میرے دوست کے والد وفات پا گئے‘ روز کا ملنا تھا‘ وہ چند روز بعد یونیورسٹی آیا‘ پوچھا: چھٹیاں کیوں کیں‘ بولا والد انتقال کر گئے تھے۔ حیرت سے سوال کیا‘ ہمیں بتایا کیوں نہیں‘ جنازے میں شریک ہوتے۔ تھوڑی دیر چپ رہا پھر کہنے لگا‘ والد نے دو شادیاں کر رکھی تھیں‘ انتقال ہوا‘ میت تدفین کے لیے تیار کی گئی اتنے میں دوسری والدہ اور سوتیلے بھائی بہن آ گئے۔ تدفین سے پہلے گاڑیوں‘ جائیداد کی تقسیم کا مطالبہ رکھ دیا۔میت سامنے پڑی تھی اورہم سب ایک دوسرے سے جھگڑ رہے تھے، صورت حال شرمندگی کا باعث بنی ہوئی تھی‘ ایسے میں تم لوگوں کو بلا کر مزید شرمندہ ہوتا۔ یہ واقعہ قومی اسمبلی میں ٹرین حادثہ پر ہونے والے ہنگامے سے یاد آیا۔ اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ وزیر ریلوے اعظم سواتی مسافروں کی ہلاکت اور 100 کے زخمی ہونے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دیں۔ فواد چودھری اور مراد سعید نے دھواں دھار تقاریر کیں‘ کہا سعد رفیق کے گناہوں پر سواتی استعفیٰ کیوں دیں؟ بلاول دور کی کوڑی لائے‘ وہی موقف دہرایا جو پیپلزپارٹی کی آخری حکومت میں ریلوے کی تباہی کے بعد سامنا آتا رہا‘ کہا‘ ریلوے کا سفر محفوظ نہیں رہا۔ پاکستان میں ریڑھی بان ٹرالروں کا مالک بن سکتا ہے‘ پرچون فروش ڈیپارٹمنٹ سٹور کی چین بنا سکتا ہے‘ راج مستری اربوں کے ٹھیکے لے سکتا ہے‘ گھر بار سے دھتکارا ہوا ناکارہ آدمی سیاسی رہنما بن سکتا ہے لیکن ریاست کے اثاثے اور ادارے ترقی نہیں کرپاتے‘ ہر گزرتا دن ان کو پاتال میں جاتی سیڑھیوں پر مزید نیچے دھکیل دیتا ہے۔ کوئی اس گرنے کو روک نہیں پاتا۔ ہنگامہ اس بات سے شروع ہوا کہ سعد رفیق نے اپنے دور وزارت میں سکھر ڈویژن کے ریلوے ٹریک کی کمزوری اور وہاں انتظامی نقائص کی نشاندہی کی تھی۔ ان خرابیوں کو دور کرنے کے لیے چند ارب روپے درکار تھے۔ سعد رفیق نے پٹڑی کی خستہ حالی اور انجنوں کی بحالی کی بات بھی کی تھی۔ معلوم ہوا کہ شیخ رشید جب وزیر ریلوے بنے تو انہوں نے سکھر ڈویژن میں ریلوے کے ترقیاتی منصوبے پر کام روکنے کی ہدایت کر دی۔ یہ کام اب تک شروع نہیں ہو سکا۔ موصوف ہر روز نئی ٹرین چلانے کا اعلان کیا کرتے‘ پہلے سے موجود گاڑیوں کی بوگیاں الگ کر کے ایک نئی ٹرین کا نام دیتے اور افتتاح کر دیتے۔ کیا کسی کو یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ سعد رفیق کے دور میں کتنے سو ٹرین حادثات ہوئے‘ کیا کسی کی یادداشت ساتھ دیتی ہے کہ غلام احمد بلور جب ریلوے کو تباہ کر رہے تھے تو ہماری سیاسی قیادت اپنی کن جمہوری مجبوریوں کی آڑ میں اس جرم کا حصہ بنی ہوئی تھی۔ اصل بات یہ ہے کہ ہماری پوری پارلیمنٹ ایسے لوگوں سے خالی ہے جو وزارتوں کی تکنیکی نوعیت کو سمجھتے ہوں۔ حکومت کسی کی ہواس جماعت کے پاس ایک دھندلاسا عکس ہوتا ہے۔اپنے کاروبار کے لئے اچھا مینجر رکھنے والے ریلوے کو اناڑی ساتھیوں کے حوالے کر دیتے ہیں ۔ ریلوے کے بارے میں ہر حکومت نے جو بیانات دیئے‘ جو پریس کانفرنسز کیں‘ جو ہدایات جاری کیں ان سب کو پڑھ لیں۔ ’’ریلوے کا خسارہ کم کردیں گے‘ ریلوے کے سفر کو محفوظ بنائیں گے‘ نئی ٹرینیں چلائیں گے۔‘‘ یہ تین بیانات پچھلے تیس سال میں اقتدار میں آنے والی جماعتوں اور ان کے وزرا کی تسبیح رہے ہیں۔ یہ عزم لے کر وزراء جب ریلوے کے ٹیکنیکل سٹاف سے بات کرتے ہیں تو وزراء کی کم علمی اور ناتجربہ کاری انہیں پسپا کر دیتی ہے۔ ریلوے میں عشروں سے خدمات انجام دینے والے افسران کے مشورے میں ذاتی مفاد پوشیدہ ہو سکتا ہے لیکن ان کا مشورہ عموماً درست ہوتا ہے۔ سیاستدان کو باس بننے کا شوق ہوتا ہے۔ اس کی انا یہ قبول نہیں کرتی کہ ریلوے افسران کی بات مان لیں۔ تحریک انصاف نے کئی برس لگا دیئے‘ عوام کو باور کرایا کہ ان کے پاس ہر شعبے کے تربیت یافتہ لوگ ہیں۔ شیخ رشید صرف باتوں کی تربیت رکھتے ہیں‘ کام ان کے بس کی بات نہیں‘ اعظم سواتی ابھی تک کارکردگی دکھانے کے امتحان سے گزر رہے ہیں‘ سعد رفیق نے ریلوے سٹیشنوں‘ ٹرینوں کے انٹیریئر اور اوقات کی پابندی کے سلسلے میں کوششیں کیں لیکن ہر وقت کا کڑوا لہجہ اور انجینئرنگ سے ناواقف دماغ کئی مسائل کا ادراک نہ کر سکا۔ خیر اس ملک میں تو یہ بھی ہوا کہ ایسے ریلوے انجن منگوا لئے گئے جو ہمارے ٹریک اور ریلوے پلیٹ فارم سے مطابقت نہ رکھتے تھے۔ یہ سکینڈل جانے کہاں دفن ہوگیا۔ اب دیکھئے گاڑی جب روانہ ہوتی ہے تو کئی ایس او پیز پر عمل کیا جاتا ہے‘ دو تین ٹیمیں بوگیوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے والے کلمپ چیک کرتی ہیں‘ پہیوں کے نٹ بولٹ‘ بریکیں‘ پانی‘ ایندھن‘ بجلی کے نظام کو چیک کر کے ایک فارم پر چیکر دستخط کرتے ہیں‘ پھر ڈرائیور اور ٹرین کا عملہ اپنا اطمینان کر کے اس پر دستخط کرتے ہیں‘ تب روانگی ہوتی ہے۔ ٹرین راستے میں جس جنکشن پر رکتی ہے وہ چار ٹیکنیکل لوگ پھر سے ہر چیز چیک کرتے ہیں‘ سکھر ڈویژن ریلوے اس لحاظ سے مشکل ہے کہ یہاں زیادہ تر ٹریک غیر آباد علاقوں سے گزرتا ہے۔ دیہاتی لوگ کئی بار شغل میں اور کئی بار جرائم پیشہ افراد ریلوے پٹڑی سے نٹ اکھاڑ لیتے ہیں‘ یہاں نگرانی کا عمل خاصا دشوار ہے۔ موجودہ حکومت نے پولیس سے مدد لی ہے لیکن صوبائی پولیس سندھ حکومت کے ماتحت ہونے کی وجہ سے بعض اوقات مطلوبہ سطح کا تعاون نہیں مل پاتا۔ ٹیکنیکل معاملات سے آگاہ جن افراد سے بات ہوئی ان کا کہنا ہے کہ یہاں پٹڑیوں کی حفاظت کی ضرورت ہے۔ ہمارے کچھ ذرائع حادثے کی نوعیت اس سے مختلف بتاتے ہیں جو ذرائع ابلاغ میں رپورٹ ہوا۔ ایک سورس نے بتایا کہ دونوں ٹرینیں ایک دوسرے کو کراس کر رہی تھیں کہ ملت ایکسپریس کی بوگیاں تیز رفتاری یا پھر پٹڑی کی خرابی سے دوسری طرف سے گزرنے والی ٹرین کی بوگیوں پر الٹ گئیں‘ اس وجہ سے نقصان زیادہ ہوا۔ باقی 62جنازے قومی اسمبلی میں پڑے ہیں ،لڑنے والوں کو فرصت ملے تو دفنا دیں گے ۔پھر سب سوچ بھی لیں گے کہ ریلوے کو کیسے بچانا ہے ۔