ماہِ ذو القعدہ 5 ہجری میں مشرکینِ مکہ اور دیگر قبائلِ عرب بشمول یہودنے گٹھ جوڑ کر کے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک بہت بڑی فوج جمع کی۔چونکہ یہ مختلف قبائل اور مذاہب کے لوگوں کی متحدہ فوج تھی اس لئے اسے احزاب (حزب، بمعنی جماعت یا لشکرکی جمع) کہا جاتا ہے ۔یہ گویا کہ اسلام کے خلاف پہلی اتحادی فوج تھی اور چونکہ اس جنگ میں مسلمانوں نے مدینہ کے گرد ایک گہری خندق کھودی تھی اس لئے اس کو غزوۂ خندق بھی کہا جاتا ہے ۔ ان تمام قبائل میں سب سے طاقتور قبیلہ چونکہ قریش تھا۔ لہٰذا قریش میں سے حضرت ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جو بعد میں اسلام قبول کر کے صحابیت کے عظیم درجے پر فائز ہو کر دونوں جہاں کی سربلندیاں پا گئے ۔) تقریباً 4000پیادے ، 300 گھڑ سوار اورتقریبا1500 اونٹ سوار افراد پر مشتمل فوج لے کر روانہ ہوئے ۔ دوسری بڑی فوجی طاقت قبیلہ بنو غطفان کی تھی جس میں ایک ہزار گھڑ سوار تھے ۔اس کے علاوہ بنی شجاع اور بنی مرہ کی افواج بھی قابلِ ذکر تھیں۔اس فوج کی مجموعی تعداد دس ہزار سے بھی زیادہ تھی جو اس زمانے اور اس علاقے کی نسبت ایک انتہائی طاقتور اور منظم فوج تھی۔یہ فوج ذوالقعدہ 5 ہجری میں تیار ہوکر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئی۔ جن کی سوچ اور خواہش یہ تھی کہ وہ اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے لیکن ہوتا وہی ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے ۔ کیوں کہ اللہ نے اپنے نورِ اسلام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا۔ اگرچہ یہ کافروں کو ناگوار ہی کیوں نہ ہوتا:’’واللّٰہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون‘‘ اس سارے کرو فر کے ساتھ اور جوش و جذبے کے ساتھ جب یہ لوگ مدینہ کا محاصرہ کرنے کیلئے پہنچے تو وہاں کے حالات ان کی سوچوں سے بہت مختلف تھے ۔ سپہ سالارِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جب اس تیاری اور فوج کشی کا بتایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جاں نثارانِ مہاجرین و انصار سے مشورہ فرمایا کہ یہ جنگ مدینہ میں لڑی جائے یا مدینہ سے باہر نکل کر لڑی جائے ؟۔ مختلف صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مختلف مشوروں کے بعد حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ نے مدینہ شہر کے ارد گردایک دفاعی خندق کھودنے کا مشورہ دیا۔ یہ بات اہل عرب کے لیے ایک نئی چیز تھی۔ حضور سیدعالم خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مشورے کو پسند فرمایااور خندق کی کھدائی کا کام شروع کر دیا گیا۔چونکہ مدینہ منورہ ایک پہاڑی علاقہ تھا جو چاروں اطراف سے پہاڑوں میں گھرا ہوا تھااور گھر بھی ایک دوسرے سے متصل تھے جس کی وجہ سے گویا مدینہ کے ارد گرد ایک قدرتی فصیل قائم تھی‘ جہاں دو پہاڑوں کے درمیان فاصلہ زیادہ تھا وہاں خندق کھود کر اندر داخل ہونے کا راستہ بند کر نے کا فیصلہ کیا گیا۔ چنانچہ 8 ذوالقعدہ ۵ ھ کو حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ علیہم الرضوان کے ساتھ خندق کھودنے میں مصروف ہو گئے ۔ حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے دست مبارک سے اس خندق کا نقشہ اور احاطہ طے فرمایا اور دس دس صحابہ ٔ کرام علیہم الرضوان کو دس دس گز زمین کھودنے پر مقرر فرمایا اور تقریباً بیس دن کی شدید محنت اور مشقت کے بعد آخر کار یہ خندق تیار ہوگئی۔ (مدارج النبوۃ ) اس کی کھدائی میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بذاتِ خود شریک ہوئے اور مہاجرین و انصار جاں فشانی سے خندق کھودتے اور محبوبِ رب العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے اور دعاؤں سے مشرف ہوتے رہے ۔اس دورا ن حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی نہایت جوش و خروش سے کھدائی میں مصروف رہے جس کی وجہ سے انصار و مہاجرین میں سے ہر ایک گروہ کہنے لگا کہ سلمان ہم میں سے ہیں۔ اس وقت رحمتِ عالمیان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ سلمان میرے اہلِ بیت سے ہیں۔ سیدناجابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے جب مالک ارض و سماء کے محبوب ،سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شکم مبارک پر بھوک کی شدت سے پتھر بندھا دیکھا تو گھر میں موجود ایک صاع جو کے آٹے کی روٹی بنوائی اور بکری کے بچے کو ذبح کرکے اس کا سالن تیار کروایااور بارگاِہ نبوی میں عرض گزار ہوئے کہ آپ اپنے چند رفقاء کے ساتھ تشریف لائیں لیکن کائنات کے میزبان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خندق کھودنے والے اور اردگرد موجود سب لوگوں کو دعوت دے دی کہ جابر نے دعوتِ طعام دی ہے سب لوگ ان کے گھر چل کر کھانا کھا لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گوندھے ہوئے آٹے اور ہانڈی میں اپنا مبارک لعاب دہن ڈال کر برکت کی دعا فرمائی اور پھر آسمان نے یہ منظر دیکھا کہ ایک صاع جَو کا آٹا جوں کا توں رہا۔ ہانڈی ویسے ہی جوش مارتی رہی اور ایک ہزار افراد سَیر ہو کر کھانا کھا کر فارغ ہو گئے ۔(صحیح بخاری) خندق کی تکمیل کے تیسرے روز دشمن فوج مدینہ پہنچ گئی اور خندق دیکھ کرحیرت زدہ رہ گئی۔ آخرِ کار مدینہ کا محاصرہ کر کے خندق پار کرنے کے طریقے ڈھونڈنے لگی۔حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کو مدینہ کے محفوظ قلعہ میں جمع فرما دیا اور حضرت ابن اُمِ مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ بنا کر تین ہزار انصار و مہاجرین کی فوج کے ساتھ مدینہ سے نکل کر سَلَع نامی پہاڑ کے دامن میں جلوہ گر ہو گئے یہ ایک جنگی حکمتِ عملی تھی کہ پہاڑ آپ کے پیچھے تھا اور خندق سامنے تھی۔ مہاجرین کا علمبردارحضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا جبکہ انصار کا جھنڈہ حضرت سعد بن عبادہ کو عطا فرمایا(زرقانی) اللہ پاک نے اس حملے کی شدت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا:’’ جب کافر تم پر آ گئے تمہارے اوپر سے ا و ر تمہارے نیچے سے اور جب کہ ٹھٹھک کر رہ گئیں نگاہیں اور دل گلوں کے پاس(خوف سے )آ گئے اور تم اللہ پر (امید و یاس سے ) طرح طرح کے گمان کرنے لگے اس جگہ مسلمان آزمائش اور امتحان میں ڈال دیئے گئے اور وہ بڑے زور کے زلزلے میں جھنجھوڑ کر رکھ دیئے گئے ۔‘‘( الاحزاب:13)اس شدت کے حملے میں مومن اور منافق ظاہر ہو گئے ۔ منافقین گھر جانے کی اجازت مانگنے لگے جبکہ مسلمانوں کی حالت قرآن نے بتائی کہ اور جب مسلمانوں نے قبائل کفار کے لشکروں کو دیکھا تو بول اٹھے کہ یہ تو وہی منظر ہے جس کا اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے وعدہ کیا تھااور خدا اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں سچے ہیں اور اس نے ان کے ایمان و اطاعت کو اور زیادہ بڑھا دیا۔‘‘(الاحزاب: 22) عمرو بن عبدود کی سرکردگی میں کچھ لوگ خندق پار کر نے میں کامیاب ہوئے اور مقابلے کے لیے دعوت دی جس پر سیدناعلی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عمامہ سجا کر اور آپ کے ہاتھوں سے ذوالفقار لے کر اس کے مقابلے میں آئے اور اسے جہنم رسید کر دیا۔ الغرض یہ محاصرہ جاری رہا یہاں تک کہ یہود اور قریش میں پھوٹ پڑ گئی اوراچانک ایک رات سخت آندھی اور شدید طوفان آیا جس نے دشمنوں کے خیمے اکھاڑ دیئے ان کی دیگیں الٹ دیں اور ہر طرف گرد و غبار چھا گیا۔لہٰذا قریش اور اس کے اتحادیوں نے محاصرہ اٹھا کر بھاگنے میں عافیت جانی اور شدید مالی اور جانی نقصان اٹھا نے کے بعد واپس چلے گئے ۔ا س جنگ میں6 مسلمان شہید جبکہ مشرکین اور ان کے اتحادیوں کے 8 سے زیادہ افراد واصلِ جہنم ہوئے ۔یہ مسلمانوں کی ایسی شاندار فتح تھی کہ اس کے بعد کبھی کسی کو مدینہ پر چڑھائی کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