وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں اجلاس میں اسلام‘ پاکستان اورکشمیر کے موضوعات پر جو کہا وہ ہر مسلمان اور پاکستان کے دلی جذبات کی سچی عکاسی ہے۔ وزیر اعظم نے اگرچہ ماحولیاتی خطرات اور غیر منصفانہ عالمی معاشی نظام کے متعلق جن خیالات کا اظہار فرمایا وہ الگ سے تبصرے اور داد کے متقاضی ہیں تاہم مغربی مفادات کے تحفظ کے لئے تشکیل دیے گئے بین الاقوامی نظام سے مسلمانوں کو کس حد تک توقعات وابستہ کرنی چاہئیںاس کا ادراک بھی وزیر اعظم کی پچاس منٹ پر محیط تقریر میں بین السطور تلاش کیا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بجا کہا کہ رسول کریمؐ اور دیگر مقدس ہستیوں کے بارے میں مغربی معاشروں کا غیر محتاط اور بسااوقات انتہائی قابل مذمت طرز عمل ظاہر کرتا ہے کہ ان معاشروں میں انسانی حقوق اور آزادیوں کی جو بات کی جاتی ہے وہ آزادیاں مسلمانوں کو حاصل نہیں۔ نائن الیون سے پہلے صورت حال ایسی تھی نہ دنیا مذہبی تعصب کی بنیاد پر اس قدر کشیدہ تعلقات میں تقسیم تھی۔ اس وقت کے امریکی صدر جارج بش جونیئر نے نائن الیون حملوں کے فوراً بعد دو جملے کہے۔ ’’امریکہ انڈر اٹیک ‘ اٹ از کروٹیسڈ‘‘ بعدازاں دنیا نے ان حملوں کی وجوہات اور حملہ آوروں کی نفسیاتی و نظریاتی پڑتال پر مبنی کئی مقالے لکھ ڈالے مگر صدر بش کے دو جملے مستقل اس صورت حال سے چسپاں ہو گئے۔ بعد کے حالات ثابت کرتے ہیں کہ افغانستان‘ پاکستان اور مشرق وسطیٰ میں مداخلت کے لئے دہشت گردی کا ایک موضوع ترتیب دیا گیا۔ تحقیقی مقالات میں اسلام‘ ریڈیکل اسلام‘ ٹیررسٹ اسلام اور ایسی درجنوں اصطلاحات گھڑی گئیں جن کا مقصد مسلمان اور دین اسلام کو عالمی امن کے لئے خطرہ ثابت کرنا تھا۔ اس خطرناک عمل نے دنیا بھرمیں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصب کو ہوا دی۔ حجاب‘ داڑھی‘ ٹوپی مسجد اور عربی زبان کو نشانہ بنایا گیا۔ مساجد پر حملے ہوئے اور مسلمانوں کے شعائر مقدسہ کی توہین کی جاتی رہی‘ ستاون مسلم ممالک کے سربراہ ہر سال جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوتے رہے۔ لیکن دین اسلام اورشعائر اسلام کے تحفظ کے لئے اس درد مندی اورغیر ت دین کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ جس طرح عمران خان نے اسلامو فوبیا کو موضوع بناکر مغربی ممالک کے تضاد کو اجاگر کیا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ عالمی نظام‘ بین الاقوامی قوانین اورعالمی امن کو عزیز رکھا ہے۔ سارا مغرب جب سوویت یونین سے عاجز آیا ہوا تھا تو پاکستان نے تاریخ ساز کردار ادا کیا۔ امریکہ اور نیٹو کے 28رکن ممالک نے دہشت گردی کے خلاف جو جنگ شروع کی اس کے دو میدان جنگ تھے۔ ایک افغانستان جہاں دنیا بھر کا جدید اسلحہ امریکی فوج کی قیادت میں آزمایا جا رہا تھا اور دوسرا میدان پاکستان تھا۔ پاکستان نے تن تنہا ناصرف دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کئے بلکہ ان نظریات کی اصلاح کا مشکل فریضہ بھی انجام دیا جو شدت پسند ذہن کی تشکیل کرتے ہیں۔ امریکہ اور اس کے نئے و پرانے اتحادی سر توڑ کوششوں کے باوجود افغان جنگ کا فیصلہ حسب مرضی برآمد کرنے میں ناکام رہے۔ پاکستان سے مدد مانگی گئی اور طالبان سے امن مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ درست ہے کہ اب پاکستانی قوم امریکہ سمیت کسی ملک اور اس کی قیادت پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں اور چاہتی ہے کہ دنیا اس کے بارے میں حقیقت پر مبنی طرز عمل اختیار کرے۔ دہشت گردی کے خلاف اس کی خدمات اور قربانیوں کا اعتراف کرے اور اس کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ کا شکار نہ ہو۔ وزیر اعظم کی تقریر میں ماضی کے حوالے دے کر پاکستان کی اس نئی شناخت پر زور دیا گیا۔ کشمیر پاکستان کا حصہ اور شہ رگ ہے۔ پاکستان نے بھارت کا ناجائز قبضہ چھڑانے کے لئے چار جنگیں لڑی ہیں۔ بھارت پاکستان سے سات گنا بڑا ملک سہی لیکن جیسا کہ وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی کے سامنے کہا پاکستان سرنڈر کرنے کی بجائے خون کا آخری قطرہ بہانے کو ترجیح دے گا اور بھارت کا مقابلہ کرے گا۔ بھارت جو آج تک عالمی برادری کے سامنے مہاتما بدھ اور کرم چند گاندھی کا چہرہ پیش کر کے خود کو عدم تشدد کا پیرو کار ثابت کرتا آیا ہے ‘اسے پہلی بار عالمی برادری کے سامنے آر ایس ایس کے تشدد پسند نظریات اور نریندر مودی کی گجرات میں خون آشامی پرذلت کا سامنا کرنا پڑا۔ دنیا جاننے لگی ہے کہ بھارت میں سیکولرازم اور عدم تشدد اور جمہوریت فقط ایک ڈھونگ ہیں۔ اصل میں وہاں ہندو توا کا غلبہ ہے جو مسلمانوں سمیت کسی غیر ہندو کو زندہ رہنے کا حق نہیں دیتی۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر کا بڑا حصہ 56 روزسے کرفیو کے شکار کشمیریوں کے لئے وقف کیا۔ عالمی ذرائع ابلاغ اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ اسلام‘ پاکستان اور اہل کشمیر کا مقدمہ اس جانفشانی ‘ خلوص اور صاف گوئی سے کسی عالمی رہنما نے اقوام عالم کے سامنے نہیں رکھا۔ وزیر اعظم نے بھارت کی جانب سے دہشت گردی کے معاملے کو کشمیریوں کی تحریک حریت کے ساتھ جوڑنے کو غلط قرار دیا۔ انہوں نے عالمی رہنمائوں سے بجا طور پر سوال کیا کہ انہیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ ان کے لئے ایک سو ارب انسانوں کی منڈی اہم ہے یا انسانی حقوق اور کشمیریوں کی زندگی ۔کشمیری اور دنیا بھر کے مسلمان انصاف اور عالمی برادری کی توجہ سے محروم ہیں۔ عالمی ادارے روز دیکھتے ہیں کہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہو رہی ہے لیکن یہ نظام مظلوم کو انصاف اور مدد فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ وزیر اعظم کی تقریر پر حاضرین کی داد اور قومی و بین الاقوامی سطح پر تحسین اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے موقف کو پذیرائی مل رہی ہے اور دنیا کشمیر کے معاملے پر بھارتی موقف کو رد کرنے لگی ہے۔