بھارت کی معیشت اور فوج کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، پاکستانی فوج سے بالاتر نہیں۔ تاریخ کا سبق مگر یہ ہے کہ مجموعی قومی بیداری اورسول اداروں کے فروغ پرہی قوموں کے مستقبل کا انحصار ہوتاہے۔ گلاس آدھا بھرا ہوا ہے یا آدھا خالی،یہ ذوق نظر کی بات بھی ہے۔ ہم جذباتی لوگ ہیں۔ چھ ستمبر 1965ء کی جنگ پر لکھنے والوں نے اس کے تاریک پہلو اجاگر کیے یا ایک ایسی عظیم الشان فتح، تاریخ میں جس کی کوئی مثال نہیں۔ حملے کے لیے ہماری فوج تیار نہیں تھی۔اس کے باوجود معرکہ اس نے سر کیا۔ بھارتیوں کو فتح کا مکمل یقین تھا۔ جنرل چوہدری نے اپنے افسروں کو بتایا تھا کہ لاہور فتح کرنے کے بعد شام کی ضیافت لارنس گارڈن کے جمخانہ میں ہوگی، جسے بعد میں باغِ جناح کا نام دیا گیا۔1949 ء میں جنرل لارنس کی یاد میں تعمیر کیا جانے والا باغ انگریزی عہد کے نوادر میں شمار ہوا کرتا۔ ایک ہزار برس پہلے محمود غزنوی نے اپنا گورنر لاہور میں لا بٹھایا تھا لیکن پھر پے بہ پے خانہ جنگیاں۔ سات سو برس تک مسلمانوں نے برصغیرپر حکومت کی؛حتیٰ کہ اورنگزیب کی وفات کے بعد آفتاب مرجھانے لگا۔ اب بھی غزنوی اور غوری کی چنگاریاں باقی تھیں۔ وہ جو ہسپانیہ کے باب میں اقبالؔ نے کہا تھا: کیونکر خس و خاشاک سے ڈر جائے مسلمان مانا وہ تب و تاب نہیں اس کے شرر میں سادہ اطوار جنرل موسیٰ جنرل چوہدری کو جنرل چوری کہا کرتے۔ اعلانِ جنگ کے بغیر حملہ کرنے والی فوج کا سالار۔ 6ستمبر کو کور کمانڈر جنرل مختار رانا کے نام جنرل موسیٰ کا پیغام مختصر ترین تھا اور پنجابی میں ’’پے جاؤ‘‘ٹوٹ پڑو۔ کہا جاتاہے کہ بھارتی حملہ آپریشن جبرالٹر کا ردّعمل تھا۔ جبل الطارق کا بگڑا ہوا نام۔ 1300برس پہلے جنرل طارق بن زیاد سپین کے ساحل پہ اترا او رکشتیاں جلانے کا حکم دیا تھا۔ بھارتیوں میں انتقام کی آگ 1947ء کے بعد نہیں بھڑکی بلکہ شیوا جی کے عہد سے چلی آتی ہے، نریندرمودی جس کا نیا روپ ہے،خود بھارت نواز مغربی میڈیا کے مطابق بھی ناکامی اور خودشکنی کی تمہید۔ آپریشن جبرالٹر میں پاک فوج کے جوانوں اور افسروں نے خیرہ کن کارنامے سرانجام دیے۔ بہت دور اندر گھس کر۔ نصف شب کو پیش آنے والے واقعے میں جواں سال کیپٹن سلطان نے ایک پوری بٹالین تباہ کر دی تھی۔ انہیں ستارہ ٔ جرات کا اعزاز ملا۔ کیپٹن نادر پرویز کو بھی۔ پھر دونوں کو 1971ء میں بھی۔ بڑی جنگیں لاہور اور سیالکوٹ کے محاذوں پر ہوئیں۔ لاہور میں عزیز بھٹی نے نشانِ حیدر کا اعزاز پایا اور وہ ہمیشہ ہماری یادوں میں زندہ رہیں گے۔ ایک کم سخن اور یکسو آدمی، جس نے عہدِ قدیم کی یادیں تازہ کر دیں۔ بتایا جاتاہے کہ بھارتی سپاہ لاہو رکے نواح میں باٹا پور تک آپہنچی تھی لیکن پھر وہ خوفزدہ ہو کر پلٹ گئے کہ یہ دشمن کی چال ہی نہ ہو۔ پاکستانیوں کی بے مثال شجاعت کی شہادت مغرب، بالخصوص برطانوی اخبار ات میں دیکھی جا سکتی ہے۔ محاذِ جنگ سے ایک جنگی وقائع نگار نے لکھا: حالتِ جنگ میں بھی پاکستانی افسروں کی وردیاں نک سک سے درست اور بوٹ پالش سے چمک رہے تھے؛دراں حالیکہ دشمن نے اچانک انہیں آلیا تھا۔ چونڈہ میں دوسری عالمگیر جنگ کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ ہوئی،اساطیری داستانیں جس سے وابستہ ہیں۔وہاں غالباً جنرل ٹکا خان محاذِ جنگ پر تھے۔انہیں ویٹرنری قرار نہیں دیا جاتا لیکن عزیز بھٹی کی طرح یکسوئی ان میں بھی کمال کی تھی۔ خوف ان کی کھال میں داخل نہ ہو سکتا تھا۔ وہ سرتاپا ایک سپاہی تھے۔ پوٹھوہار کے فرزند، دلاوری اور فنِ سپاہ سے جس کی پوری تاریخ جگمگ جگمگ کرتی ہے؛اگرچہ دوسرے خطوں کے سپاہی کمتر نہ تھے لیکن پوٹھو ہاری تو پیدائشی طور پر سپاہی ہوتے ہیں۔ ایرانی جنگ تک نہ لڑ سکے، ٹیکسلا میں پوٹھوہاری اگرچہ ہار گئے لیکن ڈٹ کر لڑے۔ سکندر کی فوج تھک گئی اور اس نے واپسی کا ارادہ کیا۔ ملتان میں وہ زخمی ہوا اور بمشکل مصر کی ایک بستی تک پہنچ سکا، بعد ازاں جس کا نام سکندریہ رکھ دیا گیا۔ سکندر کا شمار حیرت انگیز طور پر تاریخ کے عظیم سپہ سالاروں میں ہوتاہے؛حالانکہ وہ کوئی سلطنت تعمیر نہ کر سکا۔ چند برس بہادری کے جوہر دکھائے اور تحلیل ہو گیا۔ اس کی کوئی وراثت نہ تھی۔ فقط چند برس کی حکومت۔ کہا جاتاہے کہ بعد میں اس کے پیروکار پاکستان کے کافرستان اورپرلی طرف افغانستان کی دشوار گزار وادیوں میں جا اترے، جسے اب نورستان کہا جاتاہے۔ کہاجاتاہے کہ آپریشن جبرالٹر کا مشورہ ذوالفقار علی بھٹو نے دیا تھا۔ وہ مہم جوئی کا مزاج رکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کشمیر چونکہ متنازعہ ہے؛لہٰذا بھارت پاکستانی سرحد عبور نہ کرے گا۔ ہوا اس کے بالکل برعکس۔ اس لیے کہ کسی مہذب ملک سے نہیں، واسطہ بھارت سے تھا۔ بعض لوگ اس میں سازش کی بو سونگھتے ہیں کہ وہ ایوب خاں کی شکست کے آرزومند تھے۔ آخری فیصلہ تو بہرحال خود فیلڈ مارشل ہی نے کیا تھا۔امریکہ نے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا اور کے جی بی نے بھارتیوں کی بھرپور مدد کی۔ یہ بھی ہے کہ آپریشن جبرالٹر سے پہلے کشمیر کی رائے عامہ ذہنی طور پر تیار نہ کی گئی؛چنانچہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے۔ ضیاء الحق کے عہد میں کی جانے والی منصوبہ بندی بدرجہا بہتر تھی۔ اس لیے کہ 71ء کی جنگ سے سبق سیکھا گیا۔ آئی ایس آئی کو دنیا کی بہترین ایجنسی بناد یا گیا۔ پاکستان ایک ایٹمی قوت بن چکا تھا۔ بھارت کے مقابلے میں پاکستانی عساکر انشاء اللہ ہمیشہ برتر اور بہتر رہیں گے۔ سیاچن میں وہ رضاکارانہ جاتے ہیں اور بھارتی مارے باندھے۔بھارت میں افسروں کی سینکڑوں آسامیاں خالی رہتی ہیں۔ چھٹیوں کی درخواستیں پے درپے اور خودکشی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ اسلامی ممالک میں پاکستان واحد ہے، جس نے دہشت گردی کا تقریباً مکمل طور پر صفایا کر دیا؛دراں حالیکہ علما اور سیاستدانوں نے کوئی مدد نہ کی۔ برسوں رائے عامہ بھی کنفیوژن کا شکار رہی۔ 1965ء کی جنگ کے کئی سبق ہیں۔ تین گنا بڑے دشمن کا حملہ پسپا کر دیا گیا۔ بہترین تیاری اور جذ بہ ء شہادت بنیادی عوامل تھے۔ خوش دلی سے زندگی نذر کرنے کی توفیق صرف مسلمان کو ہو سکتی ہے۔ 1971ء کی شکست اصلاً سیاسی تھی۔ مشرقی پاکستان میں فوج برائے نام، صدارت کے منصب پر ایک نیم پاگل آدمی مسلط تھا۔ یحییٰ خان، شیخ مجیب الرحمٰن اور بھٹو کی ہوسِ اقتدار سے پیدا ہونے والی کشمکش سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ ماضی کے مقابلے آج پاکستان کہیں زیادہ محفوظ ہے۔ فوج کی تربیت اور قربانیاں،کراچی، بلوچستان، قبائلی پٹی اور سیاچن میں وہ سب کے سب امتحان سے گزرے۔ سات ہزار شہید، جن میں ایک ہزار افسر شامل ہیں۔ تاریخ کا سبق بہرحال یہی ہے کہ داخلی اتحاد ہی عافیت اور فتح کی ضمانت دے سکتاہے۔ بھارت کی معیشت اور فوج کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، پاکستانی فوج سے بالاتر نہیں۔ تاریخ کا سبق مگر یہ ہے کہ مجموعی قومی بیداری اورسول اداروں کے فروغ پرہی قوموں کے مستقبل کا انحصار ہوتاہے۔