جنوبی پنجاب سرائیکی وسیب ہے کہ جہاں پر صدیوں سے آباد سرائیکی وسیب کے ساتھ وابستہ کروڑوں افراد اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ملتان سے لے کر دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر آباد اِس دھرتی کی اپنی ایک الگ پہچان اور ثقافت ہے اِس دھرتی کی سب سے قدیم بستی جام پور سے مغرب کی طرف راجہ دلو رائے کا ڈھیر ہے کہ جوآج سے تین ہزار سال قبل ایک بڑی بستی اور شہر تھا لیکن قدرت کو اِن بستی والوں سے ناراض کر دیا اور یوں یہ بستی اللہ تعالیٰ کے عذاب کی زد میں آگئی اور چند لمحوں میں زمین بوس ہو کر آج تک عبرت کا نشان بنی ہوئی ہے۔ جام پور بھی قدیمی شہر ہے ، ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے بغیر جنوبی پنجاب سرائیکی دھرتی کا تصور بھی نا ممکن ہے ۔ہم آج جنوبی پنجاب کے اِن دو بڑے اضلاع کی حالیہ شدید بارشوں کی وجہ سے ہونے والی تباہی کا ذکر کریں گے۔ ڈیرہ غازی خان اور اجن پور کوہ سلیمان کے نیچے عین اُس کی زد میں واقع ہیں ۔ڈیرہ غازی خان شہر کو سب سے زیادہ خطرہ وڈور رود کوہی سے ہے جو پہاڑ سے سیدھا شہر کی طرف رخ کرتی رہی ہے لیکن گذشتہ پانچ سالوں سے وہ ڈی جی کینال کے کنارے کچی کینال کے کناروں کو توڑتی ہوئی ڈیرہ غازی خان کے نواحی علاقوں چٹ ڈگر ، چٹ سرکانی ، لوہار والا روڈ درجنوں بستوں کو تباہ کرتی آگے دریائے سندھ میں داخل ہو جاتی ہے ۔ اس طرح مٹھاون اور سخی سرور رود کوہیاں راجن پور کے نواحی علاقوں کو تباہ کرتی دریائے سندھ میں داخل ہو جاتی ہیں۔ راجن پور کے علاقوںکو رود کوہی کا یا بھی زبردست نقصان پہنچاتی ہے اب دوسری طرف ڈیرہ غازی خان کے جنوب یعنی اوبھا کی طرف کے علاقوں کو کو ہ سلیمان سے نکلنے والی رود کوہیاں تباہ کرتی ہیں اِ وران رودکوہیوں میں سوری لُنڈ اور سنگھڑ سب سے زیادہ خطرناک ہیں۔ ان دونوں رود کوہیوں نے گذشتہ روز پہاڑ پر آنے والی شدید بارشوں کی وجہ سے تونسہ سمیت منگڑوٹھہ ، سوکڑ ، بستی نتکانی ، وہوا ، مٹھے والی ، کوتانی کے علاقوں کو 70 فیصد تباہ کر کے رکھ دیا ہے لوگوں کے مال مویشی اور سامان سب کچھ اِن رود کوہیوں کی نذر ہو چکا ہے۔ اِس سال تونسہ کے ساتھ چلنے والی سنگھڑ رود کوہی میں پونے تین لاکھ کیوسک پانی آنے سے ہر طرف قیامت صغری کا منظر نظر آیا منگروٹھہ اور سوکڑ کو سنگھڑ نے تباہ کر کے رکھ دیا ہے سنگھڑ میں اتنا زیادہ پانی 1955ء کے بعد آیا کیونکہ یہ رود کوہی افغانستان سے آتی ہے اور آگے پھر کوہ سلیمان کا پانی بھی اِس میں شامل ہو جاتا ہے ۔ سنگھڑ ڈیرہ غازی خان کی سب سے بڑی رود کوہی ہے اور تونسہ کے بالکل ساتھ گذرتی ہے اِس دفعہ 14 اگست کے دن تونسہ منگروٹھہ ، سوکڑ ، وہوا کے لوگوں نے وطن عزیز کی آزادی کا دن بڑے کرب اور دکھ کے ساتھ بسر کیا ہے چونکہ اچانک پانی کا ایک بڑا ریلہ آنے سے ہر طرف تباہی ہو گئی لیکن ڈیرہ غازی خان کے ڈپٹی کمشنر محمد انور بریار نے اپنی محنت اور خداداد صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے تونسہ اور منگروٹھہ کے لوگوں کی مدد کی وہ بھی ایک مثال بن گئی ہے ۔ ڈپٹی کمشنر کے ساتھ اے سی تونسہ اسد خان چانڈیہ بھی اِس مشکل گھڑی میں عوام کی ہر طرح سے خدمت کرتے رہے۔ 14 اگست کا دن تونسہ اور منگروٹھہ کے لوگوں کے لیے سب سے مشکل دن تھا ۔ لیکن اِس مشکل گھڑی میں ضلعی انتظامیہ نے اِن بے کسوں کا بھرپور ساتھ دیا ڈیرہ غازی خان سے دس ٹرک خیموں اور پانچ ٹرک خشک راشن اور ایک سو سے زائد پکی ہوئی دیگیں چالوں کی اور سالن روٹی کی ڈسٹرکٹ ناظم سردار نذر حسین خان کورائی کی نگرانی میں منگروٹھہ ، سوکڑ ، وہوا ، نتکانی کے لیے رات 11 بجے روانہ کی گئی جنہوں نے تونسہ کے عوام کو فوری ریلیف دینا شروع کر دیا جبکہ قیامت کی اِس گھڑی میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب سردارعثمان خان بزدار اور ایم این اے خواجہ شیراز بھی اپنے عوام کے ساتھ رہے اور انتظامیہ کو لے کر متاثرہ علاقوں کا مسلسل دورہ کرتے رہے جہاں پر انسانیت کی خدمت کی بہترین مثالیں نظر آتیں رہی وہاں پر کچھ بے حسی کے واقعات بھی نظر آئے کہ ڈیرہ غازی خان شہر میں کچھ سیاسی جماعتوں کی طرف سے یوم آزادی کا جشن منایا جا تا رہا حالانکہ ہم نے آزادی کے اِن 75 سالوں میں کوئی ترقی نہیں کی ۔ اس سال تو سیلاب نے بلوچستان ، کراچی ،ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کو تو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ افسوس کہ 14 اگست کے دن ڈیرہ غازی خان آدھے سے زیادہ رود کوہوں کی وجہ سے ڈوب چکا تھا۔ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور میں ہر سال ِان رود کوہیوں کے ذریعے لاکھوں کیوسک پانی ضائع ہوکر دریائے سندھ میں چلا جاتا ہے جبکہ اربوں روپے کا نقصان بھی ہوتا ہے ۔ اِن رود کوہوں کے پانی کو کنٹرول کر نے کے لیے چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائے جا سکتے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان میں سردار فاروق احمد خان لغاری مرحوم اور اُن کے کزن ایم این اے سردار جعفر خان لغاری نے سب سے پہلے اِن رود کوہیوں کے پانی کو کنٹرول کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے ڈیم بنانے کی تجاویز دی تھیں،جو لوگ یہاں سے ایم این اے اور ایم پی اے منتخب ہوتے ہیں ان کا فرض ہے کہان علاقوں میں ڈیم بنوا ئیں جن سے زعی انقلاب کے ساتھ لوگوں کی جان بھی بچ جا ئے گی اور وہ اس پانی سے خوشحال بھی ہو جائیں گے ۔