اس جوان العمر افسر نے پاکستانی کنسلٹنٹ کو مشکل میں ڈال دیا،وہ اگر کہیں رہائش کی بات کرتا تو اسکے لئے بہترین رہائش کا انتظام ہوسکتاتھاکہیں آنے جانے میں سہولت کا طالب ہوتا توڈرائیور بمع گاڑی کے دے دی جاتی کوئی اور مسئلہ ہوتا تو اس کے حل کی بھی کوشش ہوسکتی تھی لیکن اس نے بات ہی ایسی کی تھی جو مشکل تھی ، پاکستانی کنسلٹنٹ کی نظریں اسکے چہرے پر جم گئیں اسکی آنکھوں میں عقیدت کے چراغوں کی لو تھرتھرارہی تھی، پاکستانی کنسلٹنٹ نے کچھ دیر سوچا اور سفید سنگ مرمر کے شفاف فرش پر چلتے ہوئے اس کمرے کے سامنے پہنچ گیا جہاں کم لوگوں کی ہی رسائی تھی ، یہ کمرہ مدیر حرمین شریفین شیخ محمد بن عبداللہ السبیل رحمتہ اللہ علیہ کا تھا، وہ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی ﷺکے امام اور سعودی عرب کی فقہ کونسل کے رکن تھے، ان کی علمی حیثیت ممتاز تھی انہیںسوالاکھ احادیث حفظ تھیں ،ستائیس کتابوں کے مصنف تھے ان دنوں خانہ کعبہ میں کچھ تعمیراتی کام ہورہا تھا اور اس کام کی سعادت اسی پاکستانی کنسلٹنٹ کے پاس تھی، اس لئے اس کا شیخ سے بھی رابطہ رہتا تھا اوران سے ایک تعلق بن چکا تھا، اسے توقع تھی کہ شیخ اس کے کہنے پر پاکستانی افسر کو ملاقات کا شرف ضرور بخشیں گے کیوں کہ شیخ السبیل،حمید گل صاحب سے بھی خاصی محبت کرتے تھے اور وہ افسر جنرل حمید گل صاحب کی سفارش لے کر آیا تھا، شیخ کا حمید گل مرحوم سے بڑی شفقت کا رشتہ تھا، حمید گل مرحوم نے ریٹائرمنٹ کے بعدشیخ سے کہا تھا کہ میرے لئے دعاکریں کہ اسلام کے لئے متحرک رہوں، میں نے وردی تو اتار دی ہے لیکن بوٹ نہیں اتارے اور نہ ہی اتاروں گا۔ وہ پاکستانی کنسلٹنٹ شیخ کے پاس پہنچا اور کہا کہ جانتا ہوں آپ بہت مصروف رہتے ہیں لیکن میرے ہم وطن کو کچھ وقت دے دیجئے وہ آ پ سے ملنے کا متمنی ہے ،ساتھ ہی حمید گل صاحب کی سفارش کا بھی ذکرکردیا ، شیخ مسکرا دیئے جس کے بعد وہ نوجوان شیخ محمد السبیل رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں یوں حاضر ہوا کہ نظریں جھکی ہوئی تھیں، اس نے نیچی آواز میں سلام کیا شیخ نے شفقت سے جواب دیا اور مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھا دیا، جسے اجنبی نے عقیدت سے تھام کربوسہ دے ڈالا، شیخ نے جھٹ سے ہاتھ کھینچ لیا،عرب اسے بدعت مانتے ہیں، شیخ نے اسے سمجھایاکہ یہ بدعت ہے ایسا نہیں کرنا چاہئے جواب میں نوجوان نے ٹوٹی پھوٹی عربی میں کہا کہ ثواب کی نیت سے کب ایسا کیا ہمارے علاقے میں تو بزرگوں سے اسی طرح احترام سے ملا جاتا ہے ، ان کے ہاتھ چومے جاتے ہیں جس پر شیخ محمد السبیل رحمتہ اللہ علیہ مسکرا دیئے اس ملاقات میں اس پاکستانی نوجوان نے عاجزی سے دعا کی درخواست کی شیخ نے بڑی محبت سے دعا فرمائی اور شائد نہیں یقینا وہ بھی مقبول ہوئی ۔ اس دعا کے بعد پاکستانی کنسلٹنٹ نے مسکراتے ہوئے اپنے ہم وطن افسر سے بے تکلفی سے کہا ’’میجر صاحب !