محترم ڈاکٹر معین نظامی نے فیس بک پر ایک افغانی شاعر کے درد انگیز اشعار پوسٹ کیے، ہر سطر میں گزشتہ 20 برسوں میں جنگ کی حالت میں گزر جانے والی ان کہی قیامتوں کی بے شمار داستانیں رقم تھیں۔یہ اشعار فارسی میں ہیں،ڈاکٹر صاحب نے کمال مہربانی سے اردو ترجمہ کے ساتھ انہیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا، جسے مجھ جیسے فارسی سے نا بلد افراد کا بھلا ہوا۔فارسی کے ان اشعار کو بمعہ ترجمہ کالم کا حصہ بناتے ہیں۔ان اشعار کو آپ اپنے آنسوؤں میں ڈوبے بغیر نہیں پڑھ سکتے۔ یہ اشعار نوجوان افغانی شاعر ضیا قاسمی کے ہیں : گاہی پدر شدیم و پسر را گریستیم گاہی پسر شدیم و پدر را گریستیم کبھی ہم باپ بنے اور بیٹے کو روئے،کبھی ہم بیٹا بنے اور باپ کو روئے۔ ہر روزوشب،درست چہل سال میشود ساعاتِ تلخِ پخشِ خبر را گریستیم پورے چالیس سال ہو گئے کہ دن ہو یا رات، خبریں نشر ہونے کی تلخ ساعتوں میں ہمیں ہمیشہ رونا ہی پڑا۔ مادر شدیم و از پسِ ہر زخمِ انفجار ہی چشم ہائی ماندہ بہ در را گریستیم ہم ماں بنے اور ہر دھماکے کے زخم کے بعد مسلسل دروازے پہ جمی آنکھوں کو روتے رہے۔ در خون نشست روسریِ دخترانِمان رخسارگانِ قرصِ قمر را گریستیم ہماری بیٹیوں کی اوڑھنیاں خون میں رنگی جاتی رہیں،ہم چاند کی ٹکیا جیسے رخساروں کا ماتم کرتے رہے۔ بعد از تو روزگار ہمانی کہ بود،ماند ہر سال ما قضا و قدر را گریستیم تمھارے بعد بھی زمانہ ویسا ہی رہا جیسا تھا،ہم ہر سال تقدیر پر آنسو بہاتے رہے۔ سچ ہے زندگی امن کی فضا میں کھلکھلاتی ہے جنگ اوربدامنی کی آکاس بیل زندگی کی شادابی چھین لیتی ہے۔ جنگ جو قیامت انسانی زندگیوں پر ڈھاتی ہے،اس کی اصل تصویر نظموں کی ادھوری سطروںغزل کے پورے مصرعوں اور اداس کہانیوں کے ان اجڑے کرداروں میں دکھائی دیتی ہے۔ زندگی جن کے لئے تشنہ آرزوؤں اور نا رساخوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ابھی صحافت میں آغاز کے دن تھے اور مجھے میگزین کے لیے فیچر لکھنے کا کام تفویض ہوا۔جس اخبار میں کام کرتی تھی وہاں کا ہیڈ آفس کراچی میں تھا، وہاں سے فیچر کے لیے موضوعات آیا کرتے تھے، اسی میں سے ایک موضوع تھا کہ دنیا بھر میں جنگوںمیں شعر و ادب پر کیا اثرات مرتب کیے۔اس پر کام کرنے کے لئے مجھے کہا گیا۔اس موضوع پر کام کیا تو ایک دبستان کھل گیا۔ دو عالمی جنگوں نے دنیا بھر کے ادب کو نئی جہت سے روشناس کرایا۔یہ رومانٹسزم سے حقیقت نگاری کی طرف ایک واضح تبدیلی تھی۔دنیا بھر میں جو سرزمینیں جنگ وجدل کی زد میں رہی ہیں،وہاں کے شاعروں اور کہانی کاروں نے جنگ زدہ زندگیوں پر بیتنے والے ناقابل بیان المیوں کو زبان دی۔