’’ہم لوگ دینی معاملات میں تو بہت حساس ہیں مگر ریاست کے قانون پر عمل کرنے کے معاملے میں حساس نہیں! کتنی ہی مجبور ہو پر روزہ نہیں توڑتے البتہ افطاری کے وقت ٹریفک کے اشارے توڑتے چلے جاتے ہیں ہمارا یہ دہرا معیار کیوں ہے؟ مولانا نے اس کا جواب دیا کہ دینی معاملات میں ہمارے سر پر جہنم کا ایک ڈنڈا ہے اگر ہم نماز روزے میں کوتاہی کریں گے تو آخرت میں ناکام ہوں گے مگر دنیاوی قانون پر کوئی اس وقت تک عمل نہیں کرتا جب تک اسے معلوم نہ ہو کہ اس کی بھی سزا ملے گی‘‘ یہ مکالمہ ایک معروف نوجوان کالم نگار اور ایک مشہور عالم دین کے درمیان حال ہی میں ہوا اور اسی مکالمے پر ماتم کرنے کو دل چاہ رہا ہے۔ غور کیجیے‘ عالم دین نے کس صفائی کے ساتھ دین اور دنیا کو الگ کر دیا ہے روزہ توڑیں گے تو جہنم کا ڈنڈا سر پر ہو گا اور آخرت میں ناکامی ہو گی مگر ٹریفک کا اشارہ توڑیں گے تو اس کا آخرت سے کوئی تعلق نہیں! بس یہی وہ نکتہ ہے جس پر ماتم کرنا ہے! اشارہ توڑیں گے تو خلق خدا کو اذیت پہنچے گی! کیا اس کا آخرت میں حساب نہیں ہو گا؟ اشارہ توڑنے سے جو حادثہ ہو گا‘ جس کے نتیجے میں کوئی مرے گا کوئی زخمی ہو گا‘ دو گھر اجڑ جائیں گے اس کا آخرت میں حساب نہیں ہو گا؟؟ گاڑی کے پیچھے گاڑی پارک کریں گے۔ اگلی گاڑی والے نے ہسپتال پہنچنا ہے کسی کی جان بچانی ہے۔ ایئر پورٹ پہنچنا ہے۔ کسی جنازے میں شرکت کرنی ہے۔ مگر اس کی گاڑی کے پیچھے ایک گاڑی کھڑی ہے۔ وہ بے بس ہے کچھ نہیں کر سکتا۔ آدھ گھنٹے بعد یا بیس منٹ بعد یا ایک گھنٹے بعد پچھلی گاڑی والا آتا ہے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا عادل وقادر خدا کا نظام عدل اتنا غیر متوازن ہے کہ روزہ توڑنے والے کو جہنم میں پھینکے گا اور اس شخص کو جس کی بقول ہمارے غلطی محض ’’ دنیاوی ‘‘ ہے جس کی غلطی کی وجہ سے ہسپتال میں منتظر مریض دم توڑ دیتا ہے امیدوار انٹرویو کے لئے نہیں پہنچ پاتا‘ مسافر ایئر پورٹ دیر سے پہنچتا ہے۔ کیا خدا کا نظام عدل اسے آخرت میں سزا نہیں دے گا؟ مسئلے کی جڑ کیا ہے؟ مسئلے کی جڑ یہ ہے کہ عبادات اور معاملات کو الگ کر لیا گیا ہے ! بدقسمتی سے ہمارے علماء کی بھاری اکثریت نے معاملات کو اپنے وعظ و تبلیغ سے محروم کر دیا ہے یہ آقائے نامدار ؐ کے ارشادات کی خلاف ورزی ہے اور شدید خلاف ورزی ہے۔ یہ کہنا کہ ’’اگر ہم نمازروزے میں کوتاہی کریں گے تو آخرت میں ناکام ہوں گے‘‘ یا یہ کہنا ہے کہ ’’دینی معاملات میں ہمارے سر پر جہنم کا ڈنڈا ہے۔ بالکل درست ہے! مگر جب آپؐ نے فرمایا کہ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں‘ یا جس نے ذخیرہ اندوزی کی وہ ہم میں سے نہیں‘ تو یہ تو دینی معاملہ نہیں ہے۔ پھر اس پر اتنی سخت وعید کیوں سنائی گئی؟ ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کرنے والے حاجی صاحب نماز روزے کے تو سختی سے پابند ہیں‘ تو پھر کیا جہنم سے بچ جائیں گے؟ فرمایا جس نے عہد شکنی کی ‘ اس کا ایمان ہی نہیں! ذرا غور کیجیے ! حضرت فرماتے ہیں جہنم کا ڈنڈا صرف نماز روزے کے حوالے سے چلے گاٖ یہاں عہد شکن بدبخت کو ایمان یہ سے فارغ کر دیا گیا ہے! پھر فرمایا۔ منافق کی تین علامات ہیں وعدہ کرے گا تو توڑے گا‘ بات کرے گا تو جھوٹ بولے گا۔ امانت سپرد کی جائے گی تو خیانت کا مرتکب ہوگا! المیوں کا المیہ یہ ہے کہ نماز روزے کے پابند اور نماز روزے کے تارک۔ دونوں قسم کے لوگ یہ کام کر رہے ہیں جھوٹ بول رہے ہیں۔