اب آپ کو بریک نہیں لگنی، آپکی جرنیلی تو پکی ۔۔۔ ‘‘ اس پرمیجر صاحب نے کہا ’’لیکن میں نے تو اس دعا کا کہا ہی نہیں ‘‘ پاکستانی کنسلٹنٹ نے اسے کہا لیکن شیخ نے تو دنیا وآخرت کی کامیابی کی دعا دی ہے، بس آپ دیکھ لیناآپ کی بریکیں جرنیلی سے پہلے نہیں لگنیں‘‘ اور ایساہی ہوا وہ میجر ترقی کی منازل طے کرتا چلا گیا، اس نے بچپن میں قرآن حفظ کیا تھا، اللہ نے اسے حرمین میں ام القراء سے دوبارہ قرآن حفظ کرنے کا اعزاز بخشا اوروہ آگے بڑھتا کرنل، بریگیڈئیر،میجر جنرل،لیفٹننٹ جنرل سے ہوتا ہوا آج پاک فوج کا سپہ سالار بن گیا ۔ جنرل عاصم منیر کا کیرئیر شاندار رہا ہے۔ دوران تربیت اعلیٰ کارکردگی پر اعزازی شمشیر کا حصول ، ملک کے دو بڑے حساس اداروں ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کی سربراہی کے تجربے ،کور کی کمان کے بعدمیرٹ پرسرفہرست ہونے کے باجودبزعم خود تجزیہ کاروں نے اس اہم تعیناتی پر جنرل عاصم منیر کے نمبرکم سے کم رکھے ،کسی کو ان کا ملٹری اکیڈمی کاکول کے بجائے آفیسر ٹریننگ اسکول منگلا سے پاس آؤٹ ہونے کو کم اہم لگا،کسی نے کہا کہ فوج کے لئے سازوسامان کا انتظام کرنے والا کوارٹر ماسٹر جنرل اہم عسکری مشاورت سے باہر ہوتا ہے اسی لئے آج تک تو کوئی کوارٹر ماسٹرسپہ سالار نہیں لگا لیکن اس بارایسا ہوگیاکمان کی چھڑی امام کعبہ شیخ السبیل کی ’’دعا‘‘ کے پاس آہی گئی اور دین بیزار لوگوں کو پتنگے لگ گئے۔ جنرل عاصم منیر نے مشکل وقت میںپاک فوج کی کمان سنبھالی ہے ان کے سامنے اندرونی اور بیرونی چیلنج سانپ کی طرح پھن اٹھائے ہوئے ہیں ،سرحد پار انتہاپسندحکومت کی شہ پر بھارتی جرنیل آزاد کشمیر کے حصول کے لئے بے چینیوں کا اظہار کر رہے ہیں ، بھارت کا جنگی جنون اسکا دفاعی بجٹ نو اعشاریہ آٹھ فیصد اضافے کے ساتھ 76.6بلین امریکی ڈالر تک لے گیا ہے ، سی پیک پر کام کی رفتار بہت کم ہوچکی ہے اندرونی طور پر سب سے بڑا چیلنج اسٹیبلشمنٹ کی ساکھ کی بحالی ہے،بلوچ علیحدگی پسندوں کی مسلح تحریک،کالعدم ٹی ٹی پی کی کارروائیاں،امن وامان کی بگڑتی صورتحال ،تباہ حال ملکی معیشت اورہمارے اردگردپھیلی سفارتی سردمہری ہے، ان سب کا براہ راست تعلق فوج سے نہیں لیکن دفاع کا شعبہ اس کا اثر لئے بنا نہیں رہ سکتادوسری طرف سوشل میڈیا کی توپوں سے ادار ے کی ساکھ پر مسلسل بمباری ،بعض سیاست دانوں کی نوکیلی تقاریر ،تیزابی بیانات اور نفرت انگیز خطاب ماحول کا درجہ حرارت کم ہونے نہیں دے رہے، نئے سپہ سالار کوان سب چیلنجز سے چومکھی کی لڑائی لڑنا ہوگی اوریہ بھی سچ ہے کہ لڑائیاں محض دعاؤں سے نہیں لڑی جاتیں، ایسا ہوتا امام المجاہدین ﷺ سجدے سے سراٹھا کرمیدان میں نہ اترتے ،شمشیر بے نیام کرتے نہ ڈھال تھامتے، جب میرے سرکار ﷺنے دعا کو کافی نہیں جانا تو میں اور آپ کون ؟سو باتوںکی ایک بات دوا کے ساتھ دعابھی ضروری ہے جرنیل کے ساتھ دعا ہے لیکن دواکا انتظام بھی کرنا ہوگاکہ صرف دعا سے کام نہیں چلتے !