جس طرح اس بات پر سبھی حلقوں کا اتفاق ہے کہ قیام پاکستان سے آج تک اس قوم کو قائداعظم محمد علی جناح جیسا سچا، صاف ستھرا، ایماندار، بااصول نڈر اور بے باک صاحب بصیرت لیڈر میسر نہیں آیا۔ اسطرح اس بات پر اختلاف کی گنجائش کم نظر آتی ہے کہ آج کا پاکستان وہ پاکستان نہیں ہے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور جسکے لئے لاکھوں لوگوں نے بے پناہ قربانیاں دیں۔ ایسی قربانیاں کہ صرف انکا تصور کرنے سے ہی رونگٹے کھٹرے ہو جاتے ہیں۔ اور پھر یہ تمام قربانیاں ایک عظیم ،جدوجہد، پختہ عزم اور بے لوث اور عظیم قیادت کی بدولت قیام پاکستان کی عملی شکل پر منتج ہوا۔ اس عظیم جدوجہد اور آزادی کی جنگ کے سالار قائداعظم محمد علی جناح تھے۔ جو اپنی جسمانی کمزوری اور بیماری کے باوجود ایک پختہ عزم اور نظم کے ساتھ اس تحریک کی قیادت فرما رہے تھے۔ افسوس کہ قیام پاکستان کے فوری بعد وہ ہم سے جدا ہو گئے۔ شاید قدرت کو یہی منظور تھا۔ ابھی یہ نوزائیدہ مملکت جغرافیائی حدود وقیود کے تعین، لاکھوں مہاجرین کی آباد کاری ، سنگین معاشی و معاشرتی مسائل کی دلدل میں ڈوبی ہوئی تھی کہ اچانک بانی پاکستان ہم سے جدا ہو گئے۔ یہ ایک بڑا سانحہ تھا۔ اگرچہ قائد نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنی کچھ تقریروں میں مملکت خداداد پاکستان کے مستقبل کے عمرانی معاہدہ کی بابت کچھ اشارے کئے۔ مگر انہیں عملی شکل دینے کے لئے جو اقدامات درکار تھے۔ وہ انکی زندگی کے بعد نہ ہو سکے۔ اور رزلٹ سب کے سامنے ہے۔ آج یہ تعین کرنا مشکل نظر آ رہا ہے کہ موجودہ پاکستان وہی جناح کا پاکستان ہے یا جناح کا گمشدہ پاکستان ہے۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے نہایت انداز میں قائداعظم کی ذاتی زندگی اور شخصیت کا ایک اجمالی جائزہ ضروری ہے۔ تاکہ یہ سمجھنے میں مدد مل سکے۔ کہ قائد کے جانشین قائد کی شخصیت کے عشر عشیر بھی نہ تھے۔ قائداعظم کے اخلاق وکردار، راست بازی اصول پرستی، بیباکی اور بے خوفی مقصدسے لگن اور خداداد قائدانہ صلاحیتیں انہیں اپنے ہم عصر سیاست دانوں سے ممیزو ممتاز کرتی تھیں۔ بعد میں آنے والوں کا کیا ذکر۔ دسمبر 1920ء میں ناگپور میں ہونے والے کانگرس کے اجلاس میں قائداعظم ہندومسلم اتحاد کے داعی کے طور پر شریک ہوئے تو کانگرس کے ایک رہنما جو اسی کانفرنس میں موجود تھے اور جو اپنے وقت کے ممتاز وکیل دیوان چمن لال تھے۔ انہوں نے قائداعظم کے بارے میں کیا خوبصورت الفاظ کہے۔ ’’کہ جناح بڑا پیارا اور سیدھا انسان تھا۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ کسی قیمت پر کسی کے ہاتھ بکنے والا نہ تھا‘‘ پھر جب قائداعظم نے محسوس کیا کہ گاندھی کی پالیساں مسلمانان ہند کے مفاد کے خلاف ہیںاور یہ ہندو مسلم اتحاد کی بیل مینڈھے چڑھتے نظر نہیں آتی تو وہ مسلمان کے مسلمہ واحد لیڈر کے طور پر برصغیر کی سیاست کے افق پر ابھرے ۔ ایک اجلاس میں انہوں نے کانگرس کے لیڈروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ کہ گاندھی سیاست میں کوئی قدم اٹھانے سے پہلے یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ لوگ کس بات سے خوش ہوں گے پھر اسی کے مطابق تم اقدام کرتے ہو جبکہ میرا انداز بلکل برعکس ہے۔ میں پہلے یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ کیا بات صحیح اور مناسب ہوگی۔ اور پھر اسی کے مطابق عمل کرتا ہوں۔ سیاست میں یہ اصول پسندی شاید قائد کا ہی خاصہ تھی۔ انکے بعد تو یہ قوم ایسی اصول پسندی کو ترس گیا ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ اب تو ارض پاکستان با اصول اور با ضمیر لوگ زندگی کے ہر شعبہ میں پیدا کرنے سے قاصر یا بانجھ نظر آتی ہے۔ جس طریقہ سے قائداعظم نے تن تنہا اپنی اصول پسندی اور آہنی عزم کے ساتھ ہندو و انگریز کا مقابلہ کیا۔ اور انکی تمام شاطرانہ چالوں کو ناکام بنایا اس پر مولانا کوثر نیازی مرحوم نے منظوم خراج عقیدت 1970ء کے لگ بھگ اسطرح پیش کیا۔ حق بات کی خاطر وہ تیری سعی منظّم شاید کہ خدا پر تیرا ایمان تھا محکم لاریب ہوا ہندو و انگریز کا سر خم اے قائداعظمؒ ، اے قائداعظم رہزن ہی مگر ہو گئے رہبر یہ ہمارے اس حال میں دن ہم نے تیرے بعد گزارے رکھا نہ گیا ہم سے کسی زخم پہ مرہم اے قائداعظمؒ ، اے قائد اعظمؒ قائداعظم کی رحلت کے بعد سب سے اہم کام آئین کی تیاری تھا۔ یہ بات نہایت ہی قابل افسوس ہے کہ یہ نوزائیدہ ملک 1956 ء تک بغیر کسی آئین کے چلتا رہا۔ کئی حکومتیں بنیں اور ٹوٹ گئیں۔ یہ دور محلاتی سازشوں کا آئیڈیل دور تھا۔ جہاں سول و ملٹری بیورکریسی باہم شیرو شکر تھیں اور کسی بھی جمہوری پارلیمانی روایت کو مستحکم نہ ہونے دے رہی تھیں۔ وہاں ہماری اعلیٰ عدلیہ نے بھی اداروں کو کمزور کرنے میں اپنا حصہ ڈالا" نظریہ ضرورت " اسی دور کی پیداوار ہے۔ جس نے تمام آنے والے وقتوں کیلئے جمہوری ، پارلیمانی نظام اور ہمارے طرز حکومت اور روایات کو شدید دھچکا لگایا اور کئی طالع آزماوں کے لئے جمہوری حکومتوں کو باآسانی گھر بھیجنے کا راستہ ہموار کیا۔ اس سارے بھیانک کھیل میں ہمارے سیاست دانوں کرداربھی قابل افسوس ہی رہا۔ جو مختلف ڈکٹیٹرز کے آلہ کار بنتے رہے۔ بلکہ اداروں کی تباہی میں اپنا بھر پور کردار ادا کرتے رہے۔ ہمارے یہاں اداروں کی مضبوطی، استحکام، پائیداری کے لئے کبھی کام نہیں کیا گیا۔ یہاں افراد کو ہمیشہ اداروں پر فوقیت دی گئی۔ ہمارا پڑوسی بھارت جو ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا تھا۔ وہاں جمہوری روایات نے مضبوطی پکڑی اور ادارے مضبوط ہوئے۔ ہمارے ہاں اداروں کی بجائے افراد مضبوط ہوتے رہے۔ ہم ہیرو ورشپ کے قائل ہیں۔ ہمیں انفرادی لوگوں کی بڑھکیں پسند ہیں۔ اور انہی بڑھک بازوں کو ہم اپنا لیڈر بنا لیتے ہیں۔ ہم نے بطور قوم شاید کبھی اداروں کی تشکیل، استحکام اور مضبوطی کی کوئی شعوری کوشش بھی نہیں کی۔ ہمارے ہاں افراد زیادہ اہم ہیں یا ادارے۔ ایک دلچسپ قصہ ہے۔ خواجہ ناظم الدین مرحوم کی زبانی سنیے۔ خواجہ ناظم الدین کا تعلق سابقہ مشرقی پاکستان سے تھا۔ وہ پاکستان کے وزیراعظم بھی رہے اور گورنر جنرل بھی۔ ایک دفعہ خواجہ صاحب سے کسی نے پوچھا کہ پاکستان میں وزیراعظم زیادہ با
اختیار ہے یا گورنر جنرل۔ تو خواجہ صاحب نے بے ساختہ کہا " کہ جب میں گورنر جنرل تھا تو لیاقت علی خاں وزیراعظم تھے۔(جاری ہے)