آپ نے "جنریشن گیپ" کا لفظ تو سن رکھا ہوگا۔ جب اس لفظ کا استعمال ہوتا ہے تو ساتھ ہی "نئی نسل" کا لفظ بھی سننے کو ملتا ہے۔ ایک بچہ پیدا ہوتا ہے اور وہ بیس برس کی عمر کو پہنچتا ہے تو یہ اکائی نئی نسل کے طور پر اپنی فملی میں باقاعدہ درج ہو جاتی ہے۔ پھر خاندان میں یہ گروپ خاندان کی نئی نسل ہوتا ہے اور اسی طرح یہ قبیلے، صوبے اور قومی سطح پر نئی نسل قرار پاتا ہے۔ چونکہ بڑی سطح پر دو الگ نسلوں کو گننا ممکن نہیں ہوتا چنانچہ اس سطح پرکم از کم بیس برس کا فاصلہ نئی نسل گنا جاتا ہے لیکن فیملی کی سطح پر محض عمر کا فرق کافی نہیں ہوتا بلکہ نئی نسل کا نئے باپ سے ہونا بھی ضروری ہے۔ مثلا شاہ فہد کا سب سے چھوٹا بیٹا اپنے بڑے بھائی سے چالیس سال چھوٹا ہے لیکن گناوہ اپنے بھائیوں والی نسل میں ہی جائے گا۔ اس فیملی میں نئی نسل وہ گنی جائے گی جو شاہ فہد کے بیٹوں کی اولاد ہوگی۔ البتہ قومی سطح پر بیس برس کا فرق نئی نسل گنا جائے گا۔ اسی پیمانے کے مطابق پاکستان اس وقت ایک اعتبار سے چوتھی جبکہ دوسرے اعتبار سے پانچویں نسل کے دور سے گزر رہا ہے۔ اگر ہم معیار یہ طے کریں کہ جو لوگ قیام پاکستان کے وقت بیس برس کے تھے وہ پاکستان کی پہلی نسل تھی تو ہمارے موجودہ بیس برس کے نوجوان پانچویں نسل ہیں لیکن اگر ہم یہ اصول اختیار کر لیں کہ جو لوگ قیام پاکستان کے فوراً بعد پیدا ہوئے وہ پاکستان کی پہلی نسل تھی تو پھر اس وقت چوتھی نسل پیدا ہو چکی ہے جو بارہ سال بعد بیس برس کی عمر میں ہوگی۔ جبکہ وہ پہلی نسل جو قیام پاکستان کے بعد پیدا ہوئی تھی اس کے زندہ افراد اس وقت ستر کے پیٹے میں ہمیں اپنے آس پاس نظر آتے ہیں۔ اب تہذیب و تمدن چونکہ ارتقاء سے گزرتا ہے جس کے نتیجے میں پچھلی روایات متروک ہوتی جاتی ہیں اور نئی روایات ان کی جگہ لیتی ہیں اور نئی روایات نئی نسل لاتی ہے تو اس کے نتیجے میں دو مختلف روایات کی نمائندگی کرنے والی نسلوں میں کھچاؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کھچاؤ میں چونکہ بنیادی کردار "مدت" کے فرق کا ہوتا ہے تو یہ دلچسپ چیز بھی دیکھنے کو ملتی ہے کہ ایک چاچا یا ماموں اپنے بھتیجوں یا بھانجوں کا ہم عمر ہونے کے سبب اس کھچاؤ میں اپنی نسل کے بجائے اپنے ہم عمربھتیجوں یا بھانجوں کی صف میں کھڑا ملتا ہے۔ نئی نسل اپنی روایات متعارف کرنے لگتی ہے تو اس میں سے بہت سی چیزیں پرانی روایات کی عینک سے بہت معیوب دکھتی ہیں۔ چنانچہ پرانی نسل نئی نسل کو شرم دلانے کی کوشش کرتے ہوئے کہتی ہے۔ "بیٹا شرم کرو ! تم ہمارے خاندان کی ناک کٹوانے کی کوشش کر رہے ہو اور یہ میں نہیں ہونے دونگا" جبکہ نئی نسل کا نمائندہ کہتا ہے "اباجی ! زمانہ بہت آگے نکل آیا ہے اور آپ ابھی تک پرانے وقتوں میں جی رہے ہیں۔ ناک کٹ گئی تو کیا ہوا ؟ پلاسٹک سرجری کروا لیں گے" دو نسلوں میں کھچاؤ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کو بیان کرنے کے لئے "جنریشن گیپ" کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ یہ کھچاؤ دو متصل نسلوں میں زیادہ خطرناک ہوتا ہے جو ضد بازی کے سبب نئی نسل کی جانب سے فیملی میں بغاوت کی کیفیت بھی پیدا کر دیتا ہے۔ لیکن اگر یہ منفصل نسلوں یعنی دادا پوتے میں ہو تو اتنا خطرناک نہیں ہوتا کیونکہ دادا پوتے کے معاملے میں شفیق بہت ہوتا ہے۔ دو نسلوں کے مابین یہ کھچاؤ کبھی ختم نہیں ہو سکتا اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ارتقاء کا عمل رک نہیں سکتا۔ مغرب نے اس کا حل یہ نکالا کہ نئی نسل کو 18 برس کی عمر میں مکمل خود مختار کردیا لیکن اس کے نتیجے میں ان کا خاندانی نظام ہی تباہ و برباد ہو کر رہ گیا۔ اس صورتحال کا بہترین حل افہام و تفہیم ہی ہے۔ ہمیں نئی روایات کتنی ہی ناپسند لگیں لیکن ہم انہیں رونما ہونے سے نہیں روک سکتے۔ ہم زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے ہیں کہ خود ان کا حصہ نہ بنیں۔ روایات کی تبدلی کی دو مثالیں دیکھئے۔ پچھلی بار مجھ سے کراچی میں قیام کے آخری دنوں میں ایک نوجوان ملے اور کہا۔ "میں آپ کی دعوت کرنا چاہتا ہوں"عرض کیا ’’بہت شکریہ ! انشاء اللہ ضرور حاضر ہونگا" ہماری نسل کی روایات کے مطابق میں متوقع تھا کہ اب وہ مجھ سے دن اور وقت پوچھیں گے لیکن انہوں نے فرمایا۔ "آپ مجھے کال کر دیجئے گا کہ کب دعوت کھانا چاہیں گے" لگا تو مجھے 440 والٹ کا جھٹکا لیکن میں نے عرض کیا۔ "جی انشاء اللہ ضرور"مجھے اس بات میں ادنیٰ درجے کا بھی شبہ نہیں کہ وہ نوجوان واقعی بہت اخلاص کے ساتھ دعوت کرنا چاہتے تھے لیکن ارتقاء کے عمل نے انہیں دعوت دینے کا جو طریقہ دیدیا تھا وہ ہماری نسل میں بہت معیوب تھا۔ ہماری نسل میں اس قسم کی دعوت صرف ان دوستوں کو دی جاتی ہے جن سے سالوں کی بے تکلفی ہو۔ کچھ اسی قسم کی صورتحال ایک بار یوں بھی پیش آئی کہ صلاح الدین ہاتھ میں موٹر سائیکل کی چابی پکڑے آئے اور کہا۔ "ایک صاحب ! آپ کو عجوہ کھجور کا تحفہ دینا چاہتے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ چوڑ چوک آ کر لے جاؤ۔ یہ چوڑ چوک کہاں ہے ؟" اب یہ نسل چوڑ چوک جانے کو تیار تھی لیکن میں نے کہا"اگر مجھے دینا چاہتے ہیں۔ تو جانے کی ضرورت نہیں۔ میری نسل میں تحفوں کے لین دین کا طریقہ یہ نہیں۔" میں نے بچے کو یہ سوچ کر روک دیا کہ ہماری نسل میں تحفے تحائف کے تبادلے کا یہ طریقہ کار توہین آمیز تھا لیکن جو تحفہ دینا چاہتا تھا وہ یقینا یہی سوچ کر رہ گیا ہوگا کہ میں کوئی ایسا متکبر شخص ہوں جو تحفہ قبول کرنے کے لئے چند قدم خود آسکا اور نہ ہی بچے کو بھیجا۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ ان کی اگلی نسل ان کے ساتھ کیا کیا سلوک کرے گی ؟ کوئی بعید نہیں کہ وہ ان سے کہے، میں آپ کی دعوت کرنا چاہتا ہوں، آپ فلاں ریسٹورنٹ تشریف لے جا کر میرے اکاؤنٹ سے اپنی پسند کا کھانا کھا لیجئے۔ اور لطف تو تب آئے کہ یہ کھانا کھا بیٹھیں اور میزبان کا اکاؤنٹ خالی ہو۔