اخباری رپورٹر سیاسی حالات کے تجزیہ کار اور موئرخین جنگ کے المیے کو فتح اور شکست کے خانوں اور اعداد و شمار کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔جنگ کی آگ اپنی زندگیاں کھو دینے والے ہندسوں میں ڈھل جاتے ہیں۔مرنے والوں سے جڑے رشتے بس غم زدہ لواحقین ہوتے ہیں۔ جب کہ شاعر اور کہانی کار ان آنسوؤں میں چھلکنے والے نارسا خواہشوں کی کہانیاں پڑھ لیتا ہے،کسی سپاہی کی بیوہ کے زرد چہرے پر سایہ کرتی غم کی پرچھائیاں دیکھ کر وہ اس کے خوابوں کی ویران گلیوں میں جھانک لیتا ہے۔ دنیا بھر میں ہونے والی جنگوں نے شعر و ادب پر کیا اثرات مرتب کیے، یہ بجائے خود ایک بہت بڑا موضوع ہے اس کو یہیں چھوڑ کر ہم واپس افغانستان کی سرزمین کی طرف آتے ہیں،جو سنگلاخ پہاڑوں کی سرزمین اور دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینے والے بہادروں کی سرزمین ہے۔ افغانستان کی سرزمین برسوں سے میدان کار زار بنی رہی ہے، ماضی قریب کی تاریخ دیکھیں تو مسلسل 42 برس تک افغانیوں نے جنگ دیکھی ہے،انیس سو اناسی روسی جارحیت کا سال تھا، اس سال پیدا ہونے والا افغان بچہ 2021 میں 42 برس کا ہوگا،جس نے بچپن پھر جوانی جنگ کی آگ میں جلتے ہوئے افغانستان میں گزار دی۔ یہ دلچسپ حقیقت دیکھیے کہ سنگلاخ پہاڑوں کی یہ سر زمین جس کے بیٹے ہمہ وقت جنگ پر آمادہ دکھائی دتیے ہیں رومی اور فردوسی جیسے عظیم شاعروں کی سرزمین بھی ہے۔ یہ خوشحال خان خٹک کی سرزمین ہے،خوشحال خان خٹک افغانستان کا قومی شاعر بھی ہے، جس نے ہزاروں شعر کہے اور عملی طور پر بھی میدان کارزار میں بہادر جنگجو کی زندگی گزاری۔شاعری سے افغانیوں کا رشتہ بہت پرانا ہے،دلچسپ روایت یہ ہے کہ یہاں پر افغانی آپس میں شعر جنگی کے نام سے ایک کھیل کھیلتے ہیں، یہ بیت بازی کی شکل ایک کھیل ہے۔ سیکنڑوں اشعار اس کھیل میں ایک دوسرے کو سنائے جاتے ہیں،دنیا افغانی عورتوں کو نیلے رنگ کے شٹل کاک برقعے کے میں لپٹی ہوئی جذبات سے عاری کوئی مخلوق سمجھتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ افغان عورتوں کا شعر و ادب کی لطیف وادی سے رشتہ بہت پرانا ہے۔عورت جو ہے ہی جذبات کے مدوجزر کا نام سو جبر کے موسموں میں بھی سخت پابندیوں کے پیچھے رہ کر افغانی عورت اپنے جذبات کا اظہار شعر وادب کے پیرائے میں کیا۔شعر ایسی ندی کی طرح ہے جو پتھروں میں سے راستہ بنانا جانتی ہے۔طالبان کے پہلے دور میں جب بے انتہا سختی تھی عورتوں کی تعلیم پر بھی پابندی تھی اس دور میں ہرات میں ایک سکول قائم کیا گیا جس کا نام تھا needle golden تھا۔جو بظاہر ایک سلائی سکول تھا لیکن یہاں پر افغان لڑکیوں کو شعروادب کے رموز سے سکھائے جاتے۔ (جاری ہے)