اپنے سینے میں تاریخ کوئی راز چھپا کر نہیں کھتی۔ سب بھید مگر فوراً ہی افشا نہیں ہوتے‘ روس کے سٹالن، ترکیہ کے اتا ترک اور چین کے مائوزے تنگ بھی عظیم ہیرو تھے‘ وقت گزرنے کے ساتھ زنگ آلود ہوتے گئے۔ سبھی عہد کے کردار پوری طرح ادراک میں تب آتے ہیں جب اس زمانے کے تعصبات کی گرد بیٹھ چکے۔ زیر و بم سے پاک، اسی شائستہ، مدھم اور ہموار آواز میں، ہمیشہ سے جو غلام مصطفی خان میرانی صاحب کا خاصہ ہے، کہانی وہ کہتے رہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق اور ان کے گرامی قدر استاد سردار محمد کی کہانی۔ لاہور کا گلابی جاڑہ، رم جھم کی مدھر آواز اور دو وضع دار آدمیوں کی داستان۔یوں لگا کہ ہم خود بھی قدیم زمانے کے کردار ہیں۔بیتے زمانوں کے کسی نخلستان میں، نصف شب کو الاؤ کے گرد بیٹھے گزرے دنوں کو یاد کرنے والے۔ 12اکتوبر99ء کو وزیرِ اعظم میاں محمد نوا ز شریف نے، جنرل پرویز مشرف کو اٹھا پھینکنے اور جنرل نے تخت پہ براجمان ہونے کا فیصلہ کیا تو میرانی صاحب لاہور کے ہوائی اڈے پر ایوی ایشن اتھارٹی کے منیجر تھے۔مسافروں کا واسطہ پی آئی اے سے پڑتا ہے یا کبھی کبھار کچھ کا امیگریشن والوں سے۔ اہم ترین ادارہ ایوی ایشن اتھارٹی ہے، جو ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں قائم ہوئی اور جم گئی۔ اپنے نرم رویے اور نجابت کے طفیل میرانی ایک محبوب آدمی ہیں۔سرکارؐ کا فرمان ہے کہ ہر صاحبِ نعمت سے حسد کیا جاتا ہے۔ میرانی کوئی استثنا نہیں ۔ با ایں ہمہ اپنی پوری عملی زندگی میں انہیں صر ف دو با ر سفاکی سے واسطہ پڑ ا۔ ایک بار 12اکتوبر99ء کے فوراً بعدنوازشریف کے خلاف میرانی صاحب کو گواہی دینے کے لیے کہا گیا‘ انہوں نے انکار کیا اور برطرف ہوئے۔ جب دوسری بار جنابِ عثمان بزدار کے وزارتِ اعلیٰ پر متمکن ہونے پر، شدومد سے یہ سلسلہ اب تک جاری ہے ان کے کھیت جلا دیئے جاتے ہیں‘ ان پر جھوٹے مقدمات قائم کئے جاتے ہیں۔ وہ فریاد کرتے ہیں اور اکیسویں صدی کی ریاست مدینہ میں عمران خان سمیت فریاد سننے والا کوئی نہیں۔لیکن یہ کہانی پھر کبھی۔ آج صرف دو وضع دار آدمیو ں کی دل گداز داستان۔ یہ1983تھا، جب پاکستان کے فوجی حکمران کو سعودی عرب کے شاہ خالد کا پیغام ملا: اپنا ایک طیارہ میں اسلام آباد بھیج ر ہا ہوں۔ اپنی پسند کے چار سو پاکستانیوں کو حجازِ مقدس بھجوا دیجیے۔ وہ میرے مہمان ہوں گے۔ پھر یہی طیارہ انہیں واپس وطن لے جائے گا۔ ڈیرہ غازی خان میں میرانی صاحب کے پدر نسبتی سردار محمد کے چھوٹے سے سندھ پرنٹنگ پریس پر ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف جنرل کے ملٹری سیکرٹری کرنل محمود علی درانی تھے، وہی کہ سترہ اگست1988ء کو تاریخ کا ورق الٹا دینے والے حادثے پر، جن کے بارے میں شبہات کا اظہار کیا گیا۔ کرنل نے انہیں بتایا کہ اپنی بیگم کے ہمراہ جلد از جلد وہ اسلام آباد پہنچیں۔ فوراً ان کے پاسپورٹ بنوانا اور انہیں حجِ بیت اللہ کے لیے جانا ہے۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں دو ہفتے بتانے کے بعد سردار محمد اور ان کی اہلیہ اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر اتریں تو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے عملے نے ان کا خیر مقدم کیا۔ گاڑی میں سوار جی ٹی روڈ پر وہ جنرل کے گھر لے جائے گئے۔دفتر سے لوٹ کر وہ آیا تو اس نے کہا: ایک ہفتے کے لیے میرے گھر قیام کیجیے کہ پرانی یادیں تازہ کریں۔لڑکپن کے دن، شبنم میں دھلے گل زاروں کی ٹھنڈی ہوائیں، چھتنار درختوں کے سائے میں بیتے ہوئے ایام۔ صبح سویرے رخصت ہونے اور رات گئے گھر لوٹنے والا حکمران کچھ دیر ان کے پاس بیٹھا رہتا اوران کی اسم با مسمیٰ اہلیہ شفیق خاتون بھی، غلط طور پر جنہیں اکثر شفیقہ لکھا جاتا ہے۔ ڈیرہ غازی خان کا قصد تھا۔ درانی لیکن مصر ہو گئے کہ دو دن انہیں میزبانی کی سعادت عطا کریں۔ اگلے دن آدھی رات کو اچانک افتاد آپڑی۔ مہمان برین ہیمبرج کا شکار ہو گیا۔ افراتفری میں انہیں جنرل ہسپتال لے جایا گیا۔سرکاری ڈاکٹروں کی بے نیازی۔ کسی کو سوجھا کہ جنرل سے رابطہ کیا جائے۔ دوسرے سرے پر کیپٹن پیر محمد تھے۔ ’’رات کے تین بجے ہیں‘‘ اس نے کہا، تیس برس پہلے جو میجر ضیاء الحق کے اردلی مقررہوئے۔ اب کپتان کے عہدے پر آپہنچے اور خاندان کا ایک فرد سمجھے جاتے۔ اوول اوول پیر محمد شش و پنج کا شکار تھا مگر دو منٹ کے بعد جنرل کی غنودہ آواز سنائی دی۔ قریب ہی موجود ڈاکٹر سے اس نے کہا: مریض ان کا مہمان اور استاد ہے۔ان کا خیال رکھیے۔ کچھ دیر میں، میں خود ہسپتال پہنچتا ہوں۔ اسی وقت تو نہیں مگر دس بجے وہ آن پہنچا۔ بہترین ڈاکٹر معائنہ کر چکے تھے۔ ٹیسٹ کیے جا چکے تھے۔سینئر ترین ڈاکٹر دیر تک باہم مشورہ کرتے رہے تھے۔ دو ٹوک الفاظ میں صدرِ پاکستان کو انہوں نے بتایا کہ موزوں علاج کے لیے مریض کو لاہو ر کی جیل روڈ پرواقع سروسز ہسپتال پہنچانا ہوگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایمبو لینس کا انتظام ہوا اور چار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع چکلالہ ہوائی اڈے پر ہیلی کاپٹر کا بھی۔ خوش خوش صحت یاب ہو کر سردا ر محمد اور ان کی اہلیہ چند دن میں گھر لوٹ گئے۔جالندھر سے شروع ہونے والی رفاقت بیتے ہوئے برسوں میں برقرار رہی تھی۔ اس وقت، جب وہ ملتان کے کور کمانڈر تھے اور فوجی گاڑیوں کے نیچے لیٹ کر خود ان کی مرمت کیا کرتے۔ اب مگر اس رفاقت میں کچھ اور گہرائی پیدا ہو گئی۔ حادثات تعلقات میں عمق پیدا کرتے ہیں اور نصف شب کو اپنائیت میں ہونے والی گفتگوئیں بھی۔ چار برس بیتے تھے، جب ماسٹر سردار محمد کو اطلاع دی گئی کہ صدرِ پاکستان سرکاری دورے پر ڈیرہ غازی خان پہنچ رہے ہیں۔ شام کی چائے وہ ان کے ہاں پئیں گے۔ ماسٹر جی کا چھوٹا سا گھر اور اتنا بڑا مہمان۔ مکان کی صفائی کی گئی۔ بہترین برتن چمکائے اور سجائے گئے۔ ایسے آدمی کو جو عرب بادشاہوں اور امریکی صدور کی میزبانی کا لطف اٹھاتا ہو، چائے کے ساتھ کیا پیش کیاجائے۔ بزرگ سردار محمد کی اہلیہ پریشان تھیں ’’کچھ بھی تو نہیں‘‘ ان کے میاں نے کہا ’’وہ ایک سادہ سا آدمی ہے‘‘صدرِ پاکستان نہیں، شاگرد کی حیثیت سے وہ آئے گا۔ اپنوں میں تکلف کیسا۔ بیگم سردار محمد کی رہی سہی پریشانی کچھ دیر میںمہمان نے دور کر دی۔بے تکلفی سے وہ ہنسا اور اس نے کہا ’’ماسٹر جی!آپ کی وہ رائفل کہاں ہے، 45برس پہلے جسے چھونے پر آپ نے مجھے ڈانٹا تھا۔ماسٹر صاحب کی آنکھوں میں چمک ابھری اور بجھ گئی ’’20برس پہلے میں نے وہ بیچ ڈالی تھی، حالات کچھ خراب سے تھے‘‘ایک لمحہ سناٹا ماحول پہ چھایا رہا۔ پھر مہمان بڑبڑایا ’’بیلجیم کی بنی ہوئی وہ شاندار رائفل‘‘بچپن کی یادیں کتنی گہری، کس قدر توانا ہوتی ہیں۔ جو بھی لمحہ، جو بھی منظر ذہن پہ ثبت ہو جائے، عمر بھر جگمگاتا یا دھواں دیتا رہتا ہے۔ ایک ماہ بیتا تو ڈیرہ غازی خا ں کے کمشنر نے سردار محمد کے گھر تقریب برپا کی۔ بیلجیم کی بنی ہوئی ویسی ہی رائفل ان کی خدمت میں پیش کی گئی۔ لطیفہ یہ ہے کہ سردار محمد کبھی جنرل ضیاء الحق کے استا د نہ تھے۔ ہاں، البتہ ضیاء الحق جب تیسری جماعت کے طالبِ علم تھے تو ان کے پڑوسی سردار محمد حقِ ہمسائیگی میں انہیں پڑھایا کرتے؛لہٰذا ماسٹر جی مشہورہو گئے۔ اپنے سینے میں تاریخ کوئی راز چھپا کر نہیں کھتی۔ سب بھید مگر فوراً ہی افشا نہیں ہوتے‘ روس کے سٹالن، ترکیہ کے اتا ترک اور چین کے مائوزے تنگ بھی عظیم ہیرو تھے‘ وقت گزرنے کے ساتھ زنگ آلود ہوتے گئے۔ سبھی عہد کے کردار پوری طرح ادراک میں تب آتے ہیں جب اس زمانے کے تعصبات کی گرد بیٹھ چکے۔