جس طرح بیت المقدس مسجدالاقصیٰ کے ساتھ جڑی دیوارکے ایک حصے کویہودی ’’دیوار گریہ ‘‘ کہتے ہوئے اس کے ساتھ کھڑے ہو کرزاروقطار روتے ہیں عین اسی طرح دنیاکے لگ بھگ تمام ممالک کے سربراہان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں آکراپنی اپنی بپتاسناتے ہیں۔ہرسال ستمبر کے آخری عشرے میںاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس نیویارک میںمنعقد ہواکرتاہے اوراقوم متحدہ سے وابستہ تمام رکن ممالک کے سربراہان مملکت یہاں آکر تقاریرداغ دیتے ہیں ۔اس دفعہ بھی حسب سابق دنیاکے طاقتور،ظالم وسفاک ممالک کے سربراہان نے بین الاقوامی معاملات میں اپنے اثرورسوخ ، اپنی سازشی تھیوری کے کارڈزکواستعمال کیا۔ظاہرہے کہ ان کا لب ولہجہ مصالحتی اور انکی تقاریر کا پیرایہ کہاں مثبت ہوسکتاتھا ۔ان کے کھیلے جانے والے کارڈز، انکی باڈی لینگویج ،ان کے لال پیلے چہروں مہروں سے صاف اندازہ لگ گیا کہ وہ دنیاکو اپنی لاٹھی سے ہانکنے سے باز آنے والے نہیں۔لیکن ایسے میں کسی مصلحت کیشی ،کسی شکستہ آواز اور دھیمے لہجہ کے بجائے ترکی کے صدرجناب صدراردوان اور وزیراعظم پاکستان عمران خان نے حسب سابق اتنی دبنگ تقریر داغ دی جس کا لفظ لفظ انسانیت کواپیل کررہاتھااورحرف حرف دنیاکے چوہدریوں سے شاکی تھا۔دونوں نے کشمیر،فلسطین میں ہو رہے مظالم اورعالم اسلام کودرپیش مسائل کوخوب اور نہایت احسن طریقے سے ابھارا۔ یہ سچ ہے کہ اقوام متحدہ امریکہ کی لونڈی بن چکی ہے اور جنرل اسمبلی کے اس اجلاس میں مسلمانوں کے حق میںکچھ بھی ہونے والا نہیں ہوتا جیساکہ اس کالم کے عنوان اوراسکی تمہیدمیں واضح کیاگیا ۔ تاہم ریکارڈ کودرست رکھنے کے لئے حق اورسچ کی صداہرفورم پربلند ہونی چاہئے لیکن تادم تحریر ان دو سربرہان مملکت کے علاوہ کسی بھی مسلمان ملک کے لیڈرکویہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ چاردانگ عالم مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے مظالم پر جرات مندانہ طرزعمل اختیارکرتے ہوئے اقوام متحدہ کے بام ودر لرزاسکے۔ اعلاناََ کہہ دینا چاہئے کہ کرہ ارض پرمظلومانہ زندگی گزارنے پرمجبورکئے جانے والے مسلمانوں کے تحفظ کیلئے عالمی سطح پر اقدام اٹھائے جائیں۔ اصل کرنے کا کام یہی تھا۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مظلوم مسلمانوں کے بدترین حالات کوایجنڈابناکراجلاس میں رکھا جانا چاہئے تھا اور دنیابھرمیںمسلمانوں پرہورہی جارحیت کے خاتمے کے لئے ایک زوردار آواز بلند کرنی چاہیے تھی ۔ وہ بھی کیازمانہ تھا کہ امت مسلمہ کا مبارک نام سن کر ماضی میں طاغوت لرزہ بر اندام تھا لیکن آج امت مسلمہ جس زبوں حالی کی شکار ہے اسے دیکھ کر امت مسلمہ کا مبارک نام قلم کی نوک پر لاتے ہوئے سر ندامت سے جھک جاتا ہے۔ حالانکہ مختلف ادوار میں کئی فورم تشکیل پائے جن میں سب سے بڑافورم اسلامی کانفرنس یااوآئی سی ہے۔یہ تنظیم اس نعرے کے ساتھ میدان میںاتری کہ وہ امت مسلمہ کی عظمت رفتہ بحال کرائے گی۔ لیکن افسوس صدافسوس امت مسلمہ کی عظمت رفتہ بحالی کیا ہونا تھی یہ تنظیم کو یہ اپنامقام بنانے میں کوئی کارنامہ انجام نہ دے سکی۔ یہ اقوام متحدہ کے قیام کے ابتدائی سال تھے۔ (Leauge of Nations)کے نام سے ایک عالمی تنظیم جنگ عظیم دوئم کی بھڑکنے والی آگ میں بھسم ہو چکی تھی۔ اقوام عالم نے (League of Nations)کو اس وقت تاریخ کی قبر میں دفن کر دیا تھا۔ جب یہ طے ہو چکا تھا کہ جو عالمی تنظیم ایک ایسی عالمی جنگ کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکی کہ جس نے انسانوں اور انسانیت کو موت، تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا اپنے وجود کا جواز نہیں رکھتی (League of Nations) کی راکھ پر ہی( United Nations) کے نام سے ایک نئی تنظیم کا تاج محل اس امید کے ساتھ تعمیر کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ جو دنیا کو جنگوں ، بھوک ، افلاس ، جہالت، بیماریوں سے بچائے گی ۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کی منظوری دیتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا گیا تھا کہ اب دنیاکوجنگوں کی بھینٹ نہیں چڑنے دیا جائے گااورکسی کویہ حق نہیں پہنچتاکہ وہ لاٹھی کی بنیاد پر دوسروں کی حق کی تلفی کرے ۔لیکن اقوام متحدہ کے دہرے معیار نے اس ادارے کے وجود، ساکھ اور (Credibility) کے آگے ایک بڑا سا سوالیہ نشان لگا رکھا ہے جو یہ ہے کہ کیا اقوام متحدہ عالمی تنظیم کہلانے کی حقدار بھی ہے ؟ اور اس کے اور اسے قبل والی ’’لیگ آف نیشنز‘‘میں عملی طورپرکوئی فرق اب پایانہیں جارہااور مسلمانوں کے معاملات میں تواس ادارے کا رویہ دیکھ کرزبان سے UNO کی بجائے بے ساختہ U....NOنکل جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی آج تک کی پوری تاریخ کھنگال لیجئے تو معلوم ہو گا کہ اقوام متحدہ کا مسلمانوں کے خلاف تیار کردہ سازشوںمیں کتنا بڑاعمل دخل رہا ہے اور یہ بھی صاف صاف پتا چلتا ہے کہ مسلمانوں کے حقوق کے حوالے سے اس ادارے نے کس طرح ہمیشہ مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا ہے ۔جبر پر مبنی ایسے اصول اور قاعدے مسلمانوں پر مسلط کر دئیے گئے جن سے یہ صاف واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ادارہ پوری دنیا میں مسلمانوں کی تباہی اور بربادی کیلئے سر گرم ہے ۔ اقوام متحدہ کی اپنی ہی تاریخ اس امرپرشاہد ہے کہ اس نے ہمیشہ یہود و نصاریٰ اورہنود کی حمایت تو کی لیکن مسلمانوں کی تکلیف اور ان پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم سنائی دیتا ہے نہ نظر آرہا ہے ۔یہ اقوام متحدہ کا دہرا معیار اور منافقانہ چلن ہی ہے جس نے دنیا کے مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا ہے اورمسلمان ممالک اس سے کلیتاً مایوس ہونے جا رہے ہیں۔ مسلم معاشروں میں یہ سوچ بڑی شدت سے جڑ پکڑتی جا رہی ہے کہ انہیں اقوام متحدہ سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے ۔ یہ ادارہ ان کے نزدیک امریکہ اور اسکے اتحادیوںکے ہاتھوں یرغمال ہے جو مسلم دشمنی پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ عراق اور افغانستان میں مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہانے کیلئے اور دونوں مسلمان ممالک کو تاراج کرنے کیلئے اس ادارے نے امریکہ کو جو دست تعاون فراہم کیا اس سے یہ ادارہ مسلم امہ کے لئے پیچیدہ ، مشکل اور کمر توڑ مسائل پیدا کرنے کا براہ راست ذمہ دار ہے ۔یہ ادارہ آج بھی ان استعماری قوتوں کی بھر پور مدد کر رہا ہے جو دنیا میں مسلمانوں کا صفایا کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے قیام کے تقاضے ’’لیگ آف نیشنز‘‘کے برعکس اگرکچھ اور تھے تووہ پھرتقاضے کہاں گئے ۔بس یہ ایک دردناک کہانی ہے جوامریکہ سے شروع ہو کرامریکہ پرہی ختم ہوجاتی ہے ۔ دراصل آج صورتحال یہ ہے کہ ستاون مسلم ممالک کی حکومتیں سوائے دوتین کے سب امریکہ کی کنیز یں بنی ہوئی ہیں۔ آمریتیں اس کی غلام، دنیاکی نام نہادجمہوریتیں اس کی دہلیز پہ سجدہ ریزہیں؟ امریکہ ہو یا اسکااتحادی یورپ، سب کی رگ جاں معاشی مفادات میں ہے۔ ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ مسلمانوں کے ستاون ممالک کے پاس اتنا کچھ ہے کہ وہ امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو ان کی اوقات یاد دلا سکتے ہیں ۔