چند روز قبل خواب میں ایک انوکھا منظر دیکھا کہ ایک بڑی سی حویلی کے صدر دروازے کے اوپر ایک جمبو سائز مالٹے کی شکل اوڑھے مسٹر آفتاب کہ جس کا صبح اُڑنے سے پیشتر بھی رنگ زرد ہی تھا، اب تو وہ بالکل زردے کا تھال لگ رہا تھا۔ صدر دوازہ کہ جس کی بیرونی تختی پہ مسٹر’ بیس مار خاں‘ کا نام اور گھر کے نمبر کے طور پر ۳۶۵ کا ہندسہ واضح طور پر پڑھا جا سکتا تھا، دھیرے دھیرے بند ہو رہا تھا ۔ اس سے پہلے کہ یہ اداس کر دینے والا منظر مزید دھندلاتا چلا جاتا، ایک طرف سے ایسی ہاہا کار سنائی دی کہ جس نے مغموم ماحول کے تأثر کو پوری طرح طا ری ہونے کا موقع بھی نہ دیا۔ دوسری جانب کیا دیکھتے ہیں کہ ایک گلی روشنیوں سے نہائی ہوئی، جس کی پیشانی پہ ’گرین وُڈ سٹریٹ‘ کی تختی لگی ہے، کے اندر سے ایک خوب صورت حسینہ نمودار ہوئی ، جس نے لش پش کرتی بلیو جینز کے اوپر نئی نکور گرم جیکٹ زیب تن کر رکھی ہے۔ چہرے پر خوش گوار مسرت اور تازگی نمایاں ہے۔سر پر جدید طرز کا ہَیٹ ہے، جس کے اوپر جمی برف واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ وہ استقبال میں نظریں اور دل بچھائے کھڑے لوگوں سے مخاطب ہو کے کہتی ہے : ’’ہائی! مَیں جنوری ہوں۔‘‘ ہجوم میں سے اچانک ایک جوان اور توانا مرد برآمد ہوتا ہے، جس نے ہلکے جامنی رنگ کی شارٹ سلیو شرٹ اور بے داغ کالی پتلون پہن رکھی ہے۔ سر پہ آرمی کٹ سیاہ گھنے بال ہیں، چال میں قدرے دھیما پن ہے۔ وہ ایک دم مٹک مٹک کر چلتی اُس ہائی ہیل والی نٹ کھٹ لڑکی کے سامنے آ کے ، اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے یوں مخاطب ہوتا ہے: ’’اچھا!!! تو تم جنوری ہو؟ یعنی انوری کی چھوٹی بہن!‘ ’جی نہیں فروری کی بڑی بہن!‘ ’ایک ہی بات ہے۔‘ ’جی نہیں دو باتیں ہیں بلکہ ان دو باتوں کے پیچھے بھی بہت سی باتیں ہیں!‘ ’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، دو ہی باتیں ہوں گی، تو کیوں نہ آج آپ سے بھی دو دو باتیں ہو جائیں؟‘ ’وہ تو تم کرو گے ہی! مجھے تم شکل سے ہی باتوں کے بھوت لگتے ہو!‘ ’آپ نے تو آتے آتے محاورہ ہی اُلٹ دیا، خیر نئی نسل سے زبان بگاڑنے کے علاوہ اور توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے، لیکن چھوڑیں! کیا مَیں آپ کے والد کا نام پوچھ سکتا ہوں؟‘ ’ابا جی کو پیار سے سال کہتے ہیں!‘ ’اور اماں جی کو غصے سے سالی کہتے ہوں گے؟‘ (مسکراتی ہوئی حسینہ ایک دم طیش میں آتے ہوئے) ابے میاں تم ہو کون؟ جو جوتوں سمیت آنکھوں میں گھسے آتے ہو۔