جنگ ایک لفظ نہیں۔ جنگ لہو میں ڈوبی ہوئی ایک دنیا ہے۔ اس دنیا کو ہم اس طرح سے نہیں جانتے جس طرح اس دنیا میں رہنے والوں نے اس کو جانا ہے۔ اس لیے میں جب بھی جنگ کو سمجھنا چاہتا ہوں تب دوسری جنگ عظیم کے پس منظر میں لکھا جانے والا وہ ادب پڑھتا ہوں جس سے آج تک خون ٹپک رہا ہے۔اگر آپ جنگ کی ہولناکیوں کے بارے میں کچھ پڑھنا چاہیں اور یہ سمجھنا چاہیں کہ ’’جنگ کیا ہے؟‘‘ تب آپ کو سب سے پہلے اس ادب کا مطالعہ کرنا ہوگا جو مغربی دنیا کے دماغ میں پہلی جنگ عظیم سے پکنا شروع ہوا اور دوسری جنگ عظیم کے دوران پورا پک گیا۔ جب دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر یورپ کے لوگوں نے اپنے تخلیقی ادب کی دیگچی سے ڈھکنا ہٹایا تو کیا دیکھا؟ انہوں نے دیکھا کہ اس دیگچی میں بچوں کے اعضاء ابل رہے تھے۔ اس دیگچی میں کٹے ہوئے ہاتھ اور پاؤں گل رہے تھے۔ اس میں عارض محبوب کے حسین گلاب گل چکے تھے۔ بہت مشکل تھا۔ یہ تلاش کرنا کہ ان کے محبوب کے ہونٹ کہاں ہے؟ کہاں ہیں وہ خوبصورت آنکھیں جس پر وہ کبھی افسانے لکھتے تھے؟ کہاں ہیں وہ رخسار اور بال؟ وہاں تو کچھ بھی نہیں تھا۔ وہاں تو خون میں ابلتے ہوئے انسانی اعضاء تھے۔ اگر یورپ برسوں تک ادبی ڈپریشن کا شکار رہا ہے تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انہوں نے جنگ دیکھی ہے۔ ان کو معلوم ہے کہ جنگ کیا ہوتی ہے؟ جس قوم کو جنگ کا تجربہ ہے؛ اس قوم کو پتہ ہے کہ جنگ کی قیمت کتنی ہوتی ہے؟ ہم نے صرف جنگ کا نام سنا ہے۔ ہم کو کیا معلوم کہ جنگ کی قیمت کیا ہوتی ہے؟ اگر جنگ کی قیمت معلوم کرنی ہے تو پھر امریکی ادب پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کیوں کہ امریکہ نے ایسی جنگ نہیں لڑی جیسی جنگ یورپ نے لڑی ہے۔ یورپ کے جن ممالک کے وجود پر جنگ کے گہرے زخم آئے ان کو زیادہ معلوم ہے کہ جنگ میں کس طرح محبتیں جل کر راکھ ہوجاتی ہیں؟ جنگ میں کس طرح رشتے بچھڑ جاتے ہیں؟ کس طرح بچے اور عورتیں بے سہارا ہوجاتے ہیں۔کس طرح پیار اور محبت سے بنائے ہوئے گھر ملبے کے ڈھیر بن جاتے ہیں۔ اگر اس دور میں بھی کسی کومعلوم کرنا ہو کہ جنگ کیا ہے؟ یا جنگ کیا لاتی ہے؟ جنگ انسانوں کو کیا دیتی ہے؟ تو اسے ان سوالات کو شام کی سرزمین میں تلاش کرنا چاہئیے۔ ان سوالات کے جوابات عراق میں بھی مل سکتے ہیں۔ ان سوالات کے جوابات ہم افغانستان میں بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ جنگ اس معاشرے کونیست و نابود کردیتی ہے جس معاشرے کو بنانے کے لیے برسوں لگ جاتے ہیں۔ برسوں کی محنت سے بنائے معاشرے میں جنگ کے لیے سب کچھ ختم کرنے کے سلسلے میں چند پل بہت ہوتے ہیں۔ اس لیے جنگ کے بارے میں ہمیںاس دنیا کے اندر دیکھنے کی ضرورت ہے جس دنیا نے جنگ کو برداشت کیا ہے۔ جنگ صرف بندوق چلانے اورلہو بہانے کا نام ہیں۔ جنگ میں بہت سارے زخم ایسے ہوتے ہیں جن کا تذکرہ ہمیں اخبارات میں نہیں مل پاتا۔ جب ہم جنگ کے حقیقی زخموں کے نشانات اخبارات میں تلاش نہیں کرسکتے تو پھر الیکٹرانک میڈیا کو کیا معلوم کہ جنگ کیا ہے؟ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کو جنگ کے زخم صحیح طرح سے نظر آئیں تو پھر آپ کو اس ادب کا مطالعہ کرنا پڑے گا جو جنگ کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جرمن ادب بھی بہت اچھا ہے اور فرانسیسی ادب کا بھی کوئی جواب نہیں۔ مگر جنگ کا سب سے تلخ ذائقہ اس روسی ادب میں ہے جس میں لیو ٹالسٹائی سے لیکرچنگیز اعتماتوف تک روس کے ادیبوں نے جنگ کے دوران زندگی کا ہر رخ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ روس کے ادیبوں کو پڑھ کر ہم حقیقی طور پر جنگ کے نقصان کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ جنگ بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ اگر جنگ بچوں کا کھیل ہوتا تو روس آج تک نہ روتا۔ جنگ میں جو لوگ بچھڑ گئے وہ ابھی تک ایک دوسرے سے نہ مل پائے۔ جنگ میں انسانیت کی کس قدر توہین ہوتی ہے؟ اس سوال کا جواب بھی اس روسی ادب میں موجود ہے جس روسی ادب کے صفحات میں زندگی بال بکھرا کر روتی ہے۔ یہ جنگ کا تلخ ذائقہ تھا جس نے روس کے عظیم ادیب لیوٹالسٹائی کو شہرہ آفاق’’جنگ اور امن‘‘ تحریر کرنے پر مجبور کیالیوٹالسٹائی نے یہ کتاب اس لیے نہیں لکھی تھی کہ ہم کتاب پڑھ کر ٹالسٹائی کو داد دیں۔ ٹالسٹائی نے یہ کتاب اس لیے لکھی تاکہ نہ صرف اس کی قوم بلکہ دنیا کی ساری اقوام یہ کتاب پڑھیںاور جانے کہ جنگ کیا ہوتی ہے؟جنگ میں کیا کیا کھو جاتا ہے؟ جنگ میں انسان خدا کی کن کن نعمتوں سے محروم ہوجاتا ہے۔ مگر برصغیر کی نسل نو کو جنگ کے اس خطرناک پہلو کا کچھ پتہ نہیں۔ اس لیے وہ جنگ کے نتائج سے بے خبر ہوکر لڑنے میں بے صبری کا مظاہرہ کررہی ہے اگر اس کو پتہ ہوتا کہ جنگ کیا ہوتی ہے تو پھر وہ اپنے حکمرانوں کو اس طرح جنگ کی طرف بڑھنے کی اجازت نہ دیتی۔ پاکستان کی نسل نو پھر بھی کافی حد تک سنجیدہ ہے۔ مگر بھارت کی نئی نسل کے ذہنوں میں مودی نے جنگ کا جو نشہ بھرا ہے اس نے ان سے شعور چھین لیا ہے۔ وہ بچے جو ہندو ہیں ان کو نہیں معلوم کہ جنگ کتنی خوفناک ہوتی ہے؟ ہم نے جنگ صرف فلموں میں دیکھی ہے ۔ہم نے وہ فلمیں بھی ایسی دیکھیں ہیں جن میں زندگی کی حقیقی منظرکشی نہیں ہوتی۔ اگر بھارت کی نئی نسل جنگ کی حقیقی منظرکشی دیکھ پاتی تو پھر وہ جنگ کا کبھی نام تک نہیں لیتی۔ بھارتی فلموں میں تو جنگ کے مناظر بھی ان کی سیاست کی طرح جھوٹے ہوتے ہیں۔ ان کو کیا معلوم کہ حقیقی جنگ کیا ہوتی ہے؟اگر بھارت کے دانشوروں اور شاعروں نے محنت کی ہوتی اور انہوں نے اپنی نوجوان نسل کو جنگ کے نتائج سے آگاہ کیا ہوتا تو وہ اپنے ناکام وزیر اعظم نریندر مودی کو یہ اجازت ہرگز نہ دیتے کہ وہ جنگ کی بات بھی کرتے۔ جنگ کے جذبے کو ابھارنے اور انسانوں کو مروانے کا ماحول بنانے والے مودی کا محاسبہ ہونا چاہئیے مگر سوال یہ ہے کہ آخریہ سب کچھ کون کرے؟ پاکستان کی نوجوان نسل کو بھی مطالعے اور معلومات کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے مگر پاکستان کی نوجوان نسل میں ایک قسم کا تخلیقی عقل ہے۔ اس عقل اور اس ذہانت کی معرفت ہماری نئی نسل جنگ کے بخار میں مبتلا نہیں ہوئی۔ عالمی طاقتوں کا یہ فرض ہے کہ وہ جنگ کے بارے میں صرف ایک عدد اپیل کرکے خود کو بری الذمہ مت سمجھیں۔ عالمی طاقتوں کو چاہئیے کہ وہ جنگ کے خطرناک نتائج کے بارے میںآگہی دینے کے لیے برصغیر کی عوامی زبانوں میں وہ شعور عام کریں جس شعور سے ہماری نوجوان نسل جنگ سے دور جاسکے اور امن کے قریب آسکے۔ اگر وہ کچھ بھی نہ کریں اور لیو ٹالسٹائی کی ناول ’’جنگ اور امن‘‘ پر بننے والی فلموں کو ہی پاک بھارت زبانوں میں ڈب کریں اور ان کو میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچائیں تب بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے ۔ مگر عالمی قوتوں کو اس فرض کو ادا کرنے کا احساس تک نہیں۔ یہ احساس عالمی قوتوں میں کیوں نہیں ہے؟ کیا عالمی قوتوں کو برائی اور بھلائی کا علم نہیں؟ کیا عالمی قوتوں کو جنگ کا احساس نہیں؟ کیا عالمی قوتوں کو نہیں پتہ کہ جنگ کیا ہوتی ہے؟ عالمی قوتوں کو ہر چیز کا پتہ ہے۔ وہ اچھی طرح جانتی ہیں کہ جنگ کیا ہے اور امن کیا ہے؟اگر عالمی قوتیں پاک بھارت امن میں دلچسپی نہیں رکھتیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چاہتی ہیں کہ برصغیر جنگ کا میدان بنے اور جنگ کے لئے ان سے ہتھیار خریدے جائیں۔ کیا پاکستان اور بھارت اس عالمی سازش کو سمجھنے کے اہل نہیں؟ اگر پاکستان کو اس حقیقت کا پتہ نہ ہوتا تو پاکستان کا وزیر اعظم بار بار امن کی بات کیوں کرتا؟ اب یہ بات مودی کے ذہن میں بٹھانی ہے مودی کے ذہن میں امن کی بات کیسے بیٹھے گی؟ اس سوال پر بھارت کی نئی نسل کو سوچنا ہوگا۔