عہد شکنی کر رہے ہیں اور امانتوں میں خیانت کر رہے ہیں تو پھر کیا نماز روزے والے اس لئے جہنم سے بچ جائیں گے کہ وہ عہد شکنی دروغ گوئی اور خیانت کے باوجود نماز روزہ کے پابند ہیں؟؟ دو دن پہلے اس کالم نگار کے گھر سے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر ایک نوجوان غلط سمت سے گاڑی چلاتا آ رہا تھا ایک شخص اس کی گاڑی کے نیچے آگیا۔ تادم تحریر وہ بے ہوش ہے!اب ہمارے مولانا حضرات اسے دین کے معاملے سے خارج کر کے ریاست کے کھاتے میں ڈالتے ہیں کہ اس نے دین کا حکم نہیں توڑا۔ تو پھر اگر وہ نماز روزے کا پابند ہے تو ایک انسان کو موت کے کنارے پہنچانے پر آخرت میں کوئی سزا نہیں ہو گی؟؟ معاملات کو دین سے خارج کرنے ہی کا نتیجہ ہے کہ آج اس ملک میں جتنے اسلامی مدارس ہیں، اتنے کسی ملک میں نہیں! فخر سے بتایا جا رہا ہے کہ حجاب کرنے والی خواتین کی تعداد روز افزوں ہے!تبلیغی جماعت کا یہ ملک مرکز ہے! علماء کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ہر مسجد میں صبح شام درس قرآن اور درس حدیث دیا جاتا ہے۔ مسجدیں نمازیوں سے چھلک رہی ہیں۔ رمضان میں گرمی کی حدت اور بھوک کی شدت روزے سے نہیں روکتی۔ مگر پوری دنیا میں ہم پر اعتبار کوئی نہیں کرتا! ہم خود ایک دوسرے پر یقین کرنے کو تیار نہیں! دفتروں، کارخانوں میں وقت پر پہنچنا دین سے نکال کر ریاست کے کھاتے میں ڈال دیا گیا اس لئے وقت پر کوئی نہیں پہنچتا۔ کیا یہ معاہدے کی خلاف ورزی نہیں؟ کیا اس سے آمدنی میں حرام کا عنصر نہیں شامل ہو رہا؟ اس کالم نگار نے اپنی آنکھوں سے دیار غیر میں مختلف ملکوں کے ’’درآمدی نمونے‘‘ دیکھے اس خدا کی قسم جس نے پیدا کیا پاکستان کا درآمدی نمونہ اس پتھر کے ٹکڑے پر مشتمل تھا جو کپاس کے سیمپل سے نکلا تھا نیم تیار سالن یک پوری کھیپ سعودی تاجر نے سمندر میں پھینک دی اور اگلا آرڈر بھارت کو دیا۔ آپ اپنی مثال لے لیجیے ‘ کیا میوہ فروش سے آنکھیں بند کر کے پھل خرید سکتے ہیں؟ کیا پٹرول ڈالنے والا آپ کو پوری رقم واپس دیتا ہے؟ کیا آپ کا درزی‘ آپ کی فائل ڈیل کرنے والا افسر‘ آپ کو مال سپلائی کرنے والا تاجر۔ آپ کی لڑکی کے لئے آنے والے براتی۔ آپ کو دعوت قبول کرنے والے مہمان۔ آپ کے ساتھ کیا گیا وعدہ پورا کرتے ہیں؟ وقت پر پہنچتے ہیں؟ کبھی نہیں! کوئی نہیں! اس لئے کہ بچپن سے وہ یہی سنتے آئے ہیں کہ نماز روزے کی پابندی کرو گے اور حج کرو گے تو جہنم سے بچو گے۔ یہ کسی نے نہیں بتایا کہ دوسرے کا دل دکھائو گے‘ وعدہ توڑو گے، وقت کی پابندی نہیں کرو گے‘ ٹریک کا اشارہ توڑو گے، گھر کے سامنے کوڑا کرکٹ پھینکو گے‘ تب بھی آخرت میں ناکام ہو گے اور جہنم کا ایندھن بنو گے! ہم عجیب منافق لوگ ہیں۔ ایک طرف رٹ لگا رکھی ہے کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلام محض مذہب نہیں‘ دین بھی ہے ! زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہے۔ دوسری طرف نماز ،روزے، حج، زکوٰۃ کو الگ کر لیا کہ ان کی ادائیگی نہیں کریں گے تو جہنم رسید ہوں گے۔ رہے وہ امور جن سے خلق خدا کو اذیت پہنچتی ہے۔ لوگ مرتے ہیں۔ اپاہج ہو جاتے ہیں۔ وہ ریاست کے کھاتے میں ڈال دیے! وہ پوپ کا ہے یہ قیصر کا ہے!!واہ! کیا بات ہے ہماری! خدا ہمارے شر سے ہمیں بھی محفوظ رکھے اور اہل دنیا کو بھی!! کیوں کہ جنت ہماری پکی ہے۔ نماز پڑھ کر روزہ رکھ کر حج کر کے‘ ہم جو چاہیں کریں۔ خواہ لوگوں کو مار ڈالیں!