‘ ’جی مَیں نے اپنے ہی قبیلے کی خاتون کو یوں آتے دیکھاتو ملنے کے لیے چلا آیا، ویسے اس خاکسار کو ستمبر کہتے ہیں!‘ ’کون کہتے ہیں؟‘ ’یہ آپ لوگ ہی کہتے ہیں!‘ ’میری تو زبان جل جائے جو مَیں نے کبھی کہا ہو‘ ’میرا مطلب ہے کہ آپ جیسے لوگ ہی کہتے ہیں!‘ (نہایت لاپرواہی سے کندھے اُچکاتے ہوئے) ’کہتے ہوں گے!!‘ ’اگر کچھ عرصہ ملتے رہے تو آپ بھی کہنے لگیں گی، میری تو معتدل مزاجی اور میانہ روی دنیا بھر میں مشہور ہے۔‘ ’میاں مَیں تو تمھیں پہلی ملاقات میں ہی اچھی طرح جان گئی ہوں، تم وہی اگست کے چھوٹے بھائی ہو ناں؟‘ (بہت خوش ہوتے ہوئے) جی ہاں! جی ہاں! خوب پہچانا۔‘ ’بڑا کمینہ شخص ہے!‘ (ایک دم جھینپتے ہوئے) ک ک ک… کون… کمینہ؟‘ ’وہی تمھارا بڑا بھائی! جس نے ہر ایک کا ناک میں دم کر رکھا ہے، میرے تو اُس کو دیکھتے ہی پسینے چھوٹنے لگتے ہیں۔‘ ’لیکن آپ بھائی جان کو کیسے جانتی ہیں؟‘ ’میری چھوٹی بہن جولائی کے پڑوس میں جو رہتاہے۔‘ ’اچھا اچھا اب سمجھا! لیکن وہ آپ کا تعارف تو بیچ میں ہی رہ گیا… مَیں آپ کے والد صاحب کے بارے میں پوچھ رہا تھا،و ہ کام کیا کرتے ہیں؟‘ ’وہ لمحے کاتتے ہیں اور صدیاں بُنتے ہیں۔‘ ’یعنی ذات کے جولاہے ہیں؟‘ (غصے سے غرّاتے ہوئے) جی ہاں! بہن میری جولائی ہے، باپ میرا جولاہا ہے … آپ کو کوئی تکلیف؟ … بس آپ بھی یہاں سے اپنا تانا پیٹا اٹھائیں اور چلتے پھرتے نظر آئیں، لوگ ایسے ہی تمھیں ستم گرستمبر نہیں کہتے ۔‘ ’بھئی آپ تو میرے مذاق ہی سے برا مان گئیں… مَیں تو آپ کی تعریفیں سن کے روزنامہ’ ماہ و سال‘ کے لیے آپ کا انٹرویو کرنے آیا تھا۔ مجھے پتہ چلا تھا کہ آپ بڑے ٹھنڈے مزاج کی متحمل خاتون ہیں… دیکھنے میں بھی کمال لگ رہی ہیں۔‘ (ایک دم مسکراتے اور شرماتے ہوئے) ’ شکریہ!، شکریہ!‘ ’اور پھر آپ کی یہ گرم اور خوش رنگ جیکٹ بھی کتنی جچ رہی ہے۔ بتانا پسند کریں گی کہ کہاں سے آئی ہے؟‘ ’یہ جون بھیا نے جیکب آباد سے بھجوائی ہے!‘ ’اچھا اچھا! مَیں سمجھا یہ بھی ابا جی نے اپنے ہاتھوں سے بُنی ہے!‘ (ایک دم شعلہ جوالہ بنتے ہوئے) ’بد تمیز! تم میرا انٹرویو کرنے آئی ہو یا میرا شجرہ خراب کرنے؟ جاؤ مَیں نہیں دیتی تم جیسے چھچھورے لوگوں کو انٹرویو!!‘ (اتنا کہہ کر وہ نوخیز حسینہ پیٹھ پھیر کر کیٹ واک کے انداز میں چل دیتی ہے۔ انٹرویو لینے والا شریر صحافی مجمعے کے قریب آ جاتا ہے اور جاتی ہوئی مٹیار کی جانب اشارہ کر کے ذو معنی مسکراہٹ کے ساتھ یہ شعر پڑھتا ہے: ) مہِ جنوری ہے نیا سال ہے دسمبر میں پوچھیں گے کیا حال ہے؟