محقق پروفیسر کے وارکو رقم طراز ہیں کہ 18ویں اور 19ویں صدی میں سرینگر میں روسی اور وسط ایشیا کے تاجروں کی خاصی آمد و رفت رہتی تھی۔ روسی تاجر خاص طور پر شال خریدنے سرینگر آتے تھے، کیونکہ کشمیری شالوں کی روس میں خاصی مانگ تھی۔ روس کی زار حکومت نے تو سائبیریا میں پشمینہ بکریوں کو پالنے اور ان کے فارم ہاوسز بنانے کی آفر کی تھی، تاکہ کشمیر کے شال بننے والے کاریگروں کو کم قیمت پر اون کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔فی الوقت یہ اون منگولیا سے درآمد کرنا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خوتان اور یارقند سے قراقرم اور پامیر کے پہاڑی دروں سے جنوبی ایشیاکے شہروں کو جانے والے راستے کشمیر سے ہوکر ہی گذرتے تھے۔ وارکو کے مطابق قدیم شاہراہ ریشم کے ساتھ قربت کی وجہ سے کشمیر وسط ایشیا سے آنے والے تاجروں کیلئے اہم پڑائوہوتا تھا۔شاید کم ہی افراد کے علم میں ہوگا کہ 20ویں صدی کے اوائل تک لداخ خطے میں ترک زبان ہی رابط کا ذریعے اور دوسری زبان تھی۔ ابھی بھی اس خطے میںایسے بزرگ افراد ملیں گے، جو ترک زبان کے ساتھ شد بد رکھتے ہیں۔ محقق سلیم بیگ کے مطابق ایک ترک ارگون قبیلہ اس خطے میں رچ بس گیا ہے۔ چند برس قبل ہی بیگ اور ان کے ساتھیوں نے ترک یادگار ژا سوما مسجد کی تزئین اور آرائش کی اور اس سے ملحق وسط اایشیامیوزم کی بنیاد بھی ڈالی۔ پچھلی صدی نے بیرون دنیا کے ساتھ کشمیر کے روابط مکمل طور پر سلب کر لئے۔ سوویت یونین کے وجود سے تاجکستان، کشمیریوں کی دستبرد سے دور ہوگیا۔بعد میں کاشغر تک رسائی بند ہوگئی ، جہاں سے کشمیر قالین و شالوں کیلئے خام مال فراہم ہوتا تھا۔ 1947ء نے تو ایسا قہر ڈھایا، کہ لائن آف کنٹرول یا حد متارکہ نے تو نہ صرف زمین پر بلکہ کشمیریوں کے سینوں پر ایک ایسی خونیں لکیر کھینچی کہ اسکا رابط جنوبی ایشیا کے اکثر شہروں سے بھی کٹ گیا۔ جہاں وزیرا عظم مودی نے علاقائی روابط کو سفارتی ترجیحات میں رکھا ہے، وہاں وہ اس بات کو سمجھنے سے آخر قاصر کیوں ہے کہ وسط ایشیاء کے ساتھ روابط کشمیر سے ہوکر اور پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے ذریعے ہی ممکن ہیں۔ ان دونوں خطوں کو درکنار کرکے بس افغانستان اور ایران کے راستے اس خطے تک پہنچنا معاشی طور پر بھی سازگار نہیں ہے۔اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب منیر اکرم کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا کے روابطوں کو مسئلہ کشمیر نے یرغمال بنا کر رکھ دیا ہے۔ قزاقستان سے بذریعہ کشمیر گیس پائپ لائن کا منصوبہ ابھی بھی فائلوں میں پڑا ہوا ہے، جس کو میز پر لانے کی ضرورت ہے۔ مئی 2014کو جب پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نئی دہلی کے راشٹرپتی بھون یا صدارتی محل میں بھارت کے نو منتخب وزیر اعظم نریندر مودی کی حلف برادری کی تقریب میں شرکت کرنے کے بعد ہوٹل پہنچے، تو لابی میں چند لمحوں کی ملاقات کے دوران میں نے ا ن سے گزارش کی تھی کہ چونکہ تاجکستان، اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکوکے تعاون سے معروف صوفی بزرگ میر سید علی ہمدانی کی 700 سالہ تقریبات کا انعقاد کر رہا ہے ، کیا ہی اچھا ہوتا کہ دونوں بھارت اور پاکستان بھی اسکا حصہ بن جائیں۔ میر سید علی ہمدانی، جن کی تربت تاجکستان کے صوبہ کلوب میں ہے، کی کشمیر میں وہی اہمیت ہے، جو جنوبی ایشیا کے دیگر علاقے کے مسلمانوں کیلئے خواجہ معین الدین چشتی کی ہے۔ ایران کے شہر ہمدان میں پیدا ہوئے میر سید علی ہمدانی نے وسط ایشیا کو اپنا وطن بنایا اور یہیں سے ہی انہوں نے کشمیر کا دورہ کرکے اسلام کی ترویج و تبلیغ کی۔ پورے جنوبی ایشیا میں کشمیر واحد خطہ ہے، جہاں اونچی ذات کے ہندو یعنی برہمن جوق در جوق اسلام کی پناہ میں آگئے۔ اقبال نے فارسی شاعری میں اپنے متعلق کہا ہے۔ تنم گْلے ز خیابانِ جنتِ کشمیر، دل از حریمِ حجاز و نوا ز شیراز است ۔ مرا بنگر کہ در ہندوستاں دیگر نمے بینی، برہمن زادہ راز آشنائے روم وتبریز است ۔ میر سید علی ہمدانی تین بارکشمیر کے دورے پر آئے۔ دوسری بار انہوں نے ڈھائی سال کشمیر میں قیام کیا۔ ان کی قیام کی جگہوں پر ابھی بھی کشمیر میں خانقاہیں قائم ہیں، جو اس زمانے میں ایک طرح کے اسلامک سینٹرز تھے۔ اقبال نے ہمدانی، جنہیںکشمیر میں عرف عام میں شاہ ہمدان کہتے ہیں، کے بارے میں کہا ہے۔ سیدالسادات ، سالار عجم، دست او معمار تقدیر امم، یعنی سیدوں کے سید اور عجم کے سردار جس کے ہاتھ نے ایک قوم کی تقدیر بد ل ڈالی۔ مجھے یقین تھا کہ چونکہ 2014میں مودی کو سفارتی سطح پر آوٹ ریچ کی سخت ضرورت تھی، وہ نواز شریف کی اس تحویز کو ہاتھوں ہاتھ لے سکتے تھے۔ کیونکہ چند ماہ قبل تک بطو ر گجرات کے وزیر اعلیٰ کے کئی ممالک نے ان کے داخلہ پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ امریکہ تو ان کو ویزا بھی نہیں دے رہا تھا۔ چونکہ سید ہمدانی کی آرام گاہ تاجکستان میں واقع ہے، بھارت اور پاکستان کا تاجکستان اور یونیسکو کے ساتھ سال بھر کی تقریبات میں شرکت اور اسمیں کشمیر کو شامل کرنا ، مودی کے گلے اتر سکتا تھا۔ دونوں ممالک صوفی بزرگ کو وسط ایشیا کے ساتھ اپنے آوٹ ریچ کا آئکون یا علامت کے طور پر پروجیکٹ کر سکتے تھے۔ مگر میں نے محسوس کیا کہ اکثر سیاستدانوں کی طرح میاں صاحب کی توجہ کا دورانیہ نہایت ہی کم ہے اور ایسی کسی تجویز کی افادیت یا اسکے محرکات ان کو گوش گذار کرانا نہایت ہی پیچیدہ عمل ہے۔ پاکستانی سیاستدان ویسے بھی کسی بھی ایسی تخلیقی اعتماد سازی یا موقع و محل کا استعمال کرکے سیاسی یا سفارتی مراعات یا رعایت حاصل کروانے میں پس و پیش میں رہتے ہیں۔خیر اسوقت کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر پاکستانی یا پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی حکومتیں مظفر آباد سے تاجکستان کے کلوب صوبہ تک افغانستان کے واخان کوریڈور کے راستے بس سروس شروع کرنے کے بارے میں غور کریں۔ بعد میں اس بس سروس کو سرینگر تک وسعت دی جاسکتی ہے۔ کشمیر کے مسئلہ کو سلجھا کربھارت اور پاکستان کے درمیان جب بھی حالات معمول پر آجاتے ہیں، تو اس خط کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ وسط ایشائی ممالک کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے اثر ر وسوخ کا استعمال کرکے دونوں ممالک کواس مسئلہ کو حل کرنے اور دیرپا امن قائم کروانے میں اپنا رول ادا کریں۔ کیونکہ اس کشیدگی کی وجہ سے ان کا سب سے زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ ا نکو وادی کشمیر کے وسط ایشیا کے ساتھ روابط کو بحال کرنے میں بھرپور رول ادا کرنا چاہیے۔ ان تاریخی اور تہذیبی روابط کو استوار کرنا سبھی کے مفاد میں ہے اور اگر ان روابط کیلئے کشمیر کو ذریعہ بنایا جائے، تو خطہ کیلئے ایک وردان ثابت ہوگا اور اس سے عوام نفسیاتی طور پر کشادگی یا کھلا پن بھی محسوس کریںگے اور سرینگر کی یارقند سرائے ایک بار پھر گہما گہمی ، تجارتی و عوامی روابط کا محور بن جائیگی۔ درویش خدا مست نہ شرقی ہے، نہ غربی گھر میرا نہ دلی ،نہ صفاہاں، نہ سمرقند کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق نے آبلہ مسجد ہوں ،نہ تہذیب کا فرزند اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نا خوش میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند