و فراز سے ہم گزرے تھے اْن کی ساری روداد ان کے سامنے رکھی۔ میں نے عرض کی کہ ریاست جموں وکشمیر ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے جس میں ستر فی صد مسلمان رہتے ہیں۔۔۔۔ بنا بریں معاملات کے متعلق ان کا نظریہ ایک اکثریت کا ہی ہوسکتا ہے۔ اقلیت کا نہیں۔'' جناح صاحب کچھ بے تابی سے میری باتیں سنتے رہے۔اْنہوں نے کمال صبر سے میری ساری گفتگو سنی اور آخر ایک مرد بزرگ کی طرح فہمائش کے انداز میں کہنے لگے: ''میں آپ کے باپ کے مانند ہوں اور میں نے سیاست میں اپنے بال سفید کئے ہیں۔ میرا تجربہ ہے کہ ہندوپر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کبھی آپ کے دوست نہیں بن سکتے۔ میں نے زندگی بھر اْن کو اپنانے کی کوشش کی لیکن مجھے ان کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ وقت آئے گا جب آپ کو میری بات یاد آئے گی اور آپ افسوس کریں گے۔'' آتش چنارمیں قائد اعظم سے ملاقات اور انکی نصیحت پرشیخ عبداللہ تو جو افسوس کرتے تھے سو کرتے ہوںگے لیکن فاروق عبداللہ اور عمرعبداللہ کو سب ہی کف افسوس ملتا دیکھ رہے ہیں۔ قائد اعظم کی پیشن گوئی کا آج ایک ایک لفظ سچ ثابت ہو رہا ہے ’’کشمیر ‘‘ کی شیخ فیملی اعتراف نہ کرے لیکن وہ پشیمان ہے کہ انہوں نے قائد اعظم کی نصیحت پر کان کیوں نہیں دھرے ، نہرو خاندان نے جس شیر کشمیر کو سونے کے پنجرے میں قید کیا تھاآج اسکی جگہ فولاد ی سلاخیں لے چکی ہیں ،اقتدار کے پروٹوکول اور ٹھاٹ باٹھ کی جگہ اب قید وبند کی صعوبتیںہیں۔ گذشتہ برس کشمیر پر آئین گردی کے بعد پہلے تراسی چوراسی سالہ فاروق عبداللہ گرفتار کئے گئے اور اسکے بعد ان کے بیٹے فاروق عبداللہ کو بھی گرفتار کر لیا گیاکئی ماہ بعد کی قید کے بعد یہ دونوں سابق وزرائے اعلیٰ رہا تو کر دیئے گئے لیکن اب ان کے لئے زمین تنگ اور آسمان دور ہے دوسری جانب بھارت کی بی جی پی سرکار نے کشمیر میں آبادی کا گراف بدلنے کے لئے ہر بھارتی کو یہاں زمین خریدنے کی اجازت دے دی ہے ۔ انڈیا کا ہر شہری کشمیر میں غیرزرعی زمین خریدنے کا اہل ہے، رہی زرعی زمینیں تو اسکے لئے بھی قرار دے دیا گیا ہے کہ حکومت زرعی زمینوں کو 'مفاد عامہ' کے لئے استعمال کرسکتی ہے،اس سے قبل فوج کو یہ اختیار دیا جا چکا تھا کہ وہ کسی بھی علاقے یا قطعہ ارض کو 'اسٹریٹجک' یعنی تزویراتی اہمیت کا حامل قرار دے کر اسے اپنے قبضے میں لے سکتی ہے۔ نریندر مودی کا ریموٹ ہاتھ میں رکھنے والا چانکیہ کا گرو چیلا اب یہاں بڑی تعداد میں انتہا پسند ہندوؤں کو آباد کرنا چاہتا ہے تاکہ یہاں کی مسلم اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو جائے اور اگر کبھی عالمی دباؤ پر استصواب رائے کرانا بھی پڑجائے تونتائج حسب منشاہوں ۔ اس سا ری صورتحال میں بھارت کے ہاتھ کیا کچھ آئے گا اس پر دو رائے ہوسکتی ہیں لیکن متفقہ رائے یہی ہے کہ مقبوضہ وادی کی سیاست اب اسکے ہاتھ سے پھسل چکی ہے،اب کشمیر کی سیاست میں پہلے والی کوئی ’’نیشنل کانفرنس‘‘ نہیں تین وزرائے اعلیٰ کا شیخ خاندا ن آج کھل کر بھارت کے سامنے آچکا ہے اس اعلان سے حالیہ دنوں میں ہندنواز سیاسی جماعتوں کی طرف سے فاروق عبداللہ کی سربراہی میں بنائے گئے ’’پیپلز الائنس‘ ‘ کے دو کلیدی رہنماوں، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے اسے عوام دشمن فیصلہ قرار دیا ہے عمرعبداللہ نے اپنی ایک ٹویٹ میں تو’’جموں کشمیر کو برائے فروخت ‘‘ تک لکھ ڈالااس ٹوئٹ سے آگے بڑھ کر فاروق عبداللہ کا دھماکا خیز انٹرویو ہے ،وہ بھارت کے نجی ٹیلی وژن چینل میں 'دی وائرآن لائن کے میزبان کرن تھاپر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں آج کشمیری خود کو بھارتی شہری نہیں سمجھتے اور نہ ہی وہ بھارتی شہری بننا چاہتے ہیں، وہ غلام ہیں اور چاہیں گے کہ چین حکمرانی کرے۔فاروق عبداللہ کا یہ مکالمہ کس اسکرپٹ کا حصہ ہے اور اسکے مقاصد کیا ہیں یہ معنی خیز انٹرویو الگ تحریرکا متقاضی ہے اس وقت تو بس یہ عرض کرنا ہے کہ شیر کشمیر کی اولاد یں یقینا آتش دان کے سامنے آرام کرسی پر آتش چنار پڑھتے ہوئے سوچتے تو ہوگی کہ اس پتلے دبلے جناح نے سچ کہا تھا کہ یہ ہندو قابل اعتبار نہیں۔۔